پاکستان ایک نظر میں نفرت کی ذمہ دار ریاست بھی اوررعایا بھی

کوئی بھی ریاست اس وقت تک اپنی آئینی اور اخلا قی ذمہ داریا ں پو ری نہیں کرسکتی جب تک اسے ہر شہری کی حمایت حاصل نہ ہو۔

معاشرے میں اختلاف اور عدم برداشت کی یہ صورت ہوچکی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی نہیں کترارہے اور اِس کی ذمہ داری ریاست پر بھی عائد ہوتی ہے اور رعایا پر بھی۔ فوٹو: فائل

MILAN:
اگر آج وطن عزیز کے حالا ت دیکھے جائیں تو یہ کہنے میں کو ئی حر ج نہیں کہ ہم من حیث القو م صبر سے عاری ہو تے جارہے ہیں ۔کو ئی بھی دوسرے کے مذہب ،زبا ن ،ذات اور نسل سے تعلق کو معاف کر نے پر تیار نظر نہیں آرہے۔

نجانے کیوں ہمارے ہاں مذہب ،نسل ،قوم اور عز ت کے نام پرقتل کر نا ،تشدد کرنا،تذلیل ورسواکرنا اور اذیت دینا معمو ل بن گیا ہے ۔آئین پاکستان 1973(دوسر ا باب جو ریاستی اصو ل پر مبنی ہے) کی شق نمبر 33کچھ یو ں ہے کہ
The State shall discourge parochail, racial, trible, sectraian and provincial prejudices among the citizens

جس کا تر جمہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہر یو ں کے درمیا ن علاقائی،نسلی ،قبائلی ،فر قہ ورانہ اور صو بائی تعصبات کی حو صلہ شکنی کر ے گی ۔

اس امر میں کو ئی شک نہیں کہ یہ ریا ست کی ذمہ داری تھی کہ معاشرے میں بڑھتے ان تعصبات کو فروغ پانے سے روکتی اور تمام شہریوں کو ایک صف میں کھڑ ا کر کے ایک قوم کا روپ دھارنے کے لیے مو اقع اور ماحو ل فر اہم کر تی۔لیکن اس بحث میں پڑ ے بغیر کہ آیا ریا ست اپنی ذمہ داریو ں کو کسی حد تک پوری کر سکی یا نہیں یہ دیکھا جائے کہ مو جو دہ حالا ت میں ہم نے اس صو رت حال میں ریا ست کا کتنا ساتھ دیا ۔ کو ئی بھی ریاست اس وقت تک اپنی آئینی اور اخلا قی ذمہ داریا ں پو ری نہیں کر سکتی جب تک اسے ہر شہر ی کی حما یت حاصل نہ ہو اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ
ہر فر د ہے ملت کے مقد ر کا ستارہ

اسی طر ح کو ئی ریاست اس وقت تک ایک مضبوط ریا ست نہیں بن سکتی جب تک اسے اپنے لو گوں کی حمایت حاصل نہ ہو کیو نکہ جب ریاست کا کوئی فرد یا افراد کا مجمو عہ ریا ست کو اپنی جائز اور آئینی ذمہ داریا ں پوری کر نے سے روکے یا آڑے آئے تو اسے فر دیا افر ادکے مجمو عے کے خلا ف ریا ستی طاقت کا استعما ل ناگز یر ہو جاتا ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کو ئی بھی ریا ست اپنی طاقت اندرونی طور پر استعما ل کر تی ہے تو اس کے نتائج بالعموم زیا دہ حو صلہ افز ا ء نہیں ہو تے۔


جیسا کہ میں نے پہلے عر ض کیا ہے کہ اس بات میں کو ئی امر مانع نہ ہے کہ مذہبی،نسلی ،فرقہ پر ستی جیسے انتہا ئی غلط اور شر منا ک تعصبا ت کا سد باب کر نا ریا ست کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن کیا بطور مسلما ن ہمارے ایما ن کا یہ تقا ضا نہیں ہے کہ بہتر ین انسان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبا ن سے دوسر ے انسان کو دکھ نہ پہنچے ، کیا ہمارا مذہب صبر اور معا ف کر نے کا درس نہیں دیتا۔ سو ال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اس پیغمبر کے پیر وکار نہیں ہیں جس نے اپنے بڑ ے سے بڑے دشمنو ں کو بھی اس وقت معا ف کر دیا جب وہ بد لہ لینے کی پوری طاقت بھی رکھتے تھے ۔ انہو ں نے ریاست مد ینہ کی بنیا د رکھ کر بھائی چارے امن اور تما م شہر یو ں کو مکمل آزاد ی دی تھی ۔اسی طر ح جب ہم یہ دعو ی کر تے ہیں کہ پاکستان بھی مدینہ کی طر ح اسلا م کے نام پر بننے والی ایک ریاست ہے توکوئی بتا سکتاہے کہ کیا ہم ایک دوسر ے سے اسی طر ح سلو ک کر رہے ہیں جس طر ح اہلیا ن مد ینہ کیا کر تے تھے ۔

ریاست کا نظم ونسق چلا نے اور ریاست کے لو گوں کی بھلا ئی کے لیے ہی آئین و قو انین بنائے جاتے ہیں اسی طرح جب ہمارے پاس ایک متققہ آئین موجود ہے تو پھر ایک فر د یا اک مخصو ص سو چ رکھنے والے گر وہ کی رائے کے کیا معنی ہیں جب ایک فرد یا چند مٹھی بھرافراد ریاست کے آئین و قو انین کو پاما ل کر کے ریاست میں انار کی پھیلائیں تو اس کا مطلب ہے وہ نہ تو آئین پر یقین رکھتا ہے اور نہ ریا ست پر ،ایسے لو گ ریاست اور اپنی قو م کے مجر م ہی ہوتے ہیں ہیر و نہیں۔لیکن ہمارے ہاں آئین اور قانون تو ڑنے والے ہیر و ٹھہرے ہیں ۔ ایک فرد یا ایک مخصوص مذہبی ،سیا سی سو چ رکھنے والے گروہ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ جو اس کی مخصو ص سوچ اوربے بنیا د نظر یے سے اختلا ف کر نے کی جسارت کر ے اسے وہ قتل کردے ،اگر قتل نہ کر سکے تو اسے کافر قر اریا غدار قر ار دے ۔

کتنی حیر انگی کی بات ہے کہ قدرت اور ہر ریا ست کے تما م قوانین ہر شخص کوجس پر چاہے جس قسم کا بھی الزام ہو اسے اپنے دفاع اور مو قف بیان کرنے کا حق دیتے ہیں تو پھرہمارے ہاں کیوں لو گوں کو ماوروائے عدالت مارا جا رہا ہے ؟ہو نا تو یہ چاہیے کہ ریاست ایسے افر اد کے خلا ف دیوار بن کے کھڑ ے ہو جاتی لیکن افسو س سے کہنا پڑ تا ہے ریا ستی سطح پر بھی اقدمات قا بل تعریف نہیں ہیں ۔

میں ذاتی طور پر یہی سمجھتا ہوں کہ اگر ریاست میں نفرتیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے حوصلے میں کمی ہورہی ہے تو نہ اِس کی قصوروار محض ریاست ہے اور نہ ہی رعایا ۔۔۔۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ذمہ دار ہیں اور یہ حل بھی اُس وقت ہوگا جب سب اپنی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story