سب کچھ جاری ہے
سیلاب کے علاوہ دو دو دھرنے بھی جاری ہیں۔ اگرچہ اب وہ گرتے پڑتے جاری ہیں مگر جاری ہیں
Abdulqhasan@hotmail.com
ان دنوں وطن عزیز میں بہت کچھ جاری ہے۔ میرے خیال کے مطابق ایک بے معنی پارلیمنٹ کا اجلاس بھی جاری ہے۔ دھرنے والوں نے اس اجلاس کے راستے بند کر رکھے ہیں مگر پھر بھی اسمبلی والے ان معزز اراکین کو ادھر ادھر کے خفیہ راستوں سے بچ بچا کر نکال ہی لاتے ہیں۔ سیلاب بھی جاری و ساری ہے اور اب یہ پنجاب سے سندھ میں داخل ہو چکا ہے جہاں سندھ کے وزیر اعلیٰ کا امتحان ہو گا۔ اس ضعیف العمری میں سیلاب بھی جھیلنا تھا۔ قسمت میں یہی لکھا تھا کہ مشکل ترین عمر میں اس آزمائش سے بھی گزرا جائے۔
عمر کے اس آخری حصے کو قرآن میں ''ارذل العمر'' کہا گیا ہے جس کے کئی ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک محفوظ ترجمہ ہے عمر کا مشکل ترین حصہ۔ اس مشکل ترین حصے میں ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو سیلاب اور سیلاب زدگان سے نبٹنا ہے، مدد کے لیے وہ سیلاب کے آزمودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو مدد کے لیے بلوا لیں ویسے بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب نے سیلاب بھیج دیا ہے گویا یہ سیلاب بھی پنجاب کی ایک اور زیادتی ہے جس کا پہلا شکار خود پنجاب تھا اور ابھی تک ہے۔
سیلاب کے علاوہ دو دو دھرنے بھی جاری ہیں۔ اگرچہ اب وہ گرتے پڑتے جاری ہیں مگر جاری ہیں اور ان کے دونوں لیڈر آرام کر کے اور خوب کھا پی کر ان دھرنوں کی رہنمائی کر رہے ہیں اور سب کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن میں میاں نواز شریف سرفہرست ہیں۔ یہ دھمکیاں اتنی عام ہو گئی ہیں اور اتنی مقبول بھی ہیں کہ صوبہ سرحد کے صدر نون لیگ بھی نواز گو نواز گو کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ اسے زبان خلق کہتے ہیں اور زبان خلق کے بارے میں جو مشہور ہے وہ آپ نے سن رکھا ہے۔
ان دونوں مذکورہ دھرنوں میں سے ایک کا لیڈر کسی حد تک نوجوان ہے اور دوسرے کا کسی حد تک بوڑھا لیکن دونوں تقریر کرتے ہوئے جوان ہو جاتے ہیں البتہ علامہ صاحب پر تقریر کے دوران کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کا پورا جسم کانپنے لگتا ہے، ان کی آواز کانپتی ہے ہی ان کے ہاتھ پاؤں پر بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی لرزاں رہتی ہیں۔ ہونٹوں کی لرزش ایسی ہوتی ہے کہ ہونٹوں اور منہ کی صفائی کے لیے منوں کے حساب سے ٹشو پیپر صرف ہو جاتے ہیں۔ اب تو یہ پیپر کسی کوڑے دان میں پھینکنے کے بجائے دھرنے والوں میں برکت کے لیے تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔
علامہ موصوف کی دوران تقریر یہ جسمانی کیفیت دیکھ کر کچھ لوگ اب انھیں علامہ کپکپاہٹ کہنے لگے ہیں۔ وطن عزیز کو ان دھرنوں وغیرہ کی وجہ سے کچھ کمزور دیکھ کر ایک طبقہ کو مشرقی پاکستان یاد آنے لگا ہے اور سقوط ڈھاکہ کے منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا اب اسے بیس حصوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ہمارے گاؤں میں اگر کوئی جوان بیل کسی وجہ سے گر جائے تو اس کے پاؤں باندھ کر اسے خصی بھی کر دیا کرتے ہیں کہ یہ موقع اچھا ہے۔
یاد آیا کہ سقوط ڈھاکہ کے منصوبے کے موقع پر جنرل یحییٰ خان کے نمبر 2 جنرل عمر ہوا کرتے تھے۔ ان جنرل صاحب کے تین صاحبزادے کہیں سے اچانک پاکستان پہنچ چکے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور اہم عہدوں پر بیٹھ گئے ہیں۔ ایک تو (ن) لیگ کی حکومت میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ آپ ٹی وی کے ٹاک شوز میں تقریباً ہر روز ہی ان میں سے کسی نہ کسی کو دیکھتے ہیں۔ میں تو ان کی پاکستان آمد کی خبر پا کر ہی ڈر گیا تھا اور میرا خوف جاری تھا کہ ان کو ملک کی اہم شخصیتیں بنتے بھی دیکھا گیا ہے۔
ان سب کے علاوہ بجلی کے بلوں میں حیران کن اور پریشان کن اضافہ بھی جاری ہے اور لگتا ہے کہ یہ اضافہ جاری رہا تو پھر ہم بجلی استعمال کرنے والے جاری نہیں رہیں گے۔ ہماری جمہوری حکومت کی ایک اسکیم ہے کہ وہ پاکستانی عوام سے کسی نہ کسی بہانے سب کچھ چھین لینا چاہتی ہے۔ ان دنوں کے ہاؤس ٹیکس بھی جاری ہو رہے ہیں۔ مجھے میرے ایک ناقابل رہائش مکان کا جو ٹیکس موصول ہوا ہے وہ میں ذرا حوصلہ پا کر عرض کروں گا۔ آپ مہربانی فرما کر مجھے اس مالی مشکل سے نکالنے کے لیے چندہ جمع رکھیں یا میرے کفن دفن کا خرچہ کیونکہ یہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد تو شاید گورکن بھی مجھے قبول نہ کریں۔
محکمہ ٹیکس کے انسپکٹر نے اعتراف کیا ہے یہ کچھ زیادہ ہے اس لیے آپ اپیل کر دیں جو میں نے کر دی ہے اب دیکھنا ہے کہ میری اس آخری امید کا کیا بنتا ہے۔ ان دنوں امیدیں صرف حکمرانوں کی بر آتی ہیں ہمارے جیسے کمی کمینوں کی نہیں۔ میں گزشتہ دنوں چار روز تک بجلی سے مکمل محروم رہا۔ جب کوئی صورت نظر نہ آئی تو ایک بااثر مہربان کو تکلیف دی جس سے یہ مشکل جو دنوں کی تھی چند گھنٹوں میں حل ہوگئی۔ اب میں ان کو مزید زحمت نہیں دے سکتا۔ ویسے بھی یہ محکمہ وفاقی نہیں صوبائی ہے۔ اللہ خیر کرے گا۔
عمر کے اس آخری حصے کو قرآن میں ''ارذل العمر'' کہا گیا ہے جس کے کئی ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک محفوظ ترجمہ ہے عمر کا مشکل ترین حصہ۔ اس مشکل ترین حصے میں ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو سیلاب اور سیلاب زدگان سے نبٹنا ہے، مدد کے لیے وہ سیلاب کے آزمودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو مدد کے لیے بلوا لیں ویسے بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب نے سیلاب بھیج دیا ہے گویا یہ سیلاب بھی پنجاب کی ایک اور زیادتی ہے جس کا پہلا شکار خود پنجاب تھا اور ابھی تک ہے۔
سیلاب کے علاوہ دو دو دھرنے بھی جاری ہیں۔ اگرچہ اب وہ گرتے پڑتے جاری ہیں مگر جاری ہیں اور ان کے دونوں لیڈر آرام کر کے اور خوب کھا پی کر ان دھرنوں کی رہنمائی کر رہے ہیں اور سب کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن میں میاں نواز شریف سرفہرست ہیں۔ یہ دھمکیاں اتنی عام ہو گئی ہیں اور اتنی مقبول بھی ہیں کہ صوبہ سرحد کے صدر نون لیگ بھی نواز گو نواز گو کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ اسے زبان خلق کہتے ہیں اور زبان خلق کے بارے میں جو مشہور ہے وہ آپ نے سن رکھا ہے۔
ان دونوں مذکورہ دھرنوں میں سے ایک کا لیڈر کسی حد تک نوجوان ہے اور دوسرے کا کسی حد تک بوڑھا لیکن دونوں تقریر کرتے ہوئے جوان ہو جاتے ہیں البتہ علامہ صاحب پر تقریر کے دوران کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کا پورا جسم کانپنے لگتا ہے، ان کی آواز کانپتی ہے ہی ان کے ہاتھ پاؤں پر بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی لرزاں رہتی ہیں۔ ہونٹوں کی لرزش ایسی ہوتی ہے کہ ہونٹوں اور منہ کی صفائی کے لیے منوں کے حساب سے ٹشو پیپر صرف ہو جاتے ہیں۔ اب تو یہ پیپر کسی کوڑے دان میں پھینکنے کے بجائے دھرنے والوں میں برکت کے لیے تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔
علامہ موصوف کی دوران تقریر یہ جسمانی کیفیت دیکھ کر کچھ لوگ اب انھیں علامہ کپکپاہٹ کہنے لگے ہیں۔ وطن عزیز کو ان دھرنوں وغیرہ کی وجہ سے کچھ کمزور دیکھ کر ایک طبقہ کو مشرقی پاکستان یاد آنے لگا ہے اور سقوط ڈھاکہ کے منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا اب اسے بیس حصوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ہمارے گاؤں میں اگر کوئی جوان بیل کسی وجہ سے گر جائے تو اس کے پاؤں باندھ کر اسے خصی بھی کر دیا کرتے ہیں کہ یہ موقع اچھا ہے۔
یاد آیا کہ سقوط ڈھاکہ کے منصوبے کے موقع پر جنرل یحییٰ خان کے نمبر 2 جنرل عمر ہوا کرتے تھے۔ ان جنرل صاحب کے تین صاحبزادے کہیں سے اچانک پاکستان پہنچ چکے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور اہم عہدوں پر بیٹھ گئے ہیں۔ ایک تو (ن) لیگ کی حکومت میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ آپ ٹی وی کے ٹاک شوز میں تقریباً ہر روز ہی ان میں سے کسی نہ کسی کو دیکھتے ہیں۔ میں تو ان کی پاکستان آمد کی خبر پا کر ہی ڈر گیا تھا اور میرا خوف جاری تھا کہ ان کو ملک کی اہم شخصیتیں بنتے بھی دیکھا گیا ہے۔
ان سب کے علاوہ بجلی کے بلوں میں حیران کن اور پریشان کن اضافہ بھی جاری ہے اور لگتا ہے کہ یہ اضافہ جاری رہا تو پھر ہم بجلی استعمال کرنے والے جاری نہیں رہیں گے۔ ہماری جمہوری حکومت کی ایک اسکیم ہے کہ وہ پاکستانی عوام سے کسی نہ کسی بہانے سب کچھ چھین لینا چاہتی ہے۔ ان دنوں کے ہاؤس ٹیکس بھی جاری ہو رہے ہیں۔ مجھے میرے ایک ناقابل رہائش مکان کا جو ٹیکس موصول ہوا ہے وہ میں ذرا حوصلہ پا کر عرض کروں گا۔ آپ مہربانی فرما کر مجھے اس مالی مشکل سے نکالنے کے لیے چندہ جمع رکھیں یا میرے کفن دفن کا خرچہ کیونکہ یہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد تو شاید گورکن بھی مجھے قبول نہ کریں۔
محکمہ ٹیکس کے انسپکٹر نے اعتراف کیا ہے یہ کچھ زیادہ ہے اس لیے آپ اپیل کر دیں جو میں نے کر دی ہے اب دیکھنا ہے کہ میری اس آخری امید کا کیا بنتا ہے۔ ان دنوں امیدیں صرف حکمرانوں کی بر آتی ہیں ہمارے جیسے کمی کمینوں کی نہیں۔ میں گزشتہ دنوں چار روز تک بجلی سے مکمل محروم رہا۔ جب کوئی صورت نظر نہ آئی تو ایک بااثر مہربان کو تکلیف دی جس سے یہ مشکل جو دنوں کی تھی چند گھنٹوں میں حل ہوگئی۔ اب میں ان کو مزید زحمت نہیں دے سکتا۔ ویسے بھی یہ محکمہ وفاقی نہیں صوبائی ہے۔ اللہ خیر کرے گا۔