بات کچھ اِدھر اُدھر کی کچہری چوک
وکیل نےانہیں یقین دلایا کہ نیا قاضی نیا نظام لارہا ہے جس سے مقدمات کا فیصلہ جلدی ہوجائے گا، آج اس بات کو 4سال بیت گئے
وکیل نےانہیں یقین دلایا کہ نیا قاضی نیا نظام لارہا ہے جس سے مقدمات کا فیصلہ جلدی ہوجائے گا، آج اس بات کو 4سال بیت گئے۔ فوٹو فائل
چار سال قبل کی بات ہے جب احسن دوسر ی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کاا سکو ل شہر کے مصر وف ترین چو ک ''کچہر ی چو ک ''کے قر یب تھا۔چو ک کا نام'' کچہری چو ک'' قر یب ہی واقع شہر کی عدالتو ں کی منا سبت سے پڑ ا تھا۔ کچہر ی چو ک میں عدالتو ں کے علا وہ ا یک طر ف اسکول جبکہ دوسر ی طر ف شہر کا بڑ ا سر کا ری اسپتال تھا ۔ احسن کے ا سکو ل کی ویگن روزانہ بچو ں کو اسکو ل کے گیٹ پر آکر اتارتی تھی اور احسن سمیت تما م بچے اپنی اپنی جما عتوں کے کمر وں کا رخ کر تے ۔ 11 بجے جب اسکو ل میں تفر یح کے لئے پند رہ منٹ کاوقفہ ہوتا تو تمام بچے اسکول کے گیٹ سے ذرا دور کچہری چو ک کے کنا رے کھڑے چا چا حید ر جس کی عمر تقریبا ستر سال کے قر یب تھی سے دال چاول خر ید کر کھاتے، یہ ان کا روز مر ہ کا معمو ل تھا ۔
ایک دن جب احسن کی ا سکو ل ویگن کچہر ی چو ک پہنچی تو وہاں ٹر یفک جام تھا اور سڑک پر ٹا ئر جلا کر احتجاج ہو رہا تھا ۔ احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ نے قا ضی کو اس کے منصب سے ہٹا دیاہے اور وہا ں پر لوگ باد شاہ کے اس فیصلے کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اچا نک کچہر ی چو ک کو ٹر یفک کے لیے بند کر دیا گیا، ا سکو ل کے ساتھ شہر کا سب سے بڑ ا سر کا ری اسپتال بھی بندہو گیا ۔احسن کی کی ا سکول ویگن کے علاوہ بہت سی گا ڑیا ں وہا ں دوگھنٹے پھنسی رہیں، ان گا ڑیوں میں سے ایک ایسی گاڑی بھی رکی ہوئی تھی جس کے ماتھے پر ایمبو لینس لکھا ہو ا نظر آرہا تھا ۔ایمبو لینس کچہر ی چو ک میں دو گھنٹے رکی رہی اور پھرتب واپس ہو ئی جب اس میں موجو د زندگی نے مو ت کی قیمت پر ایک نئی زندگی کو جنم دیا۔
پو لیس آئی ڈنڈے چلے، سر پھٹے ، خون کے فو ارے چھو ٹے ،نعر ے بلند ہو ئے''قا ضی پر ہم سب راضی ''۔ اگلے 2 ما ہ یہی ماحول رہا سرپھٹتے رہے خون بہتا رہا اور نعر ے بلند ہوتے رہے۔ ایک دن خبرنکلی کہ جانثار و قاضی آرہا ہے ۔ جان نثار نکلے، اور آج گو لی چلی ، پچاس مار ے گئے قا ضی آگے بھی نہ آیا۔ اسی دوران بادشاہ بدل گیا لیکن نیا بادشا بھی قاضی کے معا ملے پر ڈٹارہا اورقا ضی کو منصب سے علیحدہ ہوئے 2 سال بیت گئے ۔ پھر ایک ٹو ٹتی رات کونئے بادشاہ نے مان لیااور جا نثار جیت گئے ۔ مبار ک ہو مبارک ہو کی صدائیں بلند ہوئی اور پھر جشن شروع ہوگیا۔ قاضی بحال ہوا تو احسن اور اس کی ماں کی کئی سا لو ں سے سو ئی ہو ئی امید یں بھی جا گ گئیں۔
ایک دفعہ احسن کی امی نے احسن کو بتا یا تھا کہ جب وہ دو سال کا تھا تو اس کاباپ جو اپنے کھو کھے پر سگریٹ پان بیچتا تھا کو نامعلو م افراد نے گو لی مار کر ہلا ک کر دیا تھا اور اس کی ہلا کت کا مقد مہ قریبی پو لیس تھا نے میں اس کی ماں کی مدعیت میں نامعلو م افر اد کے خلا ف درج ہو ا تھا۔ اس کے علاوہ اس وقت کے بادشاہ کی طر ف سے احسن اور اس کی ما ں کے لیے 2 لا کھ امداد کا اعلا ن بھی ہو ا تھا، لیکن اٹھ سال گزرنے کے بعد نہ مقد مے کا پتہ چلا اور نہ پیسو ں کا ۔احسن کی امی نے بتا یاتھا کہ اس کے ابو نے وہ کھو کھا زمین سمیت تین لاکھ روپے میں خر ید ا تھا لیکن تمہارے ابو کے قتل کے دوسر ے دن ہی ایک شخص جس کی اسی مارکیٹ میں بیس دکانیں تھیں نے قبضہ کر لیا اور اس کے قبضے کے خلا ف بھی احسن کی امی نے مقد مہ کر رکھا ہے لیکن قبضہ واگزارکرانا ہنو ز ما ں بیٹے کا خواب ہے ۔
اب قا ضی کی بحالی کے بعد احسن کی امی سو چتی ہے کہ اگر کھو کھے والی زمین پر دوبارہ قبضہ مل جائے تو اسے کر ائے پر دیکر شائد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ احسن کو پڑ ھا لکھا کر اسے بڑ ا آدمی بناسکے ،اور وہ بڑ ا ہو کر کھو کھے کے بجا ئے کسی دفترمیں کام کرے تاکہ اس کی زند گی محفو ظ بن جائے یہی احسن اور اس کی ماں کی سوئی امید یں تھی جو قاضی کی بحالی کے بعد جاگ اٹھیں ۔
احسن کی امی سلائی مشین چلا چلا کر بیما ر ہو گئی تھی اور اسے کھا نسی کے ساتھ خو ن آنا شر وع ہو گیا تھا ۔ قا ضی کے بحا ل ہو نے کے بعد احسن کی امی نے سلا ئی کے پیسو ں میں سے پیسے بچاکر مقدمے کی پیروی میں دلچسپی لینا شر وع کی اور وکیل نے بھی یقین دلا یا کہ نیا قاضی ایک نیا نظام لا رہا ہے جس سے مقد ما ت کا فیصلہ جلدی ہوجائے گا اور جلد ان کو کھوکھا زمین سمیت واپس مل جائے گا۔
آج اس بات کو 4 سال گز ر گئے ہیں اور احسن اب اسی ا سکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم ہے۔ کچھ دن پہلے جب اسکو ل میں11 بجے تفریح کے لیے وقفہ ہوا توسب بچے چاچے حیدر کوا سکو ل کے گیٹ کے باہر نہ کھڑ ا دیکھ کر حیران ہو ئے اوربغیر دال چاول کھائے کلا س میں واپس آکر طر ح طر ح کی قیاس ارائیاں کر نے لگے کیونکہ چاچے حید ر کی پچھلے30 سالوں میں یہ اس کی پہلی چھٹی تھی ۔
شاید اپنے گاؤں چلا گیا ہو ۔احسن کے ایک ہم جماعت نے اندازہ لگا نے کی کو شش کی ۔ نہیں وہ کہ رہا تھا کہ اب وہ بیمار ہے اورکھڑ ا نہیں ہو سکتا اس لیے یہ کام چھوڑنا چا ہتا ہے لیکن اس نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس نے اپنی چار بیٹیو ں کی شا دیا ں کر نی ہیں اس لیے مجبو را دال چاول بیچ رہا ہے تاکہ ان ہاتھ کے پیلے ہو سکیں۔ کلا س کے ایک اور لڑ کے عمر نے چاچے حید ر کے بار ے میں ایک نئی کہا نی سنائی ۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ استاد کلاس میں آئے اور انہوں نے بتا یا کہ کل اسکو ل کی چھٹی کے بعد دال چاول بیچنے والے چاچا حیدر کو کسی نامعلوم شخص نے گولی مار دی اور وہ مو قع پر ہی زند گی کی بازی ہار گیا جبکہ استاد نے یہ بھی بتا یاکہ کل شہر میں اور بھی 10 ایسے لوگ مارے گئے ہیں جن کے نام بھی چاچا حید رسے ملتے جلتے تھے۔
دسمبر کی اگلی صبح جب احسن اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اس کی ماں کو کھانسی کا شد ید دو رہ پڑ ا اور وہ بے ہو ش ہو گئی ۔
احسن بے ہو ش ماں کو گھر چھو ڑ کر اسکول کے لیے کچہر ی چو ک آیا تو پھر ٹر یفک جام تھا، ٹر یفک کا شور اتنا تھا کہ کان پڑ ی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی لیکن ایک شخص اخباروں کا پلند ہ بغل میں دبائے چیخ رہا تھا ''قا ضی چلا گیا '' اسپتال اورا سکو ل کے گیٹ بند تھے اور ایک جلو س گز ر رہا تھا ۔ جب احسن نے جلو س میں شامل ہر شخص کے ہا تھ میں ایک کتبہ جس پر ''یو م نجا ت '' لکھا دیکھا تو احسن بھی کچھ سوچ کر مسکر ا دیا اور اسے اب گھر واپس جانے کی جلد ی تھی کیو ں کہ احسن کوبھی اپنے سب سے بڑ ے مسئلے سے نجا ت مل گئی تھی ۔
اگلے دن اسکول میں تفر یخ کے وقت کچہری چو ک میں تما م بچے دال چاول بیچنے والے کو چاچے حید ر کے بجائے احسن بھائی کے نام سے پکار رہے تھے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک دن جب احسن کی ا سکو ل ویگن کچہر ی چو ک پہنچی تو وہاں ٹر یفک جام تھا اور سڑک پر ٹا ئر جلا کر احتجاج ہو رہا تھا ۔ احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ نے قا ضی کو اس کے منصب سے ہٹا دیاہے اور وہا ں پر لوگ باد شاہ کے اس فیصلے کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اچا نک کچہر ی چو ک کو ٹر یفک کے لیے بند کر دیا گیا، ا سکو ل کے ساتھ شہر کا سب سے بڑ ا سر کا ری اسپتال بھی بندہو گیا ۔احسن کی کی ا سکول ویگن کے علاوہ بہت سی گا ڑیا ں وہا ں دوگھنٹے پھنسی رہیں، ان گا ڑیوں میں سے ایک ایسی گاڑی بھی رکی ہوئی تھی جس کے ماتھے پر ایمبو لینس لکھا ہو ا نظر آرہا تھا ۔ایمبو لینس کچہر ی چو ک میں دو گھنٹے رکی رہی اور پھرتب واپس ہو ئی جب اس میں موجو د زندگی نے مو ت کی قیمت پر ایک نئی زندگی کو جنم دیا۔
پو لیس آئی ڈنڈے چلے، سر پھٹے ، خون کے فو ارے چھو ٹے ،نعر ے بلند ہو ئے''قا ضی پر ہم سب راضی ''۔ اگلے 2 ما ہ یہی ماحول رہا سرپھٹتے رہے خون بہتا رہا اور نعر ے بلند ہوتے رہے۔ ایک دن خبرنکلی کہ جانثار و قاضی آرہا ہے ۔ جان نثار نکلے، اور آج گو لی چلی ، پچاس مار ے گئے قا ضی آگے بھی نہ آیا۔ اسی دوران بادشاہ بدل گیا لیکن نیا بادشا بھی قاضی کے معا ملے پر ڈٹارہا اورقا ضی کو منصب سے علیحدہ ہوئے 2 سال بیت گئے ۔ پھر ایک ٹو ٹتی رات کونئے بادشاہ نے مان لیااور جا نثار جیت گئے ۔ مبار ک ہو مبارک ہو کی صدائیں بلند ہوئی اور پھر جشن شروع ہوگیا۔ قاضی بحال ہوا تو احسن اور اس کی ماں کی کئی سا لو ں سے سو ئی ہو ئی امید یں بھی جا گ گئیں۔
ایک دفعہ احسن کی امی نے احسن کو بتا یا تھا کہ جب وہ دو سال کا تھا تو اس کاباپ جو اپنے کھو کھے پر سگریٹ پان بیچتا تھا کو نامعلو م افراد نے گو لی مار کر ہلا ک کر دیا تھا اور اس کی ہلا کت کا مقد مہ قریبی پو لیس تھا نے میں اس کی ماں کی مدعیت میں نامعلو م افر اد کے خلا ف درج ہو ا تھا۔ اس کے علاوہ اس وقت کے بادشاہ کی طر ف سے احسن اور اس کی ما ں کے لیے 2 لا کھ امداد کا اعلا ن بھی ہو ا تھا، لیکن اٹھ سال گزرنے کے بعد نہ مقد مے کا پتہ چلا اور نہ پیسو ں کا ۔احسن کی امی نے بتا یاتھا کہ اس کے ابو نے وہ کھو کھا زمین سمیت تین لاکھ روپے میں خر ید ا تھا لیکن تمہارے ابو کے قتل کے دوسر ے دن ہی ایک شخص جس کی اسی مارکیٹ میں بیس دکانیں تھیں نے قبضہ کر لیا اور اس کے قبضے کے خلا ف بھی احسن کی امی نے مقد مہ کر رکھا ہے لیکن قبضہ واگزارکرانا ہنو ز ما ں بیٹے کا خواب ہے ۔
اب قا ضی کی بحالی کے بعد احسن کی امی سو چتی ہے کہ اگر کھو کھے والی زمین پر دوبارہ قبضہ مل جائے تو اسے کر ائے پر دیکر شائد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ احسن کو پڑ ھا لکھا کر اسے بڑ ا آدمی بناسکے ،اور وہ بڑ ا ہو کر کھو کھے کے بجا ئے کسی دفترمیں کام کرے تاکہ اس کی زند گی محفو ظ بن جائے یہی احسن اور اس کی ماں کی سوئی امید یں تھی جو قاضی کی بحالی کے بعد جاگ اٹھیں ۔
احسن کی امی سلائی مشین چلا چلا کر بیما ر ہو گئی تھی اور اسے کھا نسی کے ساتھ خو ن آنا شر وع ہو گیا تھا ۔ قا ضی کے بحا ل ہو نے کے بعد احسن کی امی نے سلا ئی کے پیسو ں میں سے پیسے بچاکر مقدمے کی پیروی میں دلچسپی لینا شر وع کی اور وکیل نے بھی یقین دلا یا کہ نیا قاضی ایک نیا نظام لا رہا ہے جس سے مقد ما ت کا فیصلہ جلدی ہوجائے گا اور جلد ان کو کھوکھا زمین سمیت واپس مل جائے گا۔
آج اس بات کو 4 سال گز ر گئے ہیں اور احسن اب اسی ا سکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم ہے۔ کچھ دن پہلے جب اسکو ل میں11 بجے تفریح کے لیے وقفہ ہوا توسب بچے چاچے حیدر کوا سکو ل کے گیٹ کے باہر نہ کھڑ ا دیکھ کر حیران ہو ئے اوربغیر دال چاول کھائے کلا س میں واپس آکر طر ح طر ح کی قیاس ارائیاں کر نے لگے کیونکہ چاچے حید ر کی پچھلے30 سالوں میں یہ اس کی پہلی چھٹی تھی ۔
شاید اپنے گاؤں چلا گیا ہو ۔احسن کے ایک ہم جماعت نے اندازہ لگا نے کی کو شش کی ۔ نہیں وہ کہ رہا تھا کہ اب وہ بیمار ہے اورکھڑ ا نہیں ہو سکتا اس لیے یہ کام چھوڑنا چا ہتا ہے لیکن اس نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس نے اپنی چار بیٹیو ں کی شا دیا ں کر نی ہیں اس لیے مجبو را دال چاول بیچ رہا ہے تاکہ ان ہاتھ کے پیلے ہو سکیں۔ کلا س کے ایک اور لڑ کے عمر نے چاچے حید ر کے بار ے میں ایک نئی کہا نی سنائی ۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ استاد کلاس میں آئے اور انہوں نے بتا یا کہ کل اسکو ل کی چھٹی کے بعد دال چاول بیچنے والے چاچا حیدر کو کسی نامعلوم شخص نے گولی مار دی اور وہ مو قع پر ہی زند گی کی بازی ہار گیا جبکہ استاد نے یہ بھی بتا یاکہ کل شہر میں اور بھی 10 ایسے لوگ مارے گئے ہیں جن کے نام بھی چاچا حید رسے ملتے جلتے تھے۔
دسمبر کی اگلی صبح جب احسن اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اس کی ماں کو کھانسی کا شد ید دو رہ پڑ ا اور وہ بے ہو ش ہو گئی ۔
احسن بے ہو ش ماں کو گھر چھو ڑ کر اسکول کے لیے کچہر ی چو ک آیا تو پھر ٹر یفک جام تھا، ٹر یفک کا شور اتنا تھا کہ کان پڑ ی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی لیکن ایک شخص اخباروں کا پلند ہ بغل میں دبائے چیخ رہا تھا ''قا ضی چلا گیا '' اسپتال اورا سکو ل کے گیٹ بند تھے اور ایک جلو س گز ر رہا تھا ۔ جب احسن نے جلو س میں شامل ہر شخص کے ہا تھ میں ایک کتبہ جس پر ''یو م نجا ت '' لکھا دیکھا تو احسن بھی کچھ سوچ کر مسکر ا دیا اور اسے اب گھر واپس جانے کی جلد ی تھی کیو ں کہ احسن کوبھی اپنے سب سے بڑ ے مسئلے سے نجا ت مل گئی تھی ۔
اگلے دن اسکول میں تفر یخ کے وقت کچہری چو ک میں تما م بچے دال چاول بیچنے والے کو چاچے حید ر کے بجائے احسن بھائی کے نام سے پکار رہے تھے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔