امریکی دورہ اور پاکستانی دھرنے

پاکستانی تو ہر روز ٹریفک کے حادثوں میں بھی مرتے رہتے ہیں اور بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے ہیں...

Abdulqhasan@hotmail.com

لیجیے ہمارے وزیراعظم جناب میاں نواز شریف ایک بار پھر غیرملکی دورے اور وہ بھی امریکی دورے پر جا رہے ہیں۔ یہاں امریکا میں جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے اور اس میں جہاں دنیا بھر کے لیڈر شریک ہوں گے وہاں ہم بھی ہوں گے۔ اس دورے پر کوئی چار کروڑ روپے اس ملک کے خرچ ہوں گے جو بدترین اور مہلک ترین سیلاب کی زد میں ہے اور اس کے لاکھوں باشندے زندگی اور موت کی کشمکش سے دو چار ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

پاکستانی تو ہر روز ٹریفک کے حادثوں میں بھی مرتے رہتے ہیں اور بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے منتخب لیڈروں کو ایک اور بیرونی دورے پر جانا ہے اور نیویارک میں مہنگے ترین ہوٹل میں قیام کرنا ہے۔ صدر امریکا بھی اس ہوٹل میں قیام کریں گے تا کہ شاید ہمارے میاں صاحب سے کسی راہداری میں ان کی مڈھ بھیڑ ہو جائے۔ اس دورے پر بھارت کے وزیراعظم مودی صاحب بھی جا رہے ہیں جن کا امریکا میں انتظار ہو رہا ہے لیکن ہم اس انتظار میں ہیں کہ بھارتی وزیراعظم سے وہاں ہماری بھی علیک سلیک ہو جائے۔ بھارتی وزیراعظم سالانہ برت میں ہوں گے اور امریکا میں کچھ کھائیں پئیں گے نہیں لیکن ملاقاتوں کی ممانعت نہیں ہے۔

ان دنوں کی مصروفیات نے بھارتی سفارت کاروں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ایک وہ دن تھے کہ امریکا نے مودی صاحب کو ویزا نہیں دیا تھا آج ان کا بے تابانہ انتظار ہے۔ باغیرت قومیں اپنا وقار بناتی رہتی ہیں لیکن ہمارا تو وزیر خارجہ بھی کوئی نہیں۔ بھارت کی تیز وطرار وزیر خارجہ سشما سوراج ہیں۔ لاہور کی ایک پرانی آبادی میں جنم لینے والی۔ جب میں نے دلی میں ایک ملاقات میں اس کو بتایا کہ میں لاہور سے آیا ہوں تو اس نے کہا میں بھی لاہوری ہوں۔ میاں صاحب کو بیرونی دوروں کا بہت شوق ہے لیکن سرکاری تام جھام کے ساتھ۔ یوں تو ہمارے جیسے کمی کمین بھی باہر کے ملکوں کے چکر لگا آتے ہیں لیکن پاکستان اور کسی باہر کے ملک کی کرنسی کا باہمی حساب کتاب کرتے ہوئے۔ میاں صاحب کو خدا نے اس چکر سے قطعاً محفوظ رکھا ہوا ہے۔

پاکستان کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی کہ اس ملک نے کوڑی پتیوں کو کروڑ پتی بنا دیا ہے اور وہ کیوں نہ بنیں جب ملک میں بجلی کے بل میٹر دیکھے بغیر بنا دیے جائیں اور بجلی بند کر دینے کے ڈنڈے کے ذریعے وصول کیے جائیں لیکن پھر دبی زبان میں اس ملک گیر دھاندلی کا اعتراف بھی کیا جائے یہ کہہ کر حساب لگا رہے ہیں کہ یہ زیادہ بل واپس کر دیں گے لیکن واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر ہماری حکومت کے عمائدین کی عیاشیاں کیسے ہوں گی۔ ان کی ایک شام کی عیاشی ہمارے جیسے کی ایک ہفتے بھر کی روٹی کے برابر ہوتی ہے لیکن پاکستان اور اس کے عوام کی پروا کسے ہے۔

سلامت اور جاری رہیں ہمارے غیرملکی دورے، ویسے ایک احمقانہ خیال یہ گزرا ہے کہ اگر میاں صاحب وزیراعظم پاکستان اس اعلان کے ساتھ یہ دورہ منسوخ کر دیتے کہ میرا ملک تباہ کن اور مہلک قسم کے سیلاب کی زد میں ہے اس لیے میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا چنانچہ میں ملکی حالات کو سامنے رکھ کر قومی احساس کے ساتھ یہ دورہ منسوخ کرتا ہوں۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں دنیا بھر کے حکمران موجود ہوں گے اگر ان سب تک ہمارا یہ پیغام پہنچے گا تو وہ ایسے کسی وزیراعظم کی زیارت کرنے کی سعادت سمجھیں گے اور یقین ہے کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ واقع درج کیا جائے گا۔


پاکستان اور اس کے وزیراعظم کی عزت عالمی سطح پر بلند ہو گی جس سے ہم پاکستانی اپنی سیلاب کی تباہ کاریاں بھی بھول جائیں گے لیکن یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ سیلاب زدگان کی حالت دیکھنے اور ان کو امداد دینے کے تمام واقعات جو آپ نے ٹی وی پر دیکھے اور اخباروں میں پڑھے یہ سب سرکاری خرچ پر کیے گئے۔ کسی ارب پتی لیڈر نے اپنی جیب سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی۔ جتنا سرکاری خرچ ان دوروں پر ہوا۔

یہ نقد صورت میں اگر سیلاب زدگان کو دے دیا جاتا تو شاید کسی کی زندگی بچ جاتی اور یہ بجلی کا فالتو، سراسر ناجائز اور دھاندلی والا بل جس میں میرا بھی میری حیثیت اور اوقات سے بڑھ کر حصہ ہے میرے دل پر نقش ہے ایسی کھلی دھاندلی کسی بے بس اور بے کس قوم پر ہی کی جا سکتی ہے۔ ہاں ایک خوشخبری یاد آئی ہے کہ جناب وزیراعظم نے بھی اس دھاندلی کا نوٹس لیا ہے لیکن یہ دھاندلی نہیں دفتری قسم کی غلطی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ہمارے ہاں غلطیاں بھی حکومت کے حق میں جاتی ہیں۔ ہمارے آپ کے حق میں نہیں صرف افسوس کا اظہار ہمارے حصے میں آتا ہے۔

یہ دن رات کے دھرنے والے بھی درحقیقت اپنے حکمرانوں کے خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے دھرنے یہ نہیں کہ عوام کے مصائب کم کیے جائیں بلکہ یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنا عہدہ چھوڑ دیں تا کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس پر براجمان ہو جائیں۔

گو نواز گو کا نیا کلمہ ہے جس کا ورد جاری ہے۔ ہمارے یہ دھرناچی لیڈر یقینا جانتے ہیں کہ تبدیلی کا نعرہ یا انقلاب کا نعرہ دونوں بے معنی نعرے ہیں اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ انقلاب کے کیا مقاصد ہیں کیا مطالبے ہیں اور اس دنیا کا نقشہ کیا ہو گا جو کسی مہمل انقلاب کے نتیجے میں قائم ہو گی اور جس کی علامہ کپکپاہٹ قیادت کریں گے اپنی آدھی کینیڈین یعنی ملکہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری والی شہریت کے ساتھ۔ پھر رہے عمران خان تو اب کوئی کیا عرض کرے اور دھرنے والوں کو آنکھیں کہاں سے لا کر دے جو دھرنے سے چند قدم دور بنی گالہ میں اس وسیع و عریض محل کو نہیں دیکھ سکتے جہاں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد ان دھرنے والوں کا ٹھکانہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہ جنگلات دھرنے دینے والے عوام کی قیامگاہ ہوں گے جہاں وہ اپنے لیڈر کے ساتھ دھرنوں کی تکان اتاریں گے اور تازہ دم ہو کر گھر و گھر جائیں گے جہاں ان کی مائیں دھرنوں کی آمدن سے پراٹھے پکا کر انھیں کھلائیں گی۔

یہ دونوں دھرنے ایک ایسی جعل سازی ہیں جو پاکستانیوں جیسی تباہ حال اور بے ہوش قوم کو ہی قبول ہو سکتی ہے جس کے ہوش وحواس حالات کی بے انصافی نے اڑا دیے ہوں۔ ان دھرنوں میں جانے والے صحافیوں اور ٹی وی کارکنوں نے جو قصے سنائے ہیں وہ میں شرم کے مارے عرض کر نہیں سکتا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کا امریکی دورہ اور یہ دھرنے ملک کے حق میں مفید ثابت ہوں ہمارا ان پر بہت زیادہ خرچ اٹھ چکا ہے۔
Load Next Story