دو نئی کتابیں
معاشروں میں اچھائی اور برائی کا ایک تناسب ہوتا ہے۔ اچھائی کچھ کم، برائی کچھ زیادہ۔
Abdulqhasan@hotmail.com
میرے مہربان صاحبانِ کتاب مجھے یاد کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس توقع کے ساتھ کہ میں ان کتابوں پر تبصرہ کروں گا۔ بعض اوقات زبردست مصروفیات کی وجہ سے پوری کتاب تو نہیں پڑھی جا سکتی البتہ اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ استادوں کے استاد کالم نگار مولانا نصراللہ خان عزیز نے ایک دفعہ مجھے یہ خوش کن مشورہ دیا کہ کتاب کی شکل و صورت دیکھتے رہیں یعنی کتابت وغیرہ اور جلد بندی وغیرہ پھر دو چار ابتدائی صفحات کچھ درمیان میں سے اور کچھ آخر کے صفحات اور پھر اس کتاب پر تبصرہ۔ مولانا مرحوم و مغفور اپنے دور کے جید فکاہیہ کالم نگاروں میں شمار ہوتے تھے اور میرے مہربان تھے۔ ان کا یہ خوشگوار مشورہ مجھے یاد رہتا ہے لیکن درج ذیل زیر تبصرہ کتابوں کو میں نے سرسری نظر سے ہی نہیں ذرا پڑھ کر تبصرہ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
آہ بے تاثیرہے
ہمارے عزیز دوست اور سابقہ رفیق کار عبداللہ طارق سہیل اپنی خبروں والی صحافت کے ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ طنزیہ کالم نگاری میں اپنے دور کے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں نے ان کے تمام کالم ہی پڑھ رکھے ہیں اور ان کالموں پر تبصرہ جس انداز میں خود انھوں نے کیا ہے ایسا میرے بس میں نہ تھا میں اسی تبصرے کو شکرئیے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں۔ صحافت میں ان کا یہ کارنامہ یاد گار ہے۔ اب آپ ان کی کتاب پر ان کا اپنا غیر جانبدارانہ تبصرہ ملاحظہ کریں جو خود ایک خوبصورت اور معنی خیز کالم ہے۔ یہ کتاب ایڈن بک ہاؤس لاہور نے خوبصورت انداز میں چھاپی ہے قیمت درج نہیں صفحات چار سو۔ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
زیر نظر مجموعہ ان کالموں کا انتخاب ہے جو روزنامہ ایکسپریس 26 مارچ 2007ء سے لے کر 9 دسمبر2011ء کے عرصے میں شایع ہوئے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک انوکھا اور سخت پر آشوب دور تھا۔
معاشروں میں اچھائی اور برائی کا ایک تناسب ہوتا ہے۔ اچھائی کچھ کم' برائی کچھ زیادہ۔ یہ توازن بگڑ جائے تو حالات معمول کے مطابق نہیں رہتے۔ توازن بگڑنے کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ اچھائی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کی نوبت تو شاید قیامت سے ذرا پہلے ہی آ سکتی ہے۔ توازن بگڑنے کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ برائی زیادہ ہو گئی اور مشرف دور میں تو ہر طرح کی برائی کو ''قومی ملکیت'' یعنی سرکاری سرپرستی میں لے لیا گیا اور بگاڑا اتنا زیادہ ہو گیا کہ اچھائی دکھائی دینا ہی بند ہو گئی۔ سیلاب آنے پر سب زمین ڈوب جاتی ہے لیکن زیادہ اونچی جگہیں جزیرے کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ مشرف دور میں المیہ یہ ہوا کہ دور دور تک بس پانی ہی پانی تھا' کوئی جزیرہ نظر نہیں آتا تھا۔
کرپشن' ظلم' جھوٹ' دھوکا' خوشامد' موقع پرستی' ضمیر فروشی' ہر طرح کے فوجداری جرائم کا طوفان ایک طرف تھا اور امریکا کے ساتھ وطن فروشی کا ماجرا دوسری طرف تھا۔ افغان جنگ کے موقع پر پاکستان کے ایئر پورٹ اور دوسری سہولتیں امریکا کو دے دی گئیں' پاکستانی شہری لاپتہ کیے جانے لگے۔ کچھ امریکا کے ہاتھ بیچ کر ڈالر کمائے گئے' کچھ یہیں مار دیے گئے اور وطن فروشی کا عروج کچھ ایسا ہوا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی باتیں بھی ہونے لگیں یعنی یہ کہ شاید امریکا کو ان تک رسائی دے دی گئی ہے۔ قومی اثاثے بھارتی سرمایہ کاروں کو بیچنے کے فیصلے بھی اسی دور میں ہوئے جو عدلیہ نے ناکام بنائے۔
مہنگائی ہر حد سے گزر گئی اور غربت نے وہ زور باندھا کہ خود کشیوں کا سیلاب آ گیا اور یہ ''تاریخ ساز موڑ'' بھی وقت نے دیکھا کہ پاکستان سے زیادہ غریب ملک بنگلہ دیش اور بھارت پاکستان سے زیادہ امیر ہو گئے۔ اداروں کا نظام درہم برہم ہو گیا لسانی اور مسلکی بنیادوں پر قتل عام ہونے لگے اور خونریزی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ پاکستان طویل خانہ جنگی سے تباہ ہونے والے افریقی ملکوں کے منظر پیش کرنے لگا۔ یہ کالم اسی دور کی جھلکیاں ہیں۔ لکھنے کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ ہر ناہمواری پر انگلی اٹھائی جائے اور ہر برائی کا تمسخر اڑایا جائے' یہ کالم اسی انداز میں لکھے گئے ہیں۔ کہیں پر تنقید کے ہدف کا نام لیا گیا ہے تو کہیں نہیں لیا گیا لیکن ایسے انداز میں کہ پتہ چل جاتا ہے کہ ہدف کون ہے ''صفات'' کی نشاندہی کر کے ہدف کو قابل شناخت بنا دیا گیا ہے۔
جو تصویر تب تھی' کم و بیش آج بھی ہے۔ اس دور میں جنم لینے والے زیادہ تر عذاب بدستور ہیں۔ اگر یہ اس دور کی ''طنزیہ تاریخ ہے (جس میں کچھ مزاح بھی ملے گا) تو آج کی تصویر بھی ہے۔ اکثر شعبوں میں بگاڑ جوں کا توں ہے اور کچھ میں تو شاید اور بھی بڑھ گیا ہے۔ منتخب حکومت سے وطن فروشی کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن منتخب حکومت سے قوم کے بھلے کی امید تبھی ہو سکتی ہے جب وہ اقربا پروری اور شاہانہ انداز حکمرانی کو بھی خیر باد کہہ دے۔ ایسا ہوتا زیادہ نظر نہیں آ رہا لیکن حوصلہ دلانے والی بات یہ ہے کہ امید جو مشرف دور میں' یوں سمجھئے کہ مر گئی تھی' پھر سے جی اٹھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاریخ کا یہ ''ریکارڈ'' قارئین کی امانت ہے' انھی کی نذر ہے گر قبول افتد...
جلوہ ہائے جمال
زیر نظر نذرانہ عقیدت جناب تفاخر محمود گوندل کی طرف سے ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خوش قسمت کو یاد فرمایا اور ان کی ہمت کی داد دیجیے کہ انھوں نے اپنے جذبات کو نظم و نثر کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ بڑے بڑوں نے عجز کا اظہار کیا ہے۔
گوندل صاحب محترم کی طرح مجھے بھی حاضری کا ایک سے زیادہ بار موقع ملا ہر بار سعودی محافظوں کی جھاڑ کھائی لیکن اپنی وارفتگی پر ڈٹا رہا شاید اس لیے کہ مجھے اس لمحے کچھ زیادہ ہوش نہ تھا اور سعودی محافظ مجبور تھے کہ وارفتگان شوق کو حد ادب کے اندر رکھیں ورنہ اس مقام پر نہ جانے کیا کچھ ہو جائے۔ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ میرے پاس جو بھی آتا ہے میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ آنحضرتؐ کو اپنی امت بہت عزیز تھی حضورؐ ضرور خوش ہوتے ہوں گے کہ ان کا کوئی امتی ان کے قدموں میں حاضر ہے۔ اس دربار پر حاضری کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ ایک دیہاتی شاعر جو تُک بند کہلاتا ہے استاد امام دین گجراتی اس نے نعت میں ایک ایسا شعر لکھ دیا کہ محبت و الفت کا حق ادا کر دیا۔
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
جب ہم لوگ حاضری دیتے ہیں تو جنت سے بھی ہو کر آتے ہیں کیونکہ خود مزار کے احاطے میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو ریاض الجنت سے موسوم ہے یعنی جنت کا باغ۔ ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے تو مدینہ کی ہوائیں بھی جنت کی ہوائیں ہیں۔ وہاں جو کچھ بھی ہے اسے صرف اور صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
گوندل صاحب نے کمال عجز کے ساتھ اس دیار کے سفر کی داستان بیان کی ہے۔ حضور پاکؐ ان کا نذرانہ قبول فرمائیں۔ نظم و نثر میں انھوں نے اپنے جذبات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ماوراء پبلشرز نے چھاپی ہے قیمت پانچ سو روپے اور طباعت شاندار۔ صفحات302۔
آہ بے تاثیرہے
ہمارے عزیز دوست اور سابقہ رفیق کار عبداللہ طارق سہیل اپنی خبروں والی صحافت کے ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ طنزیہ کالم نگاری میں اپنے دور کے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں نے ان کے تمام کالم ہی پڑھ رکھے ہیں اور ان کالموں پر تبصرہ جس انداز میں خود انھوں نے کیا ہے ایسا میرے بس میں نہ تھا میں اسی تبصرے کو شکرئیے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں۔ صحافت میں ان کا یہ کارنامہ یاد گار ہے۔ اب آپ ان کی کتاب پر ان کا اپنا غیر جانبدارانہ تبصرہ ملاحظہ کریں جو خود ایک خوبصورت اور معنی خیز کالم ہے۔ یہ کتاب ایڈن بک ہاؤس لاہور نے خوبصورت انداز میں چھاپی ہے قیمت درج نہیں صفحات چار سو۔ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
زیر نظر مجموعہ ان کالموں کا انتخاب ہے جو روزنامہ ایکسپریس 26 مارچ 2007ء سے لے کر 9 دسمبر2011ء کے عرصے میں شایع ہوئے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک انوکھا اور سخت پر آشوب دور تھا۔
معاشروں میں اچھائی اور برائی کا ایک تناسب ہوتا ہے۔ اچھائی کچھ کم' برائی کچھ زیادہ۔ یہ توازن بگڑ جائے تو حالات معمول کے مطابق نہیں رہتے۔ توازن بگڑنے کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ اچھائی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کی نوبت تو شاید قیامت سے ذرا پہلے ہی آ سکتی ہے۔ توازن بگڑنے کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ برائی زیادہ ہو گئی اور مشرف دور میں تو ہر طرح کی برائی کو ''قومی ملکیت'' یعنی سرکاری سرپرستی میں لے لیا گیا اور بگاڑا اتنا زیادہ ہو گیا کہ اچھائی دکھائی دینا ہی بند ہو گئی۔ سیلاب آنے پر سب زمین ڈوب جاتی ہے لیکن زیادہ اونچی جگہیں جزیرے کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ مشرف دور میں المیہ یہ ہوا کہ دور دور تک بس پانی ہی پانی تھا' کوئی جزیرہ نظر نہیں آتا تھا۔
کرپشن' ظلم' جھوٹ' دھوکا' خوشامد' موقع پرستی' ضمیر فروشی' ہر طرح کے فوجداری جرائم کا طوفان ایک طرف تھا اور امریکا کے ساتھ وطن فروشی کا ماجرا دوسری طرف تھا۔ افغان جنگ کے موقع پر پاکستان کے ایئر پورٹ اور دوسری سہولتیں امریکا کو دے دی گئیں' پاکستانی شہری لاپتہ کیے جانے لگے۔ کچھ امریکا کے ہاتھ بیچ کر ڈالر کمائے گئے' کچھ یہیں مار دیے گئے اور وطن فروشی کا عروج کچھ ایسا ہوا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی باتیں بھی ہونے لگیں یعنی یہ کہ شاید امریکا کو ان تک رسائی دے دی گئی ہے۔ قومی اثاثے بھارتی سرمایہ کاروں کو بیچنے کے فیصلے بھی اسی دور میں ہوئے جو عدلیہ نے ناکام بنائے۔
مہنگائی ہر حد سے گزر گئی اور غربت نے وہ زور باندھا کہ خود کشیوں کا سیلاب آ گیا اور یہ ''تاریخ ساز موڑ'' بھی وقت نے دیکھا کہ پاکستان سے زیادہ غریب ملک بنگلہ دیش اور بھارت پاکستان سے زیادہ امیر ہو گئے۔ اداروں کا نظام درہم برہم ہو گیا لسانی اور مسلکی بنیادوں پر قتل عام ہونے لگے اور خونریزی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ پاکستان طویل خانہ جنگی سے تباہ ہونے والے افریقی ملکوں کے منظر پیش کرنے لگا۔ یہ کالم اسی دور کی جھلکیاں ہیں۔ لکھنے کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ ہر ناہمواری پر انگلی اٹھائی جائے اور ہر برائی کا تمسخر اڑایا جائے' یہ کالم اسی انداز میں لکھے گئے ہیں۔ کہیں پر تنقید کے ہدف کا نام لیا گیا ہے تو کہیں نہیں لیا گیا لیکن ایسے انداز میں کہ پتہ چل جاتا ہے کہ ہدف کون ہے ''صفات'' کی نشاندہی کر کے ہدف کو قابل شناخت بنا دیا گیا ہے۔
جو تصویر تب تھی' کم و بیش آج بھی ہے۔ اس دور میں جنم لینے والے زیادہ تر عذاب بدستور ہیں۔ اگر یہ اس دور کی ''طنزیہ تاریخ ہے (جس میں کچھ مزاح بھی ملے گا) تو آج کی تصویر بھی ہے۔ اکثر شعبوں میں بگاڑ جوں کا توں ہے اور کچھ میں تو شاید اور بھی بڑھ گیا ہے۔ منتخب حکومت سے وطن فروشی کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن منتخب حکومت سے قوم کے بھلے کی امید تبھی ہو سکتی ہے جب وہ اقربا پروری اور شاہانہ انداز حکمرانی کو بھی خیر باد کہہ دے۔ ایسا ہوتا زیادہ نظر نہیں آ رہا لیکن حوصلہ دلانے والی بات یہ ہے کہ امید جو مشرف دور میں' یوں سمجھئے کہ مر گئی تھی' پھر سے جی اٹھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاریخ کا یہ ''ریکارڈ'' قارئین کی امانت ہے' انھی کی نذر ہے گر قبول افتد...
جلوہ ہائے جمال
زیر نظر نذرانہ عقیدت جناب تفاخر محمود گوندل کی طرف سے ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خوش قسمت کو یاد فرمایا اور ان کی ہمت کی داد دیجیے کہ انھوں نے اپنے جذبات کو نظم و نثر کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ بڑے بڑوں نے عجز کا اظہار کیا ہے۔
گوندل صاحب محترم کی طرح مجھے بھی حاضری کا ایک سے زیادہ بار موقع ملا ہر بار سعودی محافظوں کی جھاڑ کھائی لیکن اپنی وارفتگی پر ڈٹا رہا شاید اس لیے کہ مجھے اس لمحے کچھ زیادہ ہوش نہ تھا اور سعودی محافظ مجبور تھے کہ وارفتگان شوق کو حد ادب کے اندر رکھیں ورنہ اس مقام پر نہ جانے کیا کچھ ہو جائے۔ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ میرے پاس جو بھی آتا ہے میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ آنحضرتؐ کو اپنی امت بہت عزیز تھی حضورؐ ضرور خوش ہوتے ہوں گے کہ ان کا کوئی امتی ان کے قدموں میں حاضر ہے۔ اس دربار پر حاضری کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ ایک دیہاتی شاعر جو تُک بند کہلاتا ہے استاد امام دین گجراتی اس نے نعت میں ایک ایسا شعر لکھ دیا کہ محبت و الفت کا حق ادا کر دیا۔
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
جب ہم لوگ حاضری دیتے ہیں تو جنت سے بھی ہو کر آتے ہیں کیونکہ خود مزار کے احاطے میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو ریاض الجنت سے موسوم ہے یعنی جنت کا باغ۔ ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے تو مدینہ کی ہوائیں بھی جنت کی ہوائیں ہیں۔ وہاں جو کچھ بھی ہے اسے صرف اور صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
گوندل صاحب نے کمال عجز کے ساتھ اس دیار کے سفر کی داستان بیان کی ہے۔ حضور پاکؐ ان کا نذرانہ قبول فرمائیں۔ نظم و نثر میں انھوں نے اپنے جذبات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ماوراء پبلشرز نے چھاپی ہے قیمت پانچ سو روپے اور طباعت شاندار۔ صفحات302۔