اندھا دھند سیاست بازی
دھرنوں نے قوم کے ذہنوں کو بہت بگاڑ دیا ہے یہاں تک کہ میں نے پہلی بار ٹی وی پر برملا گالیاں بھی سنی ہیں۔
Abdulqhasan@hotmail.com
پاکستانی حیرت زدہ رہے اور دنیا میں جس کسی کو بھی فرصت تھی وہ بھی پاکستانیوں کے ان بے معنی دھرنوں سے لطف اندوز ہوتا رہا ، کسی غیر کا کیا جاتا تھا لیکن قدرے سمجھدار پاکستانی ان دھرنوں کو دیکھ سن کر حیران اور پریشان ہوتے رہے کہ یہ کیا بے معنی تماشا ہو رہا ہے۔
ان پاکستانیوں نے بہت سیاسی جماعتیں بھی دیکھیں اور جلسے جلوس بھی لیکن ہر ایک کا کوئی مقصد اور کوئی وجہ ہوا کرتی تھی اور لوگ اس سے اتفاق کر کے اس کا ساتھ دیتے یا اختلاف کرتے اس سے الگ رہتے لیکن یہ پہلا موقع آیا کہ پاکستانیوں کا ایک بے مثال ہجوم ایک نہیں دو جگہوں اور دو لیڈروں اور جماعتوں کے تحت کئی ہفتوں تک جمع ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر طول پکڑ گیا کہ خود یہ تماشا کرنے والے بھی پریشان ہو گئے اس سے نجات کیسے حاصل کریں چنانچہ ایک تو اپنے وطن مالوف کو واپس بھاگ گیا دوسرا ابھی تک ڈٹا ہوا ہے۔
خبریں اور تصویریں یہ ملی ہیں کہ وطن مالوف یعنی کینیڈا جانے والا وہاں برگر کھا رہا ہے اور ملکہ معظمہ برطانیہ سے وفا داری اور اطاعت کا دم بھر رہا ہے وہ ملکہ جو مذہب عیسوی کی سرکاری طور پر سرپرست اور نگہبان ہیں اور ان کے ماتحت ملک کینیڈا وغیرہ کی شہریت کے لیے قانونی طور پر اپنی وفا داری طلب کرتی ہیں، یوں ہمارے شمس العلما اور نہ جانے کیا کیا اس ملکہ معظمہ کی رعایا ہیں اور ان سے غیر مشروط وفاداری کا عہد کیے ہوئے ہیں۔
موصوف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوں جہاں کے وہ شہری بھی ہیں تب بھی ملکہ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ ان کے دوسرے ہم نفس اور ساتھی دھرنا باز عمران خان ہیں جو صرف پاکستانی ہیں۔ اچھے یا برے پاکستان سے ہی وفاداری رکھتے ہیں اور ان کا واحد پتہ پاکستان ہے کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔ نفع نقصان سب یہیں ہے اور پاسپورٹ بھی یہیں کا ہے۔
لیکن سیاست کے داؤ پیچ میں موصوف بھی کورے ہیں۔ اس کے باوجود بڑے سیاستدان ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت اب ان کے ساتھ ہے اور یہی کسی بڑے سیاستدان کی نشانی ہے وہ اس اکثریت کے ساتھ کیا میچ کھیلتے ہیں۔ ان دنوں پاکستانی سینچریاں بنا رہے ہیں ان کی باری بھی آنے والی ہے کہ وہ اپنا کھلنڈرا ماضی یاد کریں۔
ایک دھرنے والے تو پھر آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے ہیں لیکن وہ جب بھی آئیں گے یہ احمق قوم ان کا ساتھ دے گی۔ شاید اتنی ہی تعداد میں بھی جو پہلے ان کے ساتھ راتوں کو جاگتی رہی ہے اور کسی مبہم فرضی انقلاب کے نعرے لگاتی رہی ہے۔ 67 برسوں تک زبردست اور گوناگوں سیاسی زندگی بسر کرنے والی قوم کوئی ایسا لیڈر تلاش نہیں کر سکی جو اس کو بکھرنے سے بچا سکے جب کہ جس قدر سیاسی تربیت اس قوم کو ملی ہے ایسی شاید ہی کسی دوسری قوم کو ملی ہو۔
سب سے بڑی خوش قسمتی یہ کہ اس قوم کو اعلیٰ نظریات ورثے میں ملے اور انھی نظریات کی حفاظت اور اشاعت کے لیے اس نے ایک ملک حاصل کیا جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں پہلا ملک تھا جو کسی نظریے کے لیے عدم سے وجود میں آیا اس پر تاریخ حیران رہ گئی۔
اس قوم کو بڑی ہی مشکل سے دو بڑی طاقتوں سے لڑ کر یہ ملک ملا۔ ایک برطانوی سامراج دوسرا ہندو مت۔ یہ دونوں مسلمانوں کے خلاف تھے لیکن مسلمان لیڈروں نے اپنی سیاسی فراست اور غیر معمولی بصیرت سے کسی فتنہ و فساد کے بغیر یہ معجزہ کر دکھایا، اس طرح یہ قوم ایک بہت بڑی تاریخی سیاسی سرگرمی سے ہو کر گزری۔ اس کا مزاج مکمل ایک سیاسی عجوبہ تھا۔ اس کے بعد فوجی آمریت نے بھی اس کی راہ دیکھ لی لیکن جمہوریت بھی موقع پا کر آتی رہی جس پر اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی جب کہ فوجی حکمرانوں نے اسے دبا رکھا تھا اسے بہت کم اٹھنے دیا لیکن اس سیاسی اور جمہوری قوم نے فوجی حکومت کو کبھی تسلیم نہ کیا۔
ملک کے مفاد اور بقاء و سلامتی کے لیے فوجی حکومتیں چلتی رہیں لیکن بالجبر بہر کیف یہ قوم ایک انوکھی سیاسی سرگرمی یعنی دھرنوں میں اتری اور ایک بالکل انوکھے اور انتہائی غیر متوقع طور پر دھرنوں کے ہجوم کو دیکھا تو اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ ایک بری حکومت سے تنگ آئے ہوئے لوگ دھرنوں کی سیاست میں بھی آ گئے کہ شاید یہاں سے سلامتی کی کوئی راہ نکل سکے۔ ایک دھرنے والا چلا گیا یا بھاگ گیا دوسرا البتہ ڈٹا ہوا ہے اور اپنی بات پر اڑا ہوا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
سیاست کا یہ نیا انداز دیکھا بھالا نہیں ہے اجنبی ہے اس لیے کیا عرض کیا جا سکتا ہے لیکن ان دھرنوں نے قوم کے ذہنوں کو بہت بگاڑ دیا ہے یہاں تک کہ میں نے پہلی بار ٹی وی پر برملا گالیاں بھی سنی ہیں جس پر میرے کانوں کو بالکل یقین نہیں آیا۔ ادھر ادھر کی تصدیق کی تو پتہ چلا کہ میں نے درست سنا تھا اور یہ واقعی صحیح گالیاں تھیں، کسی رکھ رکھاؤ اور جھجک کے بغیر۔
کیا 67 برس کی عمر میں ہماری قوم نے یہی کچھ سیکھا۔ شکر ہے کہ اس ملک اور پاکستانی قوم کے بانی اب اس دنیا میں نہیں رہے ورنہ اس اندھا دھند سیاست بازی پر وہ ہمیں بنچ پر کھڑا کر دیتے، کہیں ہم اونچے نیچے ٹیہڑے راستوں پر ایسے ہی چلتے چلتے کہیں گر جائیں گے یا پھر کوئی ہمیں صحیح اور سیدھے راستے پر لے جائے گا۔
ان پاکستانیوں نے بہت سیاسی جماعتیں بھی دیکھیں اور جلسے جلوس بھی لیکن ہر ایک کا کوئی مقصد اور کوئی وجہ ہوا کرتی تھی اور لوگ اس سے اتفاق کر کے اس کا ساتھ دیتے یا اختلاف کرتے اس سے الگ رہتے لیکن یہ پہلا موقع آیا کہ پاکستانیوں کا ایک بے مثال ہجوم ایک نہیں دو جگہوں اور دو لیڈروں اور جماعتوں کے تحت کئی ہفتوں تک جمع ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر طول پکڑ گیا کہ خود یہ تماشا کرنے والے بھی پریشان ہو گئے اس سے نجات کیسے حاصل کریں چنانچہ ایک تو اپنے وطن مالوف کو واپس بھاگ گیا دوسرا ابھی تک ڈٹا ہوا ہے۔
خبریں اور تصویریں یہ ملی ہیں کہ وطن مالوف یعنی کینیڈا جانے والا وہاں برگر کھا رہا ہے اور ملکہ معظمہ برطانیہ سے وفا داری اور اطاعت کا دم بھر رہا ہے وہ ملکہ جو مذہب عیسوی کی سرکاری طور پر سرپرست اور نگہبان ہیں اور ان کے ماتحت ملک کینیڈا وغیرہ کی شہریت کے لیے قانونی طور پر اپنی وفا داری طلب کرتی ہیں، یوں ہمارے شمس العلما اور نہ جانے کیا کیا اس ملکہ معظمہ کی رعایا ہیں اور ان سے غیر مشروط وفاداری کا عہد کیے ہوئے ہیں۔
موصوف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوں جہاں کے وہ شہری بھی ہیں تب بھی ملکہ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ ان کے دوسرے ہم نفس اور ساتھی دھرنا باز عمران خان ہیں جو صرف پاکستانی ہیں۔ اچھے یا برے پاکستان سے ہی وفاداری رکھتے ہیں اور ان کا واحد پتہ پاکستان ہے کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔ نفع نقصان سب یہیں ہے اور پاسپورٹ بھی یہیں کا ہے۔
لیکن سیاست کے داؤ پیچ میں موصوف بھی کورے ہیں۔ اس کے باوجود بڑے سیاستدان ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت اب ان کے ساتھ ہے اور یہی کسی بڑے سیاستدان کی نشانی ہے وہ اس اکثریت کے ساتھ کیا میچ کھیلتے ہیں۔ ان دنوں پاکستانی سینچریاں بنا رہے ہیں ان کی باری بھی آنے والی ہے کہ وہ اپنا کھلنڈرا ماضی یاد کریں۔
ایک دھرنے والے تو پھر آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے ہیں لیکن وہ جب بھی آئیں گے یہ احمق قوم ان کا ساتھ دے گی۔ شاید اتنی ہی تعداد میں بھی جو پہلے ان کے ساتھ راتوں کو جاگتی رہی ہے اور کسی مبہم فرضی انقلاب کے نعرے لگاتی رہی ہے۔ 67 برسوں تک زبردست اور گوناگوں سیاسی زندگی بسر کرنے والی قوم کوئی ایسا لیڈر تلاش نہیں کر سکی جو اس کو بکھرنے سے بچا سکے جب کہ جس قدر سیاسی تربیت اس قوم کو ملی ہے ایسی شاید ہی کسی دوسری قوم کو ملی ہو۔
سب سے بڑی خوش قسمتی یہ کہ اس قوم کو اعلیٰ نظریات ورثے میں ملے اور انھی نظریات کی حفاظت اور اشاعت کے لیے اس نے ایک ملک حاصل کیا جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں پہلا ملک تھا جو کسی نظریے کے لیے عدم سے وجود میں آیا اس پر تاریخ حیران رہ گئی۔
اس قوم کو بڑی ہی مشکل سے دو بڑی طاقتوں سے لڑ کر یہ ملک ملا۔ ایک برطانوی سامراج دوسرا ہندو مت۔ یہ دونوں مسلمانوں کے خلاف تھے لیکن مسلمان لیڈروں نے اپنی سیاسی فراست اور غیر معمولی بصیرت سے کسی فتنہ و فساد کے بغیر یہ معجزہ کر دکھایا، اس طرح یہ قوم ایک بہت بڑی تاریخی سیاسی سرگرمی سے ہو کر گزری۔ اس کا مزاج مکمل ایک سیاسی عجوبہ تھا۔ اس کے بعد فوجی آمریت نے بھی اس کی راہ دیکھ لی لیکن جمہوریت بھی موقع پا کر آتی رہی جس پر اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی جب کہ فوجی حکمرانوں نے اسے دبا رکھا تھا اسے بہت کم اٹھنے دیا لیکن اس سیاسی اور جمہوری قوم نے فوجی حکومت کو کبھی تسلیم نہ کیا۔
ملک کے مفاد اور بقاء و سلامتی کے لیے فوجی حکومتیں چلتی رہیں لیکن بالجبر بہر کیف یہ قوم ایک انوکھی سیاسی سرگرمی یعنی دھرنوں میں اتری اور ایک بالکل انوکھے اور انتہائی غیر متوقع طور پر دھرنوں کے ہجوم کو دیکھا تو اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ ایک بری حکومت سے تنگ آئے ہوئے لوگ دھرنوں کی سیاست میں بھی آ گئے کہ شاید یہاں سے سلامتی کی کوئی راہ نکل سکے۔ ایک دھرنے والا چلا گیا یا بھاگ گیا دوسرا البتہ ڈٹا ہوا ہے اور اپنی بات پر اڑا ہوا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
سیاست کا یہ نیا انداز دیکھا بھالا نہیں ہے اجنبی ہے اس لیے کیا عرض کیا جا سکتا ہے لیکن ان دھرنوں نے قوم کے ذہنوں کو بہت بگاڑ دیا ہے یہاں تک کہ میں نے پہلی بار ٹی وی پر برملا گالیاں بھی سنی ہیں جس پر میرے کانوں کو بالکل یقین نہیں آیا۔ ادھر ادھر کی تصدیق کی تو پتہ چلا کہ میں نے درست سنا تھا اور یہ واقعی صحیح گالیاں تھیں، کسی رکھ رکھاؤ اور جھجک کے بغیر۔
کیا 67 برس کی عمر میں ہماری قوم نے یہی کچھ سیکھا۔ شکر ہے کہ اس ملک اور پاکستانی قوم کے بانی اب اس دنیا میں نہیں رہے ورنہ اس اندھا دھند سیاست بازی پر وہ ہمیں بنچ پر کھڑا کر دیتے، کہیں ہم اونچے نیچے ٹیہڑے راستوں پر ایسے ہی چلتے چلتے کہیں گر جائیں گے یا پھر کوئی ہمیں صحیح اور سیدھے راستے پر لے جائے گا۔