نیول سیکیورٹی ٹیم کی دلیرانہ کارروائی

ایڈیٹوریل  منگل 9 ستمبر 2014
یوم دفاع کے موقعے پر کراچی نیول ڈاکیارڈ پر حملہ عسکریت پسندانہ عزائم کی جانب اشارہ کرتا ہے۔۔۔  فوٹو؛فائل

یوم دفاع کے موقعے پر کراچی نیول ڈاکیارڈ پر حملہ عسکریت پسندانہ عزائم کی جانب اشارہ کرتا ہے۔۔۔ فوٹو؛فائل

نیول ڈاکیارڈ کراچی پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنادیا گیا جب کہ دوطرفہ فائرنگ سے دو حملہ آور ہلاک اور ایک افسر نے جام شہادت نوش کیا ۔ یہ بات پاک بحریہ کے ایک اعلامیے میں کہی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کراچی ایئر پورٹ اور کوئٹہ میں واقع ایئر بیس پر حملوں کے بعد نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملہ عسکریت پسندوں کے خطرناک اور مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے جس سے ان خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ وہ فاٹا میں آپریشن کے باوجود ملک کے سب سے بڑے شہر میں بدستور متحرک ہیں ، وہ اپنے اہداف اور ہمہ وقتی منصوبہ بندیوں سے دست کش نہیں ہوئے اور اگر انھیں اسی سرفروشانہ جذبہ اور احساس فرض کے ساتھ مسلسل شکست و ہزیمت سے دوچار کیا جاتا رہا تو وطن عزیز کے اثاثوں کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے کچھ بھی بھی نہیں کر سکیں گے ۔

یوم دفاع کے موقعے پر ان کا کراچی نیول ڈاکیارڈ پر حملہ اسی عسکریت پسندانہ عزائم کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمے داری قبول کی ہے ، تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں موجود دہشت گرد گروہ اپنے نیٹ ورک اور جدید ترین اسلحہ ، خود کش جیکٹوں ، اور گولہ بارود کے ساتھ بلدیہ ٹاؤن، ماری پور ، اورنگی ،کورنگی، لیاری، مواچھ گوٹھ، کیماڑی، شیریں جناح کالونی اور کراچی کے دیگر ساحلی علاقوں میں روپوش ہیں ۔ کراچی کی بندرگاہ ان عناصر کے آیندہ کے گھناؤنے منصوبوں کا ٹارگٹ بن سکتی ہے ۔

اپنے محل وقوع کے اعتبار سے منی پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کی طرف سے مستقل خطرہ رہیگا کیونکہ داخلی امن سے محروم منی پاکستان کے سماجی اور معاشی مراکز ان دہشت گردوں کی نگاہ میں ہیں ، وہ کئی بار ان پر حملوں اور بربادی کی وارننگ دے چکے ہیں مگر کراچی میں قتل وغارت کا کلچر اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور روزمرہ قتل معمول بن چکے ہیں ۔ اگلے روز شیرشاہ کے علاقے میں باپ بیٹے کو چلتے رکشے میں گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا، تین روز قبل ممتاز شیعہ عالم دین علامہ عباس کمیلی کے فرزند علامہ علی اکبر کمیلی کو قتل کیا گیا ۔ مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنما علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ شیعہ عمائدین کو منصوبہ بندی سے قتل کیا جارہا ہے ۔

اس بدامنی اور درد انگیز کشت و کشار کا خاتمہ ضروری ہے ۔ کراچی کو قتل گاہ بنایا گیا ہے ۔ چنانچہ اس تناظر میں یہ امید افزا بات ہے کہ پاک بحریہ کے مستعد اور چابکدست سیکیورٹی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرکے بحری جہازوں کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ نہ صرف ناکام بنادیا بلکہ یہ ثابت کردیا ہے کہ دہشت گرد اہم تنصیبات اور حساس مقامات تک رسائی حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے ۔ تاہم ایئر بیسزپر حملوں سے دہشتگردوں کو باز رکھنے کے لیے مزید بہتر مزاحمتی اور دفاعی میکنزم کی ضرورت ہے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ دشمن شکست کے خوف سے حساس مقامات کے حصار کو توڑنے اور اہداف تک رسائی حاصل کرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اس تناظر میں دہشت گردوں کا سمندر کے راستے کا انتخاب ان کی جارحانہ حکمت عملی اور ریاست دشمنی کی گھناؤنی کوشش ہے اور پاک بحریہ کی سیکیورٹی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے جوانمردی سے دہشت گردی کی اس مذموم واردات کوروکا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہفتے کی شب نامعلوم حملہ آور جدید اسلحے سے لیس ہوکر سمندر کے راستے سے آئے اور نیول ڈاکیارڈ پر حملہ کیا ، انھوں نے اندر داخلے کی کوشش کرتے ہوئے شدید فائرنگ کی، پھر دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 حملہ آور ہلاک جب کہ4 دہشتگردوں کو زندہ گرفتار کر لیا گیا ۔

واقعہ میں پاک نیوی کے ایک پیٹی افسر نے جام شہادت نوش کیا جب کہ 6 جوان زخمی بھی ہوئے ۔ ایک ہلاک شدہ نوجوان  کے بارے میں کراچی پولیس چیف غلام قادر تھیبو کا دعویٰ  ہے کہ شواہد کے مطابق وہ اے آئی جی سندھ علی شیر جاکھرانی کا بیٹا ہے،وہ ڈاکیارڈ حملے میں ملوث تھا، اس نے ساتھیوں کے ہمراہ ڈاکیارڈ پر حملہ کیا، وہ ڈاکیارڈ کی ملازمت چھوڑ چکا تھا ۔جب کہ ڈاکس تھانہ کے علاقے سے ملنے والی لاش اویس جاکھرانی کی بتائی گئی ہے جو ایدھی سرد خانے سے ان کے چھوٹے بھائی دانیال جاکھرانی نے جاکر وصول کی ۔واضح رہے ایک اور خبر کے مطابق ایڈیشنل آئی جی اسٹبلشمنٹ علی شیر جاکھرانی کے بیٹے اویس جاکھرانی کو اغواکاروں نے تین روز قبل ڈیفنس سے اغوا کر کے بھاری تاوان طلب کیا تاہم عدم ادائیگی پر اسے قتل کر کے لاش سمندر میں پھینک دی اور لواحقین کو ٹیلی فون پر اطلاع کی ۔ ان متضاد بیانات سے صورتحال کافی پیچیدہ ہونے کا اندیشہ ہے ،چنانچہ فوری تحقیقات کرکے اصل حقیقت سامنے لانی چاہیے ۔

ادھر پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آصف سندھیلہ نے اس کارروائی میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی عیادت کی اور انھیں کامیاب کارروائی پر خراج تحسین پیش کیا ۔ حملہ فجر کے وقت ہوا جو کراچی ایئرپورٹ اور مہران ایئر بیس طرز کا تھا ۔ ترجمان کے مطابق آپریشن مکمل کرنے میں8گھنٹے لگے جب کہ ایس ایس جی کمانڈوز نے دہشتگردوں پر دو گھنٹے میں قابو پایا ، ان کے پاس بڑی تعداد میں ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوفیں تھیں۔ پاکستان نیوی کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کے مطابق تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے اور وہ اسپتال میں زیر ِعلاج ہیں۔ تحویل میں لیے گئے شرپسندوں سے تفتیش کے نتیجے میں حساس اداروں نے ملک کے مختلف حصوں میں چھاپے مار کر اس واقعے میں ملوث کئی دوسرے افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان چھاپوں کے دوران بڑی مقدار میں ہتھیار اور اسلحہ بھی برآمد ہوا ۔ پاک بحریہ کا کوئی مالی نقصان نہیں ہوا اور متاثرہ علاقے کو اُسی دن کلیئر قرا ر دیدیا گیا تھا ۔ نیول چیف نے کامیاب آپریشن میں حصہ لینے والے سیکیورٹی اسٹاف کی جر أت اور مستعدی کو سراہا اور زخمی اہلکاروں کی عیادت بھی کی۔

واقعے کی باضابطہ تحقیقات کے ساتھ ساتھ حساس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے مصروف تفتیش ہیں ۔ تاہم ایئر بیسز پر ممکنہ حملوں سے دہشتگردوں کو باز رکھنے کے لیے مزید بہتر مزاحمتی اور دفاعی میکنزم کی ضرورت ہے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ دشمن شکست و ہلاکت کے خوف سے حساس مقامات  کے حصار کو توڑنے اور اہداف تک رسائی حاصل کرنے کا خیال ہی دل سے نکال دیں۔ اس تناظر میں دہشت گردوں کا سمندر کے راستے کا انتخاب ان کی جارحانہ حکمت عملی اور ریاست دشمنی کی گھناؤنی کوشش ہے لیکن پاک بحریہ کی سیکیورٹی ٹیم اپنی اینٹی ٹیررازم کارروائی پر مبارک باد کی مستحق ہے جس نے جوانمردی سے دہشت گردی کی اس مذموم واردات کو ناکام بناکر دو کو ہلاک اور چار دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔