بات کچھ اِدھر اُدھر کی تم کرتی کیا ہو
خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے مرد آئے دن عورت کی تذلیل اور توہین کے لئے آنے دن نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ فوٹو فائل
ہمارے اسلامی معاشرے میں اللہ کی رحمت کا لقب پانے والی بیٹیوں کو زحمت اور بوجھ کا طعنہ دیا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں بیٹیوں کو ایک ایسی پروڈکٹ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بیک وقت خانساماں، دھوبی اور ایک خاکروب کی تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کررہی ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے انہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے نہیں دیا جاتا۔ اور اگر بدقسمتی سے بیٹیوں کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ جائے تو پھر باپ کے علاوہ سارے رشتے ان کے لئے پرائے ہوجاتے ہیں۔
مغربی معاشرتی روایات کے مطابق عورت معاشرے کا نصف جُز ہے جبکہ اسلامی معاشرے میں مساوات کی بنیاد پر فرائض کی مساوی منصفانہ تقسیم ہے۔ جس میں مرد سرمایہ کار اور عورت منتظم ہے۔ گویا مرد کی ذمہ داری زرمعاش کا بندوبست کرنا اور عورت کی ذمہ داری گھر کا معاشی نظام چلانا ہے۔ لیکن ہمارے مغرب زدہ معاشرے میں بدقسمتی سے گھر کے معاشی نظام کو چلانے کے لئے عورت کو میدان عمل میں اترنا پڑتا ہے، مگر اس کی حیثیت اس مرد سے قطعی مختلف ہے جو کام بھی کرتا ہے اور رات کو بیوی سے پاؤں بھی دبواتا ہے۔ عورت کو اپنی ملازمت کے ساتھ تمام امور خانہ داری بھی نمٹانے پڑتے ہیں، وہ صبح ملازمت کرتی ہے اور جب شام کو تھک ہار کر گھرآتی ہے تو ڈھیر سارے کام اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ اور چھٹی کا دن تو باقی دنوں سے قدرِ مصروف گزرتا ہے، کیوں؟ اس کا جواب تو سب ہی جاتے ہیں کہ چھٹی والے دن گھر کے ''بڑے کام'' جو کرنے پڑتے ہیں۔
تاہم عورت اپنی آمدورفت کے حوالے سے متضاد رویوں کا شکار رہتی ہے، اپنی کاہلی کے سبب عورت کو گھر سے باہر بھیجنے والا مرد اپنی شکی فطرت سے باز نہیں آتا اور شب و روز محنت کرنے والی عورت کو اکثر اپنی تذلیل کا احساس ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن افسوس اس کی تکلیف سمجھنے کے بجائے اُس بنت حوا کو تکلیف دینا فیشن بن گیا ہے۔
چٹاخ۔۔۔ بن بادل برسات بنت حوا کی چشم نم سے رواں ہوگئی۔ زبان چلاتی ہے میرے آگے، گھر چلانے لگی ہے، پیسے لارہی ہے تو کیا سمجھتی ہے کہ گھرکی حاکم ہو گئی ہے۔ نجانے کہاں منہ کالا کرا کر آتی ہے۔
وہ اول فول بک رہا تھا اور وہ کھڑی سوچ رہی تھی کہ اس کا کیا قصورہے؟ شوہر بے روزگار ہوا تو وہ بچوں کی تعلیم اور نا نفقہ کے لئے خود محنت کرنے نکل پڑی۔ آج ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹہ بھر لیٹ ہوگئی، شوہر کے استفسار پر جب حقیقت بیان کی تو وہ الٹا اس پر برس پڑا۔
سب جانتا ہوں میں میرے دوست کی سیٹنگ ہے ایک فیکٹری والی سے، فیکٹری سے اپنے گھر لے جاتا ہے، ایک آدھ گھنٹہ عیاشی کرتے ہیں اور وہ اپنے گھروالے کو ٹریفک جام کا کہہ دیتی ہے۔ تو آپ ایسے گندے شخص کو دوست ہی کیوں بناتے ہیں جو آپ کی سوچ کو بھی گندا کررہا ہے؟ اور پھر ایک اور طمانچہ، چٹاخ۔۔ وہ بھی ان گالوں پر جو ماں باپ کے گھر تھپتھپائے جاتے تھے چومے جاتے تھے۔
یہ کسی معاشرتی افسانے کا پیرا نہیں بلکہ ایک تصویر ہے روزانہ ہزاروں گھروں میں اپنے ناتواں کندھوں پر گھر کا معاشی بوجھ لادنے والی ملازمت پیشہ خواتین کی واپسی کے مناظر کی۔ عورت جو آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہے، اسے خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے مرد آئے دن عورت کی تذلیل اور توہین کے لئے آنے دن نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
یہ ہے ہمارے معاشرے میں عدم تحفظ کا شکار عورت کی تلخ حقیقت۔ وہ اولاد کے لئے قربان ہوتی ہے، بھائیوں کی غم گسار ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت گزار ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خاتون خانہ، دھوبی، باورچن ، جھاڑو لگانے والی ،آیا، برتن اور پونچھا کرنے والی ماسی بھی ہے۔ اس کے باوجود اس سے کہا جاتا ہے کہ ''تم کرتی کیا ہو؟'' اس سوال کے پیچھے بھی مردوں کاغیر منصفانہ رویہ ہے، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عدم توازن عورت کو قدم لڑکھڑانے اور مقام سے گرنے کی صورت میں معاشرے کی نظر میں گرا دیتا ہے۔
ان تمام عوامل کی بنیادی وجہ ہمارا معاشرہ ہے، جو شر عی ہے نہ غیر شرعی ، مشرقی ہے نہ مغربی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد ہمارے اخلاص و اغراض کی حدیں اپنے مفادات کے تحت خود متعین کرتے ہیں اور اسی کو شرعی، معاشرتی اور تہذیبی حدود کا نام دیتے ہیں ۔ہمارا کوئی اجتماعی نظریہ یا سوچ نہیں ہے نہ ہم بحیثیت قوم کے ایک ہیں اور جب تک ہماری سوچ ہماری فکر وسعت حاصل نہیں کرتی ہم منافقانہ رویوں کا شکار رہیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔