کارِ سیاست نے رشتے میں دراڑ ڈال دی
پی پی پی کے عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ کا صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے جھگڑا
پی پی پی کے عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ کا صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے جھگڑا۔ فوٹو: فائل
لاڑکانہ روڈ پر واقع چھوٹے سے شہر خان پور جونیجو کے حاجی امیر بخش جونیجو (مرحوم) اور عبدالحمید خان جتوئی (مرحوم) سیاست میں سرگرم اور ایک دوسرے کے رفیق رہے۔
عبدالحمید خان جتوئی کے انتقال کے بعد حاجی امیر بخش جونیجو نے ان کے بیٹے لیاقت علی جتوئی سے وابستگی برقرار رکھی۔ 2011 میں امیر بخش بھی دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے بیٹے عبدالعزیز جونیجو نے پی پی پی کی راہ نما محترمہ فریال تالپور کے اصرار پر محکمۂ آب پاشی میں نوکری کو خیرباد کہہ کر پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پچھلے عام انتخابات سے قبل اختلافات کے باعث جونیجو خاندان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، جس میں عبدالعزیز جونیجو پی پی پی جب کہ ان کے بھتیجے علی بخش جونیجو اور خاندان کے چند افراد لیاقت علی جتوئی کے ساتھ رہے۔
گذشتہ انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے عبدالعزیز جونیجو نے کاغذات جمع کروائے، لیکن سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی مدت مکمل نہ ہونے پر ان کا فارم مسترد ہو گیا۔ ان پر یہ اعتراض لیاقت علی جتوئی نے کیا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی اہلیہ کوثر پروین (کورنگ امیدوار) کو مسلم لیگ (ن) کے لیاقت جتوئی کے مقابلے پر لاکھڑا کیا۔ اس معرکے میں وہ لیاقت جتوئی کے مقابلے میں 25 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کام یاب قرار پائیں۔ تاہم انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا اور اب پورے ملک میں الیکشن کے نتائج کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
اس حلقے پر ناکامی کے بعد لیاقت علی جتوئی اور دیگر حلقوں میں بھی امیدواروں کو الیکشن کمیشن میں اپنی درخواستوں کے فیصلے کا انتظار ہے۔ دوسری جانب الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد عبدالعزیز جونیجو اور ان کی اہلیہ کوثر پروین کے درمیان سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا، جس پر پی پی پی کی قیادت نے کوثر پروین جونیجو سے استعفیٰ لے کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے حوالے کردیا۔ اسپیکر نے اسے منظور کرلیا اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن پی ایس 76 پر انتخابات کرانے کا پابند ہے، مگر کوثر پروین نے فریال تالپور، پی پی پی ضلع دادو کے صدر ایم این اے رفیق احمد جمالی اور اپنے شوہر عبدالعزیز جونیجو پر الزام عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان تینوںنے مل کر زرداری ہاؤس، کراچی میں ان سے زبردستی استعفے پر دستخط کرائے ہیں اور ان کی غیرموجودگی میں آغا سراج سے اسے منظور بھی کروا لیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس زبردستی کو قبول نہیں کریں گی اور آئندہ اجلاس میں شریک ہوں گی، کیوں کہ انہوں نے نہ تو استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی اسپیکر نے ان سے اس کی وجہ پوچھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اس کی شکایت بھی کی تھی اور انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ کوئی بھی جبراً استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ یہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو نے انہیں حلقے میں کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
دوسری جانب اپنی اہلیہ کے الزامات کے جواب میں عبدالعزیز جونیجو نے کہا کہ 2013 کے عام انتخابات میں پارٹی نے حلقہ پی ایس 76 خیر پور ناتھن شاہ پر انہیں نام زد کیا تھا، جس کے لیے انہوں نے سرکاری نوکری چھوڑی، مگر نام زدگی فارم مسترد ہونے کے باعث اپنی اہلیہ کوثر پروین کو پارٹی قیادت کی اس شرط پر امیدوار نام زد کروایا تھاکہ ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے پر کوثر پروین صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے خود مستعفیٰ ہو جائیں گی اور پارٹی کی طرف سے یہی دباؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے وعدے کے مطابق پی ایس 76 پر انتخاب لڑوں گا اور علاقہ کے عوام کے مسائل حل کروں گا۔
دوسری جانب یہ بھی کہا کہ کوثر پروین اپنے حلقۂ انتخاب میں کام یابی کے بعد نہیں آئیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری مجھے اٹھانا پڑ رہی ہے۔ کوثر پروین سے کسی نے بھی زبردستی استعفیٰ نہیں لیا اور نہ ہی انہیں کسی نے دھمکی دی، وہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنا گھر، اپنے بچوں کا مستقبل اور اپنا خاندان عزیز ہے اور میں کوئی عام مرد اور وڈیرا ہوتا تو اپنی اہلیہ کو سیاست کا راستہ ہی نہ دکھاتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ پروین نے لالچ میں آکر بات کا پتنگر بنا ڈالا، جس سے ہماری رسوائی ہوئی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی جگھڑے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ ان کی ذاتی کوششوں سے حل ہو جائے گا یا عدالت تک جا پہنچے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فریال تالپور پی ایس 76 پر متوقع ضمنی انتخاب میں عبدالعزیز جونیجو کی کام یابی پر انہیں وزارت سونپنے کی خواہش مند ہیں، جس سے ضلع دادو کو سندھ کابینہ میں نمائندگی مل سکتی ہے۔ مگر اب مقامی سیاست میں لیاقت جتوئی کے مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد تبدیلی آچکی ہے اور یہ دیکھا جائے گا کہ ضمنی انتخابات میں ان کے مخالف کس حکمتِ عملی کے تحت میدان میں ہوں گے۔ لیاقت جتوئی اپنے عوامی اتحاد کو بحال کرنے کے لیے متحرک ہیں اور اس پارٹی کے مرکزی عہدے داروں کے ساتھ اسلام آباد کے دورے پر ہیں، جہاں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت اور دیگر حکومت مخالف قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔
دوسری جانب ضلع دادو کرپشن اور مقامی اداروں اور افسران کی غفلت و کوتاہی کے باعث برباد ہو رہا ہے۔ ضلع کی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین کا تعلق پی پی پی سے ہے اور سندھ میں اسی جماعت کی حکومت بھی ہے، مگر ترقیاتی کام کاغذوں کی حد تک وجود رکھتے ہیں اور عوام بدحالی کا شکار ہیں۔
عبدالحمید خان جتوئی کے انتقال کے بعد حاجی امیر بخش جونیجو نے ان کے بیٹے لیاقت علی جتوئی سے وابستگی برقرار رکھی۔ 2011 میں امیر بخش بھی دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے بیٹے عبدالعزیز جونیجو نے پی پی پی کی راہ نما محترمہ فریال تالپور کے اصرار پر محکمۂ آب پاشی میں نوکری کو خیرباد کہہ کر پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پچھلے عام انتخابات سے قبل اختلافات کے باعث جونیجو خاندان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، جس میں عبدالعزیز جونیجو پی پی پی جب کہ ان کے بھتیجے علی بخش جونیجو اور خاندان کے چند افراد لیاقت علی جتوئی کے ساتھ رہے۔
گذشتہ انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے عبدالعزیز جونیجو نے کاغذات جمع کروائے، لیکن سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی مدت مکمل نہ ہونے پر ان کا فارم مسترد ہو گیا۔ ان پر یہ اعتراض لیاقت علی جتوئی نے کیا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی اہلیہ کوثر پروین (کورنگ امیدوار) کو مسلم لیگ (ن) کے لیاقت جتوئی کے مقابلے پر لاکھڑا کیا۔ اس معرکے میں وہ لیاقت جتوئی کے مقابلے میں 25 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کام یاب قرار پائیں۔ تاہم انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا اور اب پورے ملک میں الیکشن کے نتائج کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
اس حلقے پر ناکامی کے بعد لیاقت علی جتوئی اور دیگر حلقوں میں بھی امیدواروں کو الیکشن کمیشن میں اپنی درخواستوں کے فیصلے کا انتظار ہے۔ دوسری جانب الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد عبدالعزیز جونیجو اور ان کی اہلیہ کوثر پروین کے درمیان سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا، جس پر پی پی پی کی قیادت نے کوثر پروین جونیجو سے استعفیٰ لے کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے حوالے کردیا۔ اسپیکر نے اسے منظور کرلیا اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن پی ایس 76 پر انتخابات کرانے کا پابند ہے، مگر کوثر پروین نے فریال تالپور، پی پی پی ضلع دادو کے صدر ایم این اے رفیق احمد جمالی اور اپنے شوہر عبدالعزیز جونیجو پر الزام عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان تینوںنے مل کر زرداری ہاؤس، کراچی میں ان سے زبردستی استعفے پر دستخط کرائے ہیں اور ان کی غیرموجودگی میں آغا سراج سے اسے منظور بھی کروا لیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس زبردستی کو قبول نہیں کریں گی اور آئندہ اجلاس میں شریک ہوں گی، کیوں کہ انہوں نے نہ تو استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی اسپیکر نے ان سے اس کی وجہ پوچھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اس کی شکایت بھی کی تھی اور انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ کوئی بھی جبراً استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ یہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو نے انہیں حلقے میں کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
دوسری جانب اپنی اہلیہ کے الزامات کے جواب میں عبدالعزیز جونیجو نے کہا کہ 2013 کے عام انتخابات میں پارٹی نے حلقہ پی ایس 76 خیر پور ناتھن شاہ پر انہیں نام زد کیا تھا، جس کے لیے انہوں نے سرکاری نوکری چھوڑی، مگر نام زدگی فارم مسترد ہونے کے باعث اپنی اہلیہ کوثر پروین کو پارٹی قیادت کی اس شرط پر امیدوار نام زد کروایا تھاکہ ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے پر کوثر پروین صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے خود مستعفیٰ ہو جائیں گی اور پارٹی کی طرف سے یہی دباؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے وعدے کے مطابق پی ایس 76 پر انتخاب لڑوں گا اور علاقہ کے عوام کے مسائل حل کروں گا۔
دوسری جانب یہ بھی کہا کہ کوثر پروین اپنے حلقۂ انتخاب میں کام یابی کے بعد نہیں آئیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری مجھے اٹھانا پڑ رہی ہے۔ کوثر پروین سے کسی نے بھی زبردستی استعفیٰ نہیں لیا اور نہ ہی انہیں کسی نے دھمکی دی، وہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنا گھر، اپنے بچوں کا مستقبل اور اپنا خاندان عزیز ہے اور میں کوئی عام مرد اور وڈیرا ہوتا تو اپنی اہلیہ کو سیاست کا راستہ ہی نہ دکھاتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ پروین نے لالچ میں آکر بات کا پتنگر بنا ڈالا، جس سے ہماری رسوائی ہوئی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی جگھڑے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ ان کی ذاتی کوششوں سے حل ہو جائے گا یا عدالت تک جا پہنچے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فریال تالپور پی ایس 76 پر متوقع ضمنی انتخاب میں عبدالعزیز جونیجو کی کام یابی پر انہیں وزارت سونپنے کی خواہش مند ہیں، جس سے ضلع دادو کو سندھ کابینہ میں نمائندگی مل سکتی ہے۔ مگر اب مقامی سیاست میں لیاقت جتوئی کے مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد تبدیلی آچکی ہے اور یہ دیکھا جائے گا کہ ضمنی انتخابات میں ان کے مخالف کس حکمتِ عملی کے تحت میدان میں ہوں گے۔ لیاقت جتوئی اپنے عوامی اتحاد کو بحال کرنے کے لیے متحرک ہیں اور اس پارٹی کے مرکزی عہدے داروں کے ساتھ اسلام آباد کے دورے پر ہیں، جہاں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت اور دیگر حکومت مخالف قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔
دوسری جانب ضلع دادو کرپشن اور مقامی اداروں اور افسران کی غفلت و کوتاہی کے باعث برباد ہو رہا ہے۔ ضلع کی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین کا تعلق پی پی پی سے ہے اور سندھ میں اسی جماعت کی حکومت بھی ہے، مگر ترقیاتی کام کاغذوں کی حد تک وجود رکھتے ہیں اور عوام بدحالی کا شکار ہیں۔