جلسوں کی سیاست
آصف زرداری صاحب نے تن تنہا پارٹی کو زندہ رکھا اور اب اسےغیر معمولی اخراجات کی مدد کےساتھ نئی توانائی دینا چاہتے ہیں۔
Abdulqhasan@hotmail.com
بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کے عروج کے زمانے میں کہا تھا کہ ''بھٹو خاندان حکمرانی کے لیے پیدا ہوا ہے''۔ خاندان کی حکمرانی تو دو بڑوں کے ساتھ چلی گئی اور یہ کسی حد تک خواب و خیال بھی ہو گئی لیکن اس خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش جاری ہے اور اب اس خاندان سے نصف تعلق رکھنے والا بلاول زرداری ''بھٹو'' وج گج کر اپنے نانا کے انداز میں سیاست کے میدان میں اترا ہے۔ کراچی میں اس نوجوان کی سیاست کی رونمائی ہوئی۔ اس مہورت کے موقع پر نوجوان کے لیے چھ عدد بے حد قیمتی عوامی سوٹ بھی جو بھٹو صاحب کا پسندیدہ عوامی لباس تھے تیار کیے گئے۔
جلسے کی صبح کو ان چھ میں سے ایک پر نظر انتخاب رک گئی۔ خاندان کے ہر فرد کے لیے سات عدد بکرے بھی ذبح کیے گئے جن کا گوشت جیالوں میں خیرات کے طور پر بانٹ دیا گیا لیکن وہ قیمتی پانچ سوٹ جو بچ گئے تھے ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ بھی گوشت کی طرح جیالوں میں تقسیم کر دیے گئے یا آنے والے جلسوں کے لیے محفوظ کر دیے گئے۔ کراچی کے جلسے سے پہلے ملتان کے الیکشن میں پارٹی کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی لیکن سیاست میں ہار جیت ایک معمول ہے اور پارٹی مایوس نہیں ہے اس نے جوانی بھری بھرپور انگڑائی لے کر سیاست میں ایک بار پھر قدم رکھ دیا ہے، ایک پر جوش نوجوان کو بھٹو کے نام پر عوام کی خدمت میں پیش کیا ہے پارٹی میں نئی زندگی پیدا کرنے کے لیے۔ آصف علی زرداری صاحب نے تن تنہا پارٹی کو زندہ رکھا اور اب اسے غیر معمولی اخراجات کی مدد کے ساتھ نئی توانائی دینا چاہتے ہیں، شہر شہر بلاول ہاؤس تعمیر ہو رہے ہیں، ہاؤس کیا محل تعمیر ہو رہے ہیں۔
بھٹو نے نئے نعروں کے ذریعے پارٹی کو قائم کیا تھا اور زندہ کیا تھا۔ کھلے بازوؤں والے عوامی سوٹ اور پرجوش انداز میں تقریریں اور ان تقریروں میں ایسے ایسے وعدے کہ قوم کا سر گھوم گیا۔ ایسے وعدوں کی ایک خوبصورت جھلک اب پھر دکھائی گئی ہے بہتر ہے کہ پیپلز پارٹی پھر سے کامیاب پارٹی بن جائے کیونکہ یہ ایک صحیح سیاسی پارٹی ہے اور اس میں سیاست کی تمام خوبیاں اور خرابیاں بدرجہ اتم موجود ہیں مثلاً حیران کن وعدے اور ان سے حیران کن انحراف۔ بھٹو صاحب کی سیاست کے شروع کے دنوں میں لاہور میں ایک ہی بڑا ہوٹل تھا جس میں وہ مستقل قیام کرتے تھے اور اسی ہوٹل کی نشست گاہ میں محفل جمتی تھی۔ سنہری وعدوں کے دنوں میں ایک شام کسی نے پوچھ لیا کہ سر! ان نا ممکن وعدوں کو پورا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ جواب میں بھٹو صاحب نے کہا کہ ہر مسلمان جنت پر یقین رکھتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے لیکن کیا کسی نے جنت دیکھی ہے یا اس سے انکار کیا ہے۔ بس اب بھی یہی سمجھئے۔
بھٹو صاحب نے 30 نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ تب تک ایوب خان کے آستانے سے نکلتے وقت کے مشہور آنسو خشک ہو چکے تھے اور وہ آنکھوں میں مستقبل کی ایک نئی چمک لے کر اقتدار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آج ان کا نواسہ زرداری بھی اسی سفر پر نکلا ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس سفر کے آغاز کی کئی مثالیں وہی ہیں جو اصلی بھٹو کی اس سفر پر روانگی کے وقت تھیں۔ بھٹو صاحب اردو نہیں پڑھ سکتے تھے جیسے آج بلاول ہے۔ بھٹو صاحب کو اردو زبان لکھائی گئی اور رومن رسم الخط میں ان کو پڑھائی گئی۔ یحییٰ خان کا دور تھا اور وہ اقتدار منتقل کرنے میں شامل تھے چنانچہ بھٹو صاحب انتقال اقتدار اور اقتدار کی منتقلی جیسے مشکل الفاظ کوادا نہیں کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ان الفاظ کو سیکھ لیا ، ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے اقتدار کی 'منتقلی' کا لفظ استعمال کیا اور پھر داد بھری نظروں سے ہم صحافیوں کو دیکھا اور پوچھا کہ کیا یہ لفظ ٹھیک سے ادا کیا گیا ہے۔
آج بلاول کے بارے میں دو خبریں چھپی ہیں اس میں ان کی رومن اردو کی ایک داستان ہے۔ انھوں نے جلسے میں کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک فی البدیہہ اردو میں تقریر کی۔ جو شیریں رحمان صاحبہ کی مسلسل محنت کا ثمر تھی۔ جلسہ گاہ میں بلاول کے لیے بلٹ پروف اسٹیج کے اندر خفیہ طریقے سے تقریر پڑھنے کے لیے دو اسکرینیں نصب تھیں جب کہ ساتھ ساتھ زندہ معاون بھی موجود تھے دوسرے ضروری آلات بھی تھے جن کی مدد سے وہ اردو رومن میں تقریر کر رہے تھے۔ شنید ہے کہ زرداری صاحب نے انھیں پرجوش لہجہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ بہر کیف جدید مشینوں اور والد صاحب کی مدد سے انھوں نے زبردست تقریر کر دی لیکن ان دنوں تقریری سیاست میں مقابلہ بہت سخت ہے۔
اس سیاست میں عمران خان ہیں جو نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور نئی نسل ان کو اپنا لیڈر مانتی ہے۔ کچھ ضعیف الاعتقاد پاکستانی قادری صاحب کے چنگل میں ہیں اب تیسرا شکاری بلاول ہے سب سے کم عمر اور پر جوش جس کے ساتھ سیاست کا ایک ماضی ہے جب کہ دونوں دوسروں کے پاس سیاسی ماضی کا کچھ بھی نہیں اس لیے بلاول کے پاس نا تجربہ کاری کے باوجود ایک اعتماد ہے اور عمران کے پاس اس کی جاذب شخصیت کا اثاثہ ہے لیکن مولوی صاحب کے پاس خطبہ نما تقریریں ہیں۔
تاریخی مقرر مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگ رات رات بھرتقریریں میری سنتے ہو لیکن صبح ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہو۔ عوام سے زیادہ باخبر کون ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ منڈوا کیا ہے اور کسی بامقصد پیغام والی تقریر کیا ہے لیکن اس سیاسی مقابلے کا ابھی آغاز ہے اور سامنے نہ الیکشن ہے اور نہ کوئی آمر جس کے خلاف مہم چلائی جائے۔ بات تو ابھی جاری تھی لیکن بجلی چلی گئی ہے اور سلسلہ کلام ٹوٹ گیا۔ منیر نیازی کا ایک مصرع ہے ؎
میری آدھی زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
لوڈشیڈنگ بھی آدھی آدھی ہوتی ہے۔ ہر گھنٹہ کے بعد ایک گھنٹہ۔ اللہ مالک ہے اور کیا ان تینوں سے کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ چوتھے کی حکمرانی تو ہم دیکھ رہے ہیں۔
جلسے کی صبح کو ان چھ میں سے ایک پر نظر انتخاب رک گئی۔ خاندان کے ہر فرد کے لیے سات عدد بکرے بھی ذبح کیے گئے جن کا گوشت جیالوں میں خیرات کے طور پر بانٹ دیا گیا لیکن وہ قیمتی پانچ سوٹ جو بچ گئے تھے ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ بھی گوشت کی طرح جیالوں میں تقسیم کر دیے گئے یا آنے والے جلسوں کے لیے محفوظ کر دیے گئے۔ کراچی کے جلسے سے پہلے ملتان کے الیکشن میں پارٹی کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی لیکن سیاست میں ہار جیت ایک معمول ہے اور پارٹی مایوس نہیں ہے اس نے جوانی بھری بھرپور انگڑائی لے کر سیاست میں ایک بار پھر قدم رکھ دیا ہے، ایک پر جوش نوجوان کو بھٹو کے نام پر عوام کی خدمت میں پیش کیا ہے پارٹی میں نئی زندگی پیدا کرنے کے لیے۔ آصف علی زرداری صاحب نے تن تنہا پارٹی کو زندہ رکھا اور اب اسے غیر معمولی اخراجات کی مدد کے ساتھ نئی توانائی دینا چاہتے ہیں، شہر شہر بلاول ہاؤس تعمیر ہو رہے ہیں، ہاؤس کیا محل تعمیر ہو رہے ہیں۔
بھٹو نے نئے نعروں کے ذریعے پارٹی کو قائم کیا تھا اور زندہ کیا تھا۔ کھلے بازوؤں والے عوامی سوٹ اور پرجوش انداز میں تقریریں اور ان تقریروں میں ایسے ایسے وعدے کہ قوم کا سر گھوم گیا۔ ایسے وعدوں کی ایک خوبصورت جھلک اب پھر دکھائی گئی ہے بہتر ہے کہ پیپلز پارٹی پھر سے کامیاب پارٹی بن جائے کیونکہ یہ ایک صحیح سیاسی پارٹی ہے اور اس میں سیاست کی تمام خوبیاں اور خرابیاں بدرجہ اتم موجود ہیں مثلاً حیران کن وعدے اور ان سے حیران کن انحراف۔ بھٹو صاحب کی سیاست کے شروع کے دنوں میں لاہور میں ایک ہی بڑا ہوٹل تھا جس میں وہ مستقل قیام کرتے تھے اور اسی ہوٹل کی نشست گاہ میں محفل جمتی تھی۔ سنہری وعدوں کے دنوں میں ایک شام کسی نے پوچھ لیا کہ سر! ان نا ممکن وعدوں کو پورا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ جواب میں بھٹو صاحب نے کہا کہ ہر مسلمان جنت پر یقین رکھتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے لیکن کیا کسی نے جنت دیکھی ہے یا اس سے انکار کیا ہے۔ بس اب بھی یہی سمجھئے۔
بھٹو صاحب نے 30 نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ تب تک ایوب خان کے آستانے سے نکلتے وقت کے مشہور آنسو خشک ہو چکے تھے اور وہ آنکھوں میں مستقبل کی ایک نئی چمک لے کر اقتدار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آج ان کا نواسہ زرداری بھی اسی سفر پر نکلا ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس سفر کے آغاز کی کئی مثالیں وہی ہیں جو اصلی بھٹو کی اس سفر پر روانگی کے وقت تھیں۔ بھٹو صاحب اردو نہیں پڑھ سکتے تھے جیسے آج بلاول ہے۔ بھٹو صاحب کو اردو زبان لکھائی گئی اور رومن رسم الخط میں ان کو پڑھائی گئی۔ یحییٰ خان کا دور تھا اور وہ اقتدار منتقل کرنے میں شامل تھے چنانچہ بھٹو صاحب انتقال اقتدار اور اقتدار کی منتقلی جیسے مشکل الفاظ کوادا نہیں کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ان الفاظ کو سیکھ لیا ، ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے اقتدار کی 'منتقلی' کا لفظ استعمال کیا اور پھر داد بھری نظروں سے ہم صحافیوں کو دیکھا اور پوچھا کہ کیا یہ لفظ ٹھیک سے ادا کیا گیا ہے۔
آج بلاول کے بارے میں دو خبریں چھپی ہیں اس میں ان کی رومن اردو کی ایک داستان ہے۔ انھوں نے جلسے میں کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک فی البدیہہ اردو میں تقریر کی۔ جو شیریں رحمان صاحبہ کی مسلسل محنت کا ثمر تھی۔ جلسہ گاہ میں بلاول کے لیے بلٹ پروف اسٹیج کے اندر خفیہ طریقے سے تقریر پڑھنے کے لیے دو اسکرینیں نصب تھیں جب کہ ساتھ ساتھ زندہ معاون بھی موجود تھے دوسرے ضروری آلات بھی تھے جن کی مدد سے وہ اردو رومن میں تقریر کر رہے تھے۔ شنید ہے کہ زرداری صاحب نے انھیں پرجوش لہجہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ بہر کیف جدید مشینوں اور والد صاحب کی مدد سے انھوں نے زبردست تقریر کر دی لیکن ان دنوں تقریری سیاست میں مقابلہ بہت سخت ہے۔
اس سیاست میں عمران خان ہیں جو نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور نئی نسل ان کو اپنا لیڈر مانتی ہے۔ کچھ ضعیف الاعتقاد پاکستانی قادری صاحب کے چنگل میں ہیں اب تیسرا شکاری بلاول ہے سب سے کم عمر اور پر جوش جس کے ساتھ سیاست کا ایک ماضی ہے جب کہ دونوں دوسروں کے پاس سیاسی ماضی کا کچھ بھی نہیں اس لیے بلاول کے پاس نا تجربہ کاری کے باوجود ایک اعتماد ہے اور عمران کے پاس اس کی جاذب شخصیت کا اثاثہ ہے لیکن مولوی صاحب کے پاس خطبہ نما تقریریں ہیں۔
تاریخی مقرر مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگ رات رات بھرتقریریں میری سنتے ہو لیکن صبح ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہو۔ عوام سے زیادہ باخبر کون ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ منڈوا کیا ہے اور کسی بامقصد پیغام والی تقریر کیا ہے لیکن اس سیاسی مقابلے کا ابھی آغاز ہے اور سامنے نہ الیکشن ہے اور نہ کوئی آمر جس کے خلاف مہم چلائی جائے۔ بات تو ابھی جاری تھی لیکن بجلی چلی گئی ہے اور سلسلہ کلام ٹوٹ گیا۔ منیر نیازی کا ایک مصرع ہے ؎
میری آدھی زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
لوڈشیڈنگ بھی آدھی آدھی ہوتی ہے۔ ہر گھنٹہ کے بعد ایک گھنٹہ۔ اللہ مالک ہے اور کیا ان تینوں سے کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ چوتھے کی حکمرانی تو ہم دیکھ رہے ہیں۔