کتا ب محل سے ڈی چوک تک

زاہدہ حنا  بدھ 17 ستمبر 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کتابوں سے عشق پرانا ہے ، اسی لیے جب کسی کتاب گھر کی موت کی خبر آتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی پرانا دوست ہمیشہ کے لیے بچھڑگیا ہے ۔ایسی خبریں اب یورپ اور امریکا سے بھی آتی ہیں لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں لوگوں کا رجحان E-Book کی طرف زیادہ ہوچکا ہے۔

وہ انھیں اپنے ڈیسک ٹاپ‘ لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ کے اسکرین پر پڑھتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں کتابوں کی کسی دکان کے بند ہونے کامطلب یہ ہے کہ علم کا ایک دروازہ بند ہوا اور اب پڑھنے والے اس کے سامنے کھڑے ہوکر اسے جوتوں‘ کپڑوں یا فاسٹ فوڈ کی کسی دکان میں بدلتے ہوئے دیکھیں گے اور اپنے مقدر کو روئیں گے ۔

کسی کتاب گھر کے بند ہونے کا جو واقعہ مجھے دہلاگیا تھا ‘ وہ اب سے لگ بھگ 25 برس پہلے پیش آیا تھا۔دلی کے مشہور شاعرآغا قزلباش کے بیٹوں کو پاکستان کی کشش کھینچ لائی۔ دلی میں ان کا گھر’قصر شاعر‘ کہلاتا تھا ۔اس گھر سے رسالہ ’چمنستان‘ نکلتا تھا ۔ کتابوں کی ایجنسی ’نگارستان‘ تھی ۔ ترک وطن کے راستے میں سب کچھ غتر بود ہوا ‘ یہاں پہنچے تو نون تیل لکڑی کا معاملہ تھا ۔ دلی کے اس مشہور ادبی خاندان کے بیٹے نہ جوتے بیچ سکتے تھے ‘ نہ قلفی اور فالودہ یا حلوہ پوری ۔ باپ اور دادا شاعر ‘ گھر میں ہر وقت شاعروں اور ادیبوں کا آنا جانا ۔ اکلوتی بہن سحاب قزلباش بھی شعر کہتی تھیں ‘ کہانیاں لکھتی تھیں ۔گھر میں نذر سجاد حیدر‘ قرۃ العین حیدر ‘ کرشن چندر اور منٹو یا منشی پریم چند اور عصمت چغتائی کی باتیں ہوتیں۔

ان بھائیوں نے کراچی آکر یہاں بھی کتابوں کے کاروبار کو افضل جانا ‘حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب جید شاعر سنیما الاٹ کرا رہے تھے۔ کراچی کی سب سے فیشن ایبل اور مہنگی سڑک الفنسٹن اسٹریٹ پر آغا آفتاب اور آغا سرخوش قزلباش نے ایک بہت چھوٹی سی دکان 35ہزار پگڑی پرلی اور اس میں اردو کی نہایت عمدہ اور نایاب کتابیں سجالیں۔ دکان کا نام ’کتاب محل ‘ رکھا۔ ادب دوستوں اور ادیبوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے کتاب محل کے پھیرے لگانے شروع کیے۔ ادب دوست کتابیں خرید کر چلے جاتے۔ ادیب اور شاعر گھنٹوں جمع رہتے ۔ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی ‘ اس کے باوجود کوئی کھڑا رہتا ‘ کوئی زیادہ بزرگ ہوتا تو اسے اسٹول فراہم کردیا جاتا اور کوئی اکڑوں بیٹھ کر وقت گزارتا۔ کتاب محل سے کتابوں کی فروخت تو کم ہوتی ‘ سڑک پار جو ایرانی چائے والا تھا ‘ شاعروں اور ادیبوں کے دم قدم سے اس کی دکان خوب چلتی ۔

آج بھی میرے پاس ’کتاب محل‘ کی مُہر والی 100سے زائد کتابیں ہیں ‘ انھیں دیکھتی ہوں تو دل پر چوٹ لگتی ہے ۔ یہ ’محل‘ اب سے 25 برس پہلے ڈھے گیا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ چھوٹی سی دکان جس بلڈنگ کا حصہ تھی ‘  اس کے مالک بلڈنگ بیچنا چاہتے تھے اور وہاں بلند عمارت بنانے کے خواہاں تھے۔ ان سے شہر کے ادیبوں ‘شاعروں نے بہت فریاد کی کہ جناب جب ’آپ‘ کی بلڈنگ تیار ہوجائے تو اس میں ایک چھوٹی سی دکان آغا سرخوش کو بھی دے دیں۔ انھوں نے صاف انکار کردیا ۔آپ خود ہی سوچیے کہ جہاں زیورات ‘جوتوں اور ملبوسات کی چمکتی دمکتی دکانیں ہوں ان میں کسی ایسی دکان کی بھلا کیا گنجائش جہاں کرشن چندر کی ’گدھے کی سرگزشت‘  قرۃ العین حیدر کا ’ آگ کادریا‘ اور منشی نول کشور کی چھاپی ہوئی ’طلسم ہوشربا‘ کی جلدیں ہوں ۔’کتاب محل‘ کے ساتھ کیا ہوا اس کی ایک جھلک سحاب قزلباش  کے مضمون ’کتاب والا‘ میں ملتی ہے۔ اپنے چہیتے بھائی آغا سرخوش کا نثری مرثیہ لکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں :

’’آغا شاعر کے خاندان میں اب سوائے بڑے لڑکے آغا آفتاب اور سب سے چھوٹی لڑکی سحاب قزلباش کے اور کوئی اولاد باقی نہیں رہی۔ (یہ آغا سرخوش کی رخصت کے بعد کا قصہ ہے)آغا شاعر کا سب سے مشہور و معروف منجھلا لڑکا جس نے اپنے باپ کا نام ہمیشہ روشن رکھا۔ہندوستان میں ’چمنستان‘ اور پاکستان میں ’نورنگ‘ ادبی رسالہ نکالا۔ ادبی کتابوں کی دکان ’کتاب محل‘۔ ہندوستان میں جامع مسجد پر ’نگارستان‘ایجنسی اور نکلسن روڈ کشمیری گیٹ پر۔ ہندوستانی پبلشر کا دفتر اور قصر شاعر چھوڑا۔ پاکستان میں الفنسٹن اسٹریٹ پر ادبی کتابوں کی دکان’ کتاب محل‘۔ یہی ہمارے اس خاندان کی پہچان تھی ۔ پینتیس چالیس سال تک ادبی کتابوں کی منتخب یہی ایک دکان تھی۔جس کے مالک تھے ۔

آغا سر خوش قزلباش…  لندن ‘امریکا اور یورپ سے آنے جانے والے اسی دکان سے ادبی کتابیں خریدتے۔ مگر چالیس سال کے دوران اس دکان کے مالک نے کوٹھی تو کجا ایک مکان بھی نہیں خریدا۔ کار کا تو سوال ہی کیا ۔ بوہری بازار کے دو کمروں کے فلیٹ میں ان کی تینوں لڑکیاں اور ایک لڑکا جوان ہوئے ۔ وہ صرف ایک لڑکی کی شادی کرسکے ۔ پینتیس ہزار روپوں کا قرضہ لے کر جو کتاب محل(پگڑی پر) لی تھی وہ اس بے دردی سے چھین لی گئی جس کا صدمہ ان کو بھی لے گیا اور ان کی ماں کو بھی پیرا لائز کرگیا ۔ سحاب نے تفصیل سے لکھا ہے کہ وہ برسات کا موسم تھا ‘ اس میں کتاب کی دکان کی چھت میں سوراخ کردیے گئے اور پھر شہر اور ملک کے نامور ادیبوں کی شنوائی نہ ہوئی اور جیت روپے کی ہوئی ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ اس صدمے کے بعد ایک سال میں ماں بیٹے دونوں اس دنیا کو چھوڑ گئے ۔ کسی سے انھوں نے کچھ نہ کہا ۔ جیسے چلتے چلتے رک گئے تھے ۔ سمجھ گئے تھے۔ ساریْ کام سمیٹنا چاہتے تھے ۔ مگر چپ چاپ برآمدے میں ٹہلتے رہتے آسمان پر نظر گاڑے ۔ میری اور ان کی ماں نے بھی اپنے آنسو پی لیے۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد۔ اپنے منجھلے بیٹے کی دکان کا چھننے کا غم وہ برداشت نہ کرسکیں ۔ بقول ان کے اب دال روٹی کے بھی لالے پڑ گئے ۔

سچ لکھا ہے سحاب نے کہ ادب کی بھوک بھی بڑی بُری بیماری ہے ۔ اگر آپ کے خون میں ورثے سے ملی ہو تو اور بھی … رات دن بے چین کیے رکھتی ہے ۔ سحاب کی تیکھی اور کڑوی یادوں کا مجموعہ’میرا کوئی ماضی نہیں‘ پڑھتے جائیے ۔ محسوس ہوتا ہے جیسے دل میں نشتر اتر رہے ہیں ۔ ’کتاب والا‘ آغا سرخوش کی رحلت کے ساتھ ہی کتاب محل کی رخصت کا بھی قصہ ہے۔ ’کتاب محل‘ کے خاتمے کے بعد ہمارے شہر میں کتابوں کی کئی اعلیٰ دکانیں بھولی بسری یاد ہوگئیں ۔ یہ تمام باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ چند دنوں پہلے پشاور سے ’سعیدبک بینک‘ کے بند ہونے کی خبر آئی ۔ پشاور آج سے نہیں متحدہ ہندوستان کے زمانے سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے ۔

یہاں کی یونیورسٹی‘ یہاں کے کالج ‘ پشاور کے ادیب اور شاعر سب کی سارے ہندوستان میں دھوم تھی۔ چند دہائیوں سے سے ہمارے یہاں جب دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور جہادی تنظیموں نے سر اٹھایا تو پشاور کے سنیما گھر بندہوئے‘ موسیقی فروخت کرنے والی دکانوں پر تالے پڑے اور پھر کتابوں کی کئی دکانیں بند ہونے لگیں ۔ تازہ خبر ’ سعید بک بینک‘ کے بند ہونے کی  آئی ‘ مکتبہ سرحد بھی بند ہوچکا ۔ ’ سعید بک بینک‘ قسطوں میں بند ہوا ہے ۔ اب وہاں ملبوسات کی ایک شاندار بوتیک کھل گئی ہے ۔دل کو میں دلاسہ اس بات سے دیتی ہوں کہ اس کی جو شاخ اسلام آباد میں ہے وہ اب بھی قائم و دائم ہے ۔ کتابوں کی کسی دکان کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شہر میں پڑھنے والے اتنے کم ہوگئے ہیں کہ دکان کے مالک کو اپنی دکان بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے ۔

پشاور ہمارے صوبے خیبر پختونخوا کا دارالحکومت ہے ۔ اس علاقے میں دہشت گردی کی جتنی خوف ناک لہر اٹھی ہے اس نے بے شمار لوگوں کو شہر اور صوبہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے ۔ عالم یہ ہے کہ شہر میں سارنگی کا ساز ٹھیک کرنے والے نہیں رہے ۔ پشتو کی گلوکارائیں دن دہاڑے قتل کردی گئیں۔ پشتو فلموں میں کام کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں ملیں جس کے بعد انھوں نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور رخصت ہوگئے کچھ تو ایسے بھی تھے جو ملک چھوڑ گئے ۔ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی پارٹی کے درجنوں لیڈر گولیوںسے چھلنی کردیے گئے۔

ایسی دہشت ناک فضا میں کتابوں کی کسی دکان کا کیا کام ؟سعید بک بینک بند ہوا ‘ تاریخ ‘ تہذیب اور ادب کے عاشق وہ لوگ جو دور دور سے آتے تھے اور اپنی پسند کی کتابیں خرید کر لے جاتے تھے ‘ ان کے دل کی جو کیفیت ہوگی ‘ اس کا انداز ہ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ کتابیں وہ چشمہ ہوتی ہیں جن سے لوگ علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ یہ کتابیں ہوتی ہیں جو انسانوں کو کسی ایک شہر یا ملک کے بجائے ساری دنیا کا شہری بناتی ہیں۔ اعلیٰ کتابوں کی چھلنی سے گزر کر ہی لوگ اچھے انسان بنتے ہیں۔

ہمارے ملک میں علم کی توقیرنہیں ہوئی، کتاب گھروں میں جوتوں کی دکانیں بنائی گئیں ‘ آج اس کا نتیجہ اسلام آباد میں صاف نظر آرہا ہے جہاں روزانہ پاکستان کی قیادت کرنے کے دعوے دار تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اچھا ہوا آغا سرخوش آج اس دنیا میں نہیں ہیں ورنہ انھیں ’کتاب محل‘ کی بربادی سے کہیں زیادہ دکھ ‘ تہذیب کی اس تباہی کا ہوتا ۔ غور کرنا چاہیے کہ گزشتہ 68 برسوں میں ہم نے ’کتاب محل ‘ کے پاکستان سے ڈی چوک کے پاکستان تک جو سفر طے کیا ہے وہ کیا ایک افسوسناک زوال کا سفر نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔