انقلابی تحریک اور ایڈونچر
تحریکیں چھوٹی ہوں یا بڑی ان کی کامیابی میں قیادت کےدرمیان اتحاد اور اعتماد کےساتھ بروقت درست فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com
ایوب خان سے لے کر بھٹو کے ابتدائی دور تک ہم مزدور تحریک کی قیادت کا حصہ رہے اس دور کی تحریکیں پاکستان کی مزدور تحریکوں میں تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس دور کی تحریکوں کی کامیابی کی وجوہات میں ایک وجہ مزدوروں کا اپنی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد تھا۔
مزدور جانتے تھے کہ ان کے قائدین نہ بک سکتے تھے نہ جھک سکتے تھے اسی اعتماد کی وجہ لاکھوں مزدور قیادت کے فیصلوں پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے تھے جو ٹیم اس دور میں مزدوروں کی قیادت کر رہی تھی اس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اور اس ٹیم کا ہر فرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مزدور طبقے سے کمٹڈ تھا اور ان تحریکوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ دانشورانہ گائیڈ لائن کا اہتمام تھا کسی ایک ملز یا کارخانے میں ہڑتال کا پروگرام بنتا تو مہینوں پہلے اس کے لیے تیاری شروع کی جاتی تھی۔
دوسری ملوں اور کارخانوں کے مزدوروں سے اتحاد کے علاوہ مزدور بستیوں میں رہنے والوں کی حمایت حاصل کی جاتی اور ممکنہ طور پر گرفتار ہونے والے مزدوروں کے گھروں پر ان کی ضروریات مہیا کرنے کا انتظام کیا جاتا ۔گرفتار مزدوروں کی ضمانتوں کے لیے رضاکارانہ خدمات کے لیے وکلا موجود ہوتے ایک ٹیم کی ذمے داری یہ ہوتی کہ وہ جیلوں اور تھانوں میں بند مزدوروں کے خاندانوں سے رابطہ رکھے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے مزدوروں کو جیلوں میں بے سہارا نہیں چھوڑا جاتا تھا بلکہ انھیں جلد ازجلد باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی یہی وہ ساری تیاریاں تھیں جو تحریکوں کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی تھیں۔
اس حکمت عملی کی وجہ سے وہ مزدوروں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا وہ اس قدر طاقتور اور باوقار ہوگئے تھے کہ مالکان کو اپنے کارخانوں اور ملوں میں آنے کے لیے مزدور یونینوں سے پیشگی اجازت لینی پڑتی تھی اور سی بی یونینوں کی قیادت اپنی مرضی کے مطالبات منوا لیتی۔ اس مثالی اتحاد اور اعتماد کی وجہ صنعتی علاقوں میں عشروں سے دادا گیر بنی ہوئی پیشہ ورانہ یونینوں کے چراغ گل ہوگئے تھے مزدور کسی آلہ کار یونین کو برداشت نہیں کرتے تھے۔
دنیا کی واحد سپر پاور امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور دس سال تک جھک مارنے اور اربوں ڈالر اور ہزاروں سپاہیوں کے نقصان کے بعد ذلت و رسوائی کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔ افغانستان میں بھی امریکا کو ایسی ہی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا میں قدم قدم پر ناگوری ملک شاپ کی طرح تھنک ٹینک موجود ہیں اور بھاری معاوضہ لے کر حکومت کو دانشورانہ مشورے اور گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں۔ پھر امریکا کی عراق اور افغانستان میں ناکامی ذلت اور رسوائی کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بش اینڈ کمپنی طاقت کے نشے میں چور احمقانہ فیصلے کرتی رہی اور اس کے شرمناک نتائج بھگتتی رہی۔ اس کی دوسری بڑی وجہ طاقت کا غیر منصفانہ استعمال تھا اور نہ ملک کے اندر بش حکومت کو حمایت حاصل تھی نہ بیرون ملک عوام عراق اور افغانستان پر حملوں کے حامی تھے بلکہ سراپا احتجاج تھے۔
ان دو حوالوں کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ 14 اگست سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جو تحریک شروع کی اس تحریک کو اگرچہ عوام کی بے پناہ حمایت حاصل تھی اور ہے لیکن یہ تحریک اب تک کامیابی کی منزل سے دور ہے جو مقصد عمران خان اور قادری لے کر اٹھے ہیں یعنی اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کی تبدیلی وہ عوام کی ضرورت عوام کی سب سے بڑی خواہش ہے اور اگر اس تحریک کو ایک منظم منصوبہ بندی ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو اب تک یہ تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی۔
تحریکیں چھوٹی ہوں یا بڑی ان کی کامیابی میں قیادت کے درمیان اتحاد اور اعتماد کے ساتھ بروقت درست فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ایسی تحریکوں میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بروقت اور درست فیصلے نہ کیے جائیں تو فائدے نقصان میں بدل جاتے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز اگرچہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ایک ساتھ کیا اور لاہور سے اسلام آباد تک ساتھ بھی رہے لیکن یہ ساتھ عموماً ریلی کی دو پٹریوں کی طرح کا تھا کہ پٹریاں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ تھیں یہ اس تحریک کی ایک بڑی کمزوری تھی۔
اصل تحریک کی دوسری سب سے بڑی کمزوری یہ تھی اور ہے کہ نظام کی تبدیلی بچوں کا کھیل نہیں حکومت اپنے پورے وسائل اور ریاستی مشنری قانون اور انصاف کے ہتھیاروں سے لیس ایسی تحریکوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہے جس کا مقابلہ ایک یا دو پارٹیاں نہیں کرسکتیں بلکہ اس قسم کی بڑی اور دوررس نتائج کی حامل تحریکوں کے لیے ایک بڑے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بوجوہ اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔
ملک میں اس استحصالی نظام کو بدلنے کا عزم رکھنے والی بہت ساری جماعتیں موجود ہیں جو اپنی طاقت کی کمی وسائل کے فقدان کی وجہ سے کوئی بڑی تحریک منظم کرنے سے قاصر ہیں اگر ان جماعتوں سے رابطے کیے جاتے تو بلاشبہ یہ جماعتیں اس تحریک کا حصہ بنتیں۔ ملک میں ایسی بے شمار ٹریڈ یونینیں اور پیشہ ورانہ تنظیمیں موجود ہیں جو اس سڑے گلے جابرانہ عوام دشمن نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں لیکن ان میں سے کسی کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ایک اور غلطی یہ تھی کہ دھرنا بغیر کسی موثر پلاننگ کے شروع کیا گیا ہزاروں خواتین اور بچے دھرنے میں شامل تھے اور سخت موسم کو برداشت کرتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہے یہ ان کی جرأت بہادری تھی لیکن ان کی اس جرأت اور عزم کا درست استعمال نہیں کیا گیا۔ دھرنے عموماً مختصر مدتی ہوتے ہیں اور کم سے کم وقت میں اپنے اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔
مزدور تحریکوں میں کامیابی کے لیے بڑی مالی اور جانی قربانیاں دینی پڑتی ہیں نظام بدلنے کی تحریک کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتی حکومت اپنی پوری طاقت وسائل اور ریاستی مشنری کے ساتھ سامنے ہوتی ہے اتنی منظم اور طاقتور مشنری کے ساتھ لڑنے کے لیے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور محسوس یہ ہوتا رہا کہ تحریک کی قیادت صرف نعروں اور گرم گرم تقریروں سے یہ جنگ جیتنا چاہتی تھی جب کہ دنیا کی تاریخ میں استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے بہت بڑی جانی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔
سیاسی تحریکوں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور وقتی طور پر ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اگر تحریک عوام کے منصفانہ حقوق کی ہو اور عوام اس تحریک کے حامی ہوں تو وقتی ناکامیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام اس ظالمانہ جابرانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ عوام کی طاقت کا مثبت اور موثر استعمال کیا جائے اس حوالے سے ہر علاقے ہر شہر میں موثر تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کو متحرک کرسکے۔
طاہر القادری دھرنا ختم کرچکے ہیں اور ''بوجوہ'' انتخابی نظام میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں جو خود ان کے نظریات کی نفی ہے اگر اسی نظام کا حصہ بننا تھا تو 70-75 دن ہزاروں مرد عورتوں بچوں کو ڈی چوک پر بٹھانے اور انقلاب لانے کی باتیں کیوں کی گئیں؟ عمران خان لشٹم پشٹم ابھی تک دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اگر مجھے اکیلے دھرنے میں بیٹھنا پڑے تو بیٹھوں گا۔ یہ ایک طفلانہ ضد ہے جو نظام کی تبدیلی میں کسی طرح معاون ثابت نہیں ہوسکتی جو احمقانہ غلطی کی گئی ہے وہ ہے ''نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ'' اب بھدے انداز میں اس مطالبے کو واپس لے لیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عوام قیادت کی غلطیوں اور کمزورویوں کے باوجود اس نظام کو بدلنے کے لیے پرعزم ہیں عمران خان 30 نومبر کو ایک اور کوشش کرنے کا اعلان کر رہے ہیں نومبر دسمبر سخت سردیوں کے مہینے ہوتے ہیں بہادر سے بہادر لوگ بھی اس کڑاکے کی سردی میں ہفتوں مہینوں نہیں بیٹھ سکتے اگر ایک بڑے اتحاد اور تیاری کے بغیر 30 نومبر کو نظام بدلنے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک ایڈونچر ہی ہوگا اور عوام ایک لمبے عرصے تک اس قسم کے ایڈونچروں سے دور ہوجائیں گے۔
مزدور جانتے تھے کہ ان کے قائدین نہ بک سکتے تھے نہ جھک سکتے تھے اسی اعتماد کی وجہ لاکھوں مزدور قیادت کے فیصلوں پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے تھے جو ٹیم اس دور میں مزدوروں کی قیادت کر رہی تھی اس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اور اس ٹیم کا ہر فرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مزدور طبقے سے کمٹڈ تھا اور ان تحریکوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ دانشورانہ گائیڈ لائن کا اہتمام تھا کسی ایک ملز یا کارخانے میں ہڑتال کا پروگرام بنتا تو مہینوں پہلے اس کے لیے تیاری شروع کی جاتی تھی۔
دوسری ملوں اور کارخانوں کے مزدوروں سے اتحاد کے علاوہ مزدور بستیوں میں رہنے والوں کی حمایت حاصل کی جاتی اور ممکنہ طور پر گرفتار ہونے والے مزدوروں کے گھروں پر ان کی ضروریات مہیا کرنے کا انتظام کیا جاتا ۔گرفتار مزدوروں کی ضمانتوں کے لیے رضاکارانہ خدمات کے لیے وکلا موجود ہوتے ایک ٹیم کی ذمے داری یہ ہوتی کہ وہ جیلوں اور تھانوں میں بند مزدوروں کے خاندانوں سے رابطہ رکھے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے مزدوروں کو جیلوں میں بے سہارا نہیں چھوڑا جاتا تھا بلکہ انھیں جلد ازجلد باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی یہی وہ ساری تیاریاں تھیں جو تحریکوں کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی تھیں۔
اس حکمت عملی کی وجہ سے وہ مزدوروں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا وہ اس قدر طاقتور اور باوقار ہوگئے تھے کہ مالکان کو اپنے کارخانوں اور ملوں میں آنے کے لیے مزدور یونینوں سے پیشگی اجازت لینی پڑتی تھی اور سی بی یونینوں کی قیادت اپنی مرضی کے مطالبات منوا لیتی۔ اس مثالی اتحاد اور اعتماد کی وجہ صنعتی علاقوں میں عشروں سے دادا گیر بنی ہوئی پیشہ ورانہ یونینوں کے چراغ گل ہوگئے تھے مزدور کسی آلہ کار یونین کو برداشت نہیں کرتے تھے۔
دنیا کی واحد سپر پاور امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور دس سال تک جھک مارنے اور اربوں ڈالر اور ہزاروں سپاہیوں کے نقصان کے بعد ذلت و رسوائی کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔ افغانستان میں بھی امریکا کو ایسی ہی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا میں قدم قدم پر ناگوری ملک شاپ کی طرح تھنک ٹینک موجود ہیں اور بھاری معاوضہ لے کر حکومت کو دانشورانہ مشورے اور گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں۔ پھر امریکا کی عراق اور افغانستان میں ناکامی ذلت اور رسوائی کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بش اینڈ کمپنی طاقت کے نشے میں چور احمقانہ فیصلے کرتی رہی اور اس کے شرمناک نتائج بھگتتی رہی۔ اس کی دوسری بڑی وجہ طاقت کا غیر منصفانہ استعمال تھا اور نہ ملک کے اندر بش حکومت کو حمایت حاصل تھی نہ بیرون ملک عوام عراق اور افغانستان پر حملوں کے حامی تھے بلکہ سراپا احتجاج تھے۔
ان دو حوالوں کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ 14 اگست سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جو تحریک شروع کی اس تحریک کو اگرچہ عوام کی بے پناہ حمایت حاصل تھی اور ہے لیکن یہ تحریک اب تک کامیابی کی منزل سے دور ہے جو مقصد عمران خان اور قادری لے کر اٹھے ہیں یعنی اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کی تبدیلی وہ عوام کی ضرورت عوام کی سب سے بڑی خواہش ہے اور اگر اس تحریک کو ایک منظم منصوبہ بندی ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو اب تک یہ تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی۔
تحریکیں چھوٹی ہوں یا بڑی ان کی کامیابی میں قیادت کے درمیان اتحاد اور اعتماد کے ساتھ بروقت درست فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ایسی تحریکوں میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بروقت اور درست فیصلے نہ کیے جائیں تو فائدے نقصان میں بدل جاتے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز اگرچہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ایک ساتھ کیا اور لاہور سے اسلام آباد تک ساتھ بھی رہے لیکن یہ ساتھ عموماً ریلی کی دو پٹریوں کی طرح کا تھا کہ پٹریاں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ تھیں یہ اس تحریک کی ایک بڑی کمزوری تھی۔
اصل تحریک کی دوسری سب سے بڑی کمزوری یہ تھی اور ہے کہ نظام کی تبدیلی بچوں کا کھیل نہیں حکومت اپنے پورے وسائل اور ریاستی مشنری قانون اور انصاف کے ہتھیاروں سے لیس ایسی تحریکوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہے جس کا مقابلہ ایک یا دو پارٹیاں نہیں کرسکتیں بلکہ اس قسم کی بڑی اور دوررس نتائج کی حامل تحریکوں کے لیے ایک بڑے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بوجوہ اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔
ملک میں اس استحصالی نظام کو بدلنے کا عزم رکھنے والی بہت ساری جماعتیں موجود ہیں جو اپنی طاقت کی کمی وسائل کے فقدان کی وجہ سے کوئی بڑی تحریک منظم کرنے سے قاصر ہیں اگر ان جماعتوں سے رابطے کیے جاتے تو بلاشبہ یہ جماعتیں اس تحریک کا حصہ بنتیں۔ ملک میں ایسی بے شمار ٹریڈ یونینیں اور پیشہ ورانہ تنظیمیں موجود ہیں جو اس سڑے گلے جابرانہ عوام دشمن نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں لیکن ان میں سے کسی کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ایک اور غلطی یہ تھی کہ دھرنا بغیر کسی موثر پلاننگ کے شروع کیا گیا ہزاروں خواتین اور بچے دھرنے میں شامل تھے اور سخت موسم کو برداشت کرتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہے یہ ان کی جرأت بہادری تھی لیکن ان کی اس جرأت اور عزم کا درست استعمال نہیں کیا گیا۔ دھرنے عموماً مختصر مدتی ہوتے ہیں اور کم سے کم وقت میں اپنے اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔
مزدور تحریکوں میں کامیابی کے لیے بڑی مالی اور جانی قربانیاں دینی پڑتی ہیں نظام بدلنے کی تحریک کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتی حکومت اپنی پوری طاقت وسائل اور ریاستی مشنری کے ساتھ سامنے ہوتی ہے اتنی منظم اور طاقتور مشنری کے ساتھ لڑنے کے لیے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور محسوس یہ ہوتا رہا کہ تحریک کی قیادت صرف نعروں اور گرم گرم تقریروں سے یہ جنگ جیتنا چاہتی تھی جب کہ دنیا کی تاریخ میں استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے بہت بڑی جانی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔
سیاسی تحریکوں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور وقتی طور پر ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اگر تحریک عوام کے منصفانہ حقوق کی ہو اور عوام اس تحریک کے حامی ہوں تو وقتی ناکامیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام اس ظالمانہ جابرانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ عوام کی طاقت کا مثبت اور موثر استعمال کیا جائے اس حوالے سے ہر علاقے ہر شہر میں موثر تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کو متحرک کرسکے۔
طاہر القادری دھرنا ختم کرچکے ہیں اور ''بوجوہ'' انتخابی نظام میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں جو خود ان کے نظریات کی نفی ہے اگر اسی نظام کا حصہ بننا تھا تو 70-75 دن ہزاروں مرد عورتوں بچوں کو ڈی چوک پر بٹھانے اور انقلاب لانے کی باتیں کیوں کی گئیں؟ عمران خان لشٹم پشٹم ابھی تک دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اگر مجھے اکیلے دھرنے میں بیٹھنا پڑے تو بیٹھوں گا۔ یہ ایک طفلانہ ضد ہے جو نظام کی تبدیلی میں کسی طرح معاون ثابت نہیں ہوسکتی جو احمقانہ غلطی کی گئی ہے وہ ہے ''نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ'' اب بھدے انداز میں اس مطالبے کو واپس لے لیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عوام قیادت کی غلطیوں اور کمزورویوں کے باوجود اس نظام کو بدلنے کے لیے پرعزم ہیں عمران خان 30 نومبر کو ایک اور کوشش کرنے کا اعلان کر رہے ہیں نومبر دسمبر سخت سردیوں کے مہینے ہوتے ہیں بہادر سے بہادر لوگ بھی اس کڑاکے کی سردی میں ہفتوں مہینوں نہیں بیٹھ سکتے اگر ایک بڑے اتحاد اور تیاری کے بغیر 30 نومبر کو نظام بدلنے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک ایڈونچر ہی ہوگا اور عوام ایک لمبے عرصے تک اس قسم کے ایڈونچروں سے دور ہوجائیں گے۔