ایک زندہ گورنر

گورنر صاحب کئی دوسرے پاکستانیوں کی طرح روزی کمانے ولایت گئے اور اتنی محنت کی کہ وہاں نام بنا لیا ۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

مجھے اپنے کمزور حافظے پر اعتماد نہیں رہا اس لیے میں ریفرنس کی کتابوں، اخباروں اور معلومات کے دوسرے ذریعوں میں پھنسا رہتا ہوں۔ ہمارے گورنر جناب چوہدری محمد سرور نے ایک انٹرویو میں بہت کچھ یاد دلا دیا یعنی کئی سابقہ گورنر یاد آ گئے اور خود چوہدری صاحب نے جس بھاری دردمندی کے ساتھ اپنے گورنری کے پندرہ مہینوں کے کرب کا اظہار کیا ہے وہ ایک غیرمعمولی اعتراف ہے۔ میں نے پنجاب کے چند گورنر صاحبان کو قریب سے دیکھا ہے۔

پہلے تو جناب سردار عبدالرب نشتر تھے لیکن تب میں ایک عام سا شہری تھا ایک طالب علم لیکن اس بات پر تعجب کرتا تھا کہ گورنر کا بیٹا اپنے اسکول سائیکل پر جاتا ہے۔ میں ان دنوں چاہتا تھا کہ کبھی اسے سائیکل چلاتے اور اسکول جاتے دیکھوں لیکن اس کا موقع نہ مل سکا اور اب تو ایسے کسی موقع کی قطعاً کوئی امید ہی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی بڑے کا بیٹا کون سی بڑی اور مہنگی گاڑی پر اسکول جاتا ہے۔ میں نے ایک بار گورنر صاحب سے عرض کیا کہ یہ سائیکل آپ محفوظ کر لیں لیکن پتہ چلا کہ وہ تو نشتر صاحب کی ملکیت تھی جو ان کے ساتھ چلی گئی ورنہ وہ بطور نمونہ اور بطور عبرت گورنر ہاؤس میں رکھی جا سکتی تھی کہ قائداعظم کے ساتھی کیسے لوگ تھے۔

صرف اور صرف تنخواہوں میں گزر بسر کرنے والے۔ فیس بک پر ایک تصویر دیکھی قائداعظم کھڑے ہیں دبلے پتلے جسم والے اور چست شیروانی میں۔ دھان پان اسے کہتے ہیں ان کے ساتھ ایک موٹا تازہ لیڈر کھڑا ہے اور نیچے لکھا ہے ''پاکستان بنانے والے اور پاکستان کھانے والے۔'' علاوہ نشتر صاحب کے جناب نواب مشتاق احمد گورمانی بھی گورنر رہے۔ گفتار کے غازی حیرت انگیز حد تک موثر گفتگو کرنے والے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد میں گلبرگ لاہور میں ان کی کوٹھی پر ان کا انٹرویو کرنے گیا۔ وہ اس وقت چھت پر لیٹے ہوئے تھے۔ قریب ہی میز پڑی تھی جو دواؤں سے بھری ہوئی تھی۔ گفتگو شروع ہوئی۔ گورمانی صاحب بولتے رہے اور بولتے ہی گئے۔ کسی نے انھیں دوا یاد دلائی تو ان کا طویل سلسلہ کلام رک گیا اور مجھ سے پوچھا کہ برخوردار آپ کون ہیں اور کیسے آئے ہیں۔ میں نے تعارف کرایا تو کہا کہ ہاں پوچھو کیا پوچھنا ہے۔

معلوم ہوا کہ گورنر ہاؤس میں بھی وہ اپنی گورنری کے زمانے میں یہ سلسلہ جاری رکھتے تھے اور ملاقاتی سلسلہ کلام میں کسی رکاوٹ کے انتظار میں رہتے کہ اپنی عرض پیش کر سکیں۔ بعض گورنر صاحبان محتاط زندگی گزارتے رہے اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ پروٹوکول کے مطابق۔ اس دوران ہمارے کرم فرما دوست چوہدری الطاف حسین آ گئے اور گورنر ہاؤس سیاسی مرکز بن گیا۔ چوہدری صاحب نے اپنے دوستوں کو بھی اپنی گورنری میں شریک کر لیا تھا۔ آج کے حکمرانوں نے اپنے معیار کے مطابق گورنر تلاش کیے لیکن کوئی بھی حساس پاکستانی ایک حد تک ان کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔ گورنر چوہدری محمد سرور ایک عام کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور عام قسم کے گورنر ہیں۔ پوری کوشش کرتے رہے کہ حکومت کے ساتھ چلتے رہیں۔ اس آئینی اختیار کے باوجود کہ وہ صوبائی اسمبلی چشم زدن میں توڑ سکتے ہیں لیکن انھوں نے صبر سے کام لیا لیکن ایک انٹرویو میں پھٹ پڑے۔


مثلاً وہ قادری اور عمران صاحب کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے اور ان سے کچھ منواتے بھی رہے لیکن جب وہ میاں صاحب کو یہ سب بتاتے تو وہ صاف انکار کر دیتے جس سے ان کی بڑی سبکی ہوتی تھی لیکن انھیں گورنری سے رہائی نہیں مل سکی۔ انھوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ انھوں نے 15 ماہ بڑے کرب میں گزارے ہیں۔ عوام کرپشن، بھوک اور بدحالی اور بے روزگاری سے بدحال ہیں۔ صحت کے مسائل ایسے ہیں کہ ایک باضمیر شخص کیسے سو سکتا ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ ناقابل بیان کرب میں گزارے ہیں۔ عورتیں عزت گنوا رہی ہیں، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے ہو رہے ہیں اور اگر وہ عدالت کا رخ کرتے ہیں یا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں تو ان کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔ میں ان کے معاملے میں بالکل بے بس ہوں۔

گورنر صاحب کئی دوسرے پاکستانیوں کی طرح روزی کمانے ولایت گئے اور اتنی محنت کی کہ وہاں نام بنا لیا لیکن ماضی ان کے ساتھ رہا اور ایک ترقی یافتہ ملک میں وہ عوام کی حالت دیکھتے رہے۔ جب گورنر بن کر پاکستان آئے تو ان کے سامنے ایک بھیانک صورت حال تھی۔ نہ مال محفوظ نہ جان محفوظ اور نہ عزت محفوظ۔ وہ یہ سب دیکھ کر اور اس کا برطانیہ سے موازنہ کر کے تڑپ اٹھے۔ وہ برطانیہ سے وطن آئے اور خدا نے ان کو ایک بڑا اونچا منصب دے دیا لیکن ان کا ضمیر اس منصب کو ہضم نہ کر سکا۔ وہ پاکستانی رہے اور پاکستانیت کو زندہ رکھا۔

ہمارے ہاں تو کوئی چھوٹا موٹا افسر بھی بن جائے تو فضاؤں میں اڑنے لگتا ہے اور یہ تو گورنر تھے۔ صوبے کے سب سے بڑے افسر اور صاحب اقتدار لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے وہ اپنی پاکستانی اصل فراموش نہ کر سکے اور پاکستانی رہے بس یہی پاکستانیت انھیں چین نہیں لینے دیتی اور جب وہ ناقابل برداشت جرائم دیکھتے ہیں اور مصنوعی حکمرانوں سے واسطہ پڑتا ہے تو یہ سب برداشت نہیں کر پاتے اور برملا کہتے ہیں کہ ان کے پاکستانی شب و روز کرب میں گزرے۔ لاہور شہر کی سب سے بڑی رہائشی عمارت جس میں تفریح اور عیاشی کا ہر سامان موجود ہے ان کو بہلا نہیں سکا۔ وہ فیصل آباد کے ایک عام پاکستانی ہی رہے۔

پنجاب کے گورنر نہ بن سکے اور ان میں گورنری کی خو بو کسی کو دکھائی نہ دی۔ وقت جیسا بھی گزرے گا دیکھیں گے لیکن وہ ایک یادگار گورنر بن کر زندہ رہیں گے اور اپنے جانشینوں کو یاد دلاتے رہیں گے کہ وہ افسر نہیں ایک صوبے کے نگران ہیں اور ہر بات کے ذمے دار۔ گورنر محمد سرور کی طرح۔ جو ایک زندہ گورنر بن گئے ہیں ہمیشہ کے لیے۔
Load Next Story