بارش حکمرانوں پر بھی برس گئی

اگر ہمارے حکمران اپنے ووٹروں کے ساتھ یہی برادرانہ اور مشفقانہ سلوک شروع سے کرتے جو ان سے متوقع تھا۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

بارشیں خصوصاً پنجاب کے بالائی اور وسطی علاقوں میں جس قدر ذوق و شوق کے ساتھ برس گئیں اس پورے علاقے کو اس کی زمینوں اور گھروں سمیت نہال کر دیا۔ اوپر آسمان اور بادل اور نیچے زمین پر بادلوں کی حکمرانی۔ ہر طرف پانی ہی پانی۔ پنجاب کے بارانی علاقوں خصوصاً وادی سون میں بارش نہیں ہوئی، گاؤں والوں نے کہا ہے کہ حال ہی میں اتنی بارشیں ہوگئی ہیں کہ فی الحال مزید بارشوں کی ضرورت نہیں اس طرح وادی سون والوں نے بارش سے تازہ محرومی کی شرمندگی مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن جن علاقوں میں بارش ہوئی ہے اور بارش بھی غضب کی وہ جہاں ایک ناگہانی آفت میں پڑ گئے ہیں خوش بھی ہیں کہ انھوں نے اپنے محبوب حکمرانوں کو جی بھر کر دیکھا ہے جو بارش زدگان کی دیکھ بھال اور ان کے ساتھ عملاً ہمدردی کر رہے ہیں۔

اگر ہمارے حکمران اپنے ووٹروں کے ساتھ یہی برادرانہ اور مشفقانہ سلوک شروع سے کرتے جو ان سے متوقع تھا تو آج ہم اسلام آباد میں دو دو دھرنے نہ دیکھتے۔ یہ دھرنے ان عوام کا نام ہیں جو ان سے حکمرانوں کی بے اعتنائی اور بے توجہی کی وجہ سے نالاں تھے۔ ہمارے وزیراعظم کو تعجب ہے کہ اسمبلی تک میں نہیں گئے اور سینیٹ کے کسی اجلاس میں تو شاید اب تک نہیں گئے حالانکہ کسی کا وزیراعظم بن جانے کا نشہ تو پارلیمنٹ میں جا کر ہی دہکتا ہے۔ ہمارے بڑے اور چھوٹے حکمران کو اس وقت پنجابی زبان میں جو ''پھسوڑی'' پڑی ہوئی ہے اس کی نوبت ہی نہیں آنی تھی لیکن وزیراعظم تو شاید پچھتا رہے تھے کہ وہ وزیراعظم کیوں بن گئے ہیں۔

یہ عہدہ تو وہ پہلے بھی دوبار انجوائے کر چکے ہیں اب تو وقت ضایع کرنا ہے چنانچہ انھوں نے وقت ضایع نہیں کیا اور نہ کسی اسمبلی میں گئے نہ کسی عوامی اجتماع میں البتہ وہ اپنے گھر کی پچ پر کرکٹ کھیلتے دیکھے گئے۔ہمارے منتخب حکمران اگر اپنے ووٹروں کا دھیان کرتے تو انھیں اپنی حکمرانی کا بڑا لطف آتا لیکن انھوں نے تو اپنی انتخابی کامیابی بھارت کے نام کر دی اور بھارت دوستی کو اس کامیابی کا پھل بنا دیا، پاکستان کے عوام یہ سب دیکھتے ہی رہ گئے اور اپنی اوقات یاد کرتے رہے مگر لگتا ہے اب کے بارش ان حکمرانوں پر بھی برس گئی ہے اور وہ بھاگتے پھرتے ہیں۔

کوئی مہینہ بھر سے جاری حیرت انگیز دھرنے جس رنگ و نور کی برسات کے ساتھ شروع ہوئے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ یہ سب ہنگامہ رنگ و بو ہماری رپورٹنگ کے زمانے سے بہت ہی بعد میں ہوا ہے۔ ہم نے تو بزرگ خواتین سے تحریک پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کا حال احوال اور وہ بھی رفت و گذشت کی کیفیت میں سننے میں ہی گزار دی۔ ان تازہ دھرنوں کا حال مستقبل کا کوئی رپورٹر آپ کو سنائے گا۔ اب تو ہمارے ٹی وی نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے شاید کسی رپورٹر کے بیان اور رپورٹ کی ضرورت بھی نہیں رہی یہ دھرنوں کا جو رنگ جما ہے اور جو ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اس کا اصل باعث اور وجہ ہمارے حکمرانوں کی سستی ہے۔

جنہوں نے صرف الیکشن کے ووٹوں کو ہی کافی سمجھ لیا کہ جب تک یہ زندہ ہیں ہمارے ساتھ ہیں لیکن جس طرح ووٹ لینے والے لیڈر فوراً ہی ان ووٹوں کو سیاست کے بازار میں لے آتے ہیں اور انھیں کھرا کر لیتے ہیں اس طرح ووٹر بھی اپنی حمایت کا کچھ معاوضہ طلب کرتے ہیں جو دنیا بھر میں کیا جاتا ہے کہ ان کے نئے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کے مسائل بھی حل کرنے کی کوشش کریں لیکن وہ اپنے ووٹروں کو زندہ دستیاب ہی نہیں ہوں تو ووٹر پھر کسی دھرنے میں نہ جائیں تو اپنا غم غلط کرنے کے لیے کہاں جائیں۔ اور ان کی خوش قسمتی کہ غم غلط کرنے کا جو سامان ان دھرنوں میں ہے یہ ان عوام کو کبھی خواب میں بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔


پاکستان کی قدیم طرز کی ثقافت کا یہ بالکل نیا انداز معاشرتی اور تہذیبی موضوع پر کام کرنے والوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور ان کے سامنے ایک نئی دنیا کو بے نقاب اور بے پردہ کرتا ہے۔ اب کہاں عوام یعنی ووٹروں کے لیے وہ بند اور محفوظ گھر اور محلات اور کہاں یہ کھلے دھرنے جن میں شرکت کی برملا دعوت دی جاتی ہے اور استقبال بھی کیا جاتا ہے اس سے آگے ووٹروں کی اپنی ہمت ہے۔ اسلام آباد کے سبزہ زاروں اور مرغزاروں نے بہت کچھ دیکھا ہے لیکن ایسے نظارے تو اس شہر کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے اسلام آباد کے درودیوار حیرت زدہ ہیں اور سیاست کی اس اچانک کرمفرمائی میں مدہوش ہیں۔

یہ دھرنے درحقیقت کسی مولوی اور مسٹر کی عنایت نہیں ہیں بلکہ ان حالات کا ثمر ہیں جو ہمارے سیاستدانوں نے پیدا کر دیے ہیں اور ان حالات میں بادل نخواستہ کچھ تبدیلی ہو گی تو وہ بھی حکمران ثانی میاں شہباز شریف کے دم قدم سے جو آبادیوں کے پانیوں میں رواں دواں ہیں۔ بارش کے پانی کے ساتھ ساتھ وہ بھی گلی کوچوں میں نکل گئے اور اپنے الیکشن یعنی اپنی پارٹی کے الیکشن کی لاج رکھ لی۔ اس کارکن وزیراعلیٰ کو میں اپنی طرف سے 'تحفہ کالم' ہی دے سکتا ہوں جو پیش خدمت ہے۔

یہ تحفہ ان کی عوامی خدمت کا ایک معمولی سا اعتراف ہے،ویسے ذاتی طور پر میں وزیراعظم کا ممنون ہوں اور ان کے احسانات کو کوئی تحفہ پیش نہیں کرسکتا سوائے شکریے کے جو ہمیشہ کرتا رہوں گا اور اپنی نیاز مندی کا تحفہ اپنے گلے میں لٹکائے رکھوں گا۔ میں ایک کاغذ تلاش کر رہا تھا کہ ان میں سے ایک خط نکل آیا۔ سرکاری ٹائپ شدہ خط جس کے اوپر سبز رنگ کی روشنائی سے وزیراعظم نے میری تعریف میں چند کلمات خصوصی طور پر اپنے قلم سے تحریر کیے تھے لیکن ان کی مہربانیاں ان چند سطروں سے بہت زیادہ ہیں مگر جب تک وہ سیاست میں ہیں تب تک وہ ہمارے ایک اور سیاست دان ہیں۔

ایک بہت ہی ضروری بات عرض کرنی ہے کہ بجلی والوں نے بجلی کم کر دی ہے مگر بل بہت ہی زیادہ۔ گاؤں سے اطلاع ملی ہے کہ چار پانچ ہزار کا بل ملا ہے جو کسی بھی دیہی گھر کے لیے ناقابل برداشت ہے جس گھر میں ایک آدھ پنکھا یا دو تین بلب ہوں اس کا بل کتنا آ سکتا ہے یہ کوئی متعلقہ محکمہ کو قرآن پر ہاتھ رکھوائے اور پوچھے لیکن خبر میں بتایا گیا ہے کہ اگست کے بلوں میں 40 سے 70 فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ بجلی کا بل ہر گھر کا مسئلہ ہے خواہ وہ کسی گاؤں کا گھر ہو یا لاہور کا ظلم بہر حال ظلم ہوتا ہے۔ مکان و مقام کی پروا نہیں کرتا اور نہ امیر و غریب کی۔ اقتدار کے طلب گار دھرنے والوں سے عرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اپنے دھرنوں کے مطالبات میں شامل کر لیں۔ اس ملاوٹ سے ان کے دھرنوں کا نشہ بڑھ جائے گا۔

مسائل کے انبار میں سے کس کس کا ذکر کیا جائے لیکن ایک مسئلہ بہت اہم ہے۔ میں کئی دنوں سے ماضی کے ایک دبنگ مشہور و معروف اور میرے خصوصی مہربان سیاستدان جناب ملک غلام مصطفیٰ کھر کو میں کسی دھرنے کے لیڈر کی بغل میں کھڑا دیکھ رہا ہوں۔ جناب کھر صاحب بذات خود بھی زندہ سیاست دان ہیں اور ایک انفرادی سیاسی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ بہر حال یہ دھرنے والے جو کھر صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے مہمانوں کی انتظار گاہ میں دھرنا دیا کرتے تھے ،آج ان کی مہربانی کہ کھر صاحب کو اپنے قریب جگہ دے رہے ہیں۔ ایک آیت درج کرتا ہوں آپ اس کا ترجمہ معلوم کر لیں یا ضروری بھی نہیں کہ جس سیاق و سباق میں یہ لکھی جا رہی ہے اس کی وضاحت کے لیے وہی کافی ہے۔ تلک الایام ندا ولہا بین الناس۔
Load Next Story