عمران… ایک کھرا سیاستدان

عمران کی جیبیں بھی ان سکّوں سے بھری ہوئی ہیں جو کھوٹے ہی نہیں منسوخ بھی ہو چکے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

پوری قوم نے ایک ٹھنڈا سانس لیا۔ وجہ اس اطمینان کی یہ تھی کہ پاکستان کی دو سیاسی پارٹیوں میں ایک لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ کیوں ہوئی تھی یہ سب کو معلوم ہے۔ اب اس لڑائی کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر دونوں پارٹیاں علی الاعلان آمادہ ہو گئی ہیں۔ اس پر قوم اس لیے خوش ہے کہ اسے اپنے کاروبار اور روٹی روزگار کے لیے کچھ مہلت ملے گی، بلاخوف دکانیں کھلیں گی، ٹرانسپورٹ چلے گی اور زندگی رواں دواں ہو گی۔

ان دونوں پارٹیوں میں جنگ و جدل تو ظاہر ہے کہ اقتدار کی ہی تھی۔ سیاست ہوتی ہی اقتدار کے لیے ہے لیکن جو پارٹی اقتدار میں موجود تھی اور جس کے پاس اقتدار کے تحفظ کے لیے پولیس وغیرہ حاضر تھی اس نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دے اور اسے یہی کرنا بھی چاہیے تھا لیکن اس نے یہ نہ دیکھا کہ جو عوام اس کے خلاف نعرہ زن ہیں اور دوسری پارٹی کے شام کے جلسوں میں ہر روز حاضر ہوتے ہیں یہ سب کیوں ہے، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ برسراقتدار لوگوں نے بری حکومت قائم کرنے کا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ عوام اس سے بے زار ہو گئے تھے اور کسی نجات دہندہ کی تلاش میں تھے۔

یہ نجات ایک قطعاً غیر سیاسی اور کھیل کود کا شوقین نوجوان تھا جسے سیاست کا شوق چڑایا اور وہ سیاست میں جب کھل کر سامنے آیا تو آتا ہی چلا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے اپنے نئے پسندیدہ کھیل کا ایک بنا بنایا میدان مل گیا۔ یہ میدان اس کے حریف سیاست دانوں نے تیار کیا تھا۔ حکومت سے نالاں اور بے زار عوام دوڑ کر اس نئے سیاست دان کے ساتھ مل گئے اور ایک انوکھے انداز میں جو اس ملک میں پہلی بار دیکھا گیا۔ مرد و خواتین کی تعداد قریب قریب برابر رہی یا خواتین کی تعداد زیادہ نمایاں رہی یا ٹی وی والوں نے اسے زیادہ نمایاں کیا کیونکہ ان کے کیمروں کو یہی اچھا لگا تھا اور وہ ان خوبصورت چہروں اور ان پر بنے سیاسی نقش و نگار پر جمے رہے۔ پاکستان کی ایسے موقع پر شرما جانے والی قوم نے زندگی میں پہلی بار ایسے نظارے کیے جو اس کے تصور میں ہرگز نہیں تھے۔ پوری قوم دنگ رہ گئی۔ ٹی وی والوں نے یہ رنگ و نور پھیلانے اور بکھیرنے میں کوئی کسر نہ رہنے دی۔

اسی طرح سیاسی نو خیز عمران خان یکایک سیاسی عروج پر پہنچ گئے۔ انھوں نے سیاست تو برسوں سے شروع کر رکھی تھی لیکن اس کا غلغلہ اب شروع ہوا۔ اس سیاسی کامیابی میں جہاں ان کی اپوزیشن یعنی حکومت کا ہاتھ تھا اور حکومتی خرابیوں کا لامتناہی سلسلہ تھا وہاں ان کی شخصیت پر ابھی تک بدعنوانی اور کرپشن کا پاکستانی روایتی داغ نہیں لگا تھا اور یہ بہت ہی بڑی بات تھی ورنہ ہماری سیاسی دنیا میں ہر طرف داغ ہی داغ ہیں۔ ان میں اگر کوئی بے داغ ہے تو یہ ایک انوکھی اور نادیدہ بات ہے۔ عمران خان کی پرجوش اور ہنگامہ خیز سیاست میں بلاشبہ بہت سی خرابیاں بھی ہیں اور بے اعتدالیاں بھی لیکن ان کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ جس نوع اور طرز کی سیاست کے ہم عادی ہیں وہ ان کے لیے اجنبی تھی۔


دوسرے انھوں نے اپنی مقبولیت کی وجہ سے جو ٹیمپو اختیار کر لیا اس میں اعتدال آسان نہیں۔ پھر ان کے آس پاس جو سیاست دان دکھائی دیتے ہیں وہ کسی قسم کے نظریات سے بالکل بے گانہ ہیں۔ صرف ایک نظریہ ان کو ورثے میں یا استادوں سے ملا ہے کہ اقتدار حاصل کرو مانگ کر یا لوٹ کر۔ عمران خان تن تنہا اتنی بڑی اور مقبول عام جماعت نہیں چلا سکتا اسے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی یا قائداعظم سے منسوب اس بات کے مطابق کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔

عمران کی جیبیں بھی ان سکّوں سے بھری ہوئی ہیں جو کھوٹے ہی نہیں منسوخ بھی ہو چکے ہیں۔ ملک میں اگر جینوئن سیاست ہوتی تو ان لوگوں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ کہاں ایک نظریاتی ملک جس کے نظریات کی طاقت نے برسہابرس دنیا پر بالاتری قائم رکھی اور کہاں یہ سیاست کے نودولتیے۔ بہرکیف یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور عظیم پاکستان زوال میں کیوں چلا گیا۔ عمران خان کی ہمت کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بھی پاکستان کی مشکل سیاست میں بلندیوں پر ہے اور آگے بڑھتا جا رہا ہے۔

عمران کی سیاست کے ذکر میں ان کے ساتھی مولانا طاہر القادری کا ذکر بھی آ جاتا ہے جو شروع میں قدم بہ قدم ساتھ چل رہے تھے لیکن راستے میں کوئی ایسا موڑ آ گیا کہ و ہ ادھر مڑ کر امریکا چلے گئے کیونکہ وہ ہمارے ایک پرانے سیاست دان مولانا بھاشانی کی طرح عین وقت پر لڑائی میں بیمار ہو گئے تھے اور اس بیماری کا علاج امریکا میں تھا۔ اس لیے وہ امریکا چلے گئے۔ مولانا اب کروڑ پتی یا ارب پتی شخص ہیں اور ان کے مرید ان کی دولت میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں یہ ان کا اپنا ایمان ہے اور ایک بہت بڑا کارخیر۔ قادری صاحب کے اچانک چلے جانے یا اس جدوجہد سے الگ ہو جانے کا عمران کو بہت نقصان ہو سکتا تھا لیکن تعجب ہے کہ عمران کی سیاست بدستور جاری ہے۔

اس میں کوئی رکاوٹ یا کمزوری دکھائی نہیں دی۔ یہ ایک مشکل صورت حال تھی جس پر عمران نے قابو پا لیا اور اب وہ اکیلا نہیں ہے۔ میں اس وقت عمران کی تحریک کو کراچی میں دیکھ رہا ہوں جہاں اس کا ایک ساتھی عارف علوی کہہ رہا ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ کراچی جیسے دنیا کے ایک بڑے شہر میں جو کچھ ہوا ہے اور عمران کے ساتھی عوام نے جس جوش اور خروش کا مظاہرہ کھل کر کیا ہے وہ ایک مثال ہے۔ کراچی جیسے طویل و عریض اور بھرے پُرے شہر کا کوئی گوشہ شاید ہی ''عمرانیوں'' سے خالی دکھائی دے رہا ہو۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اور عمران کی سیاست کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اب بحث جاری رہے گی کہ گلاس آدھا بھرا یا آدھا خالی تھا۔

پاکستان اپنی پیدائش کے بعد سے اب تک پاکستانی سیاسی قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ قائداعظم جیسے قائد سے محرومی کے بعد اس ملک کو پھر کوئی پاکستانی لیڈر نہ مل سکا۔ جو ملا وہ کھوٹا سکہ ثابت ہوا۔ عمران خان کی مقبولیت دیکھ کر جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ یہی ہے کہ یہ قوم کسی بڑے نہ سہی معقول اور قابل برداشت لیڈر کی تلاش میں تھی۔ تلاش کے اس سفر میں قوم کو مسلسل ناکامی ہوتی رہی۔ لاتعداد نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سفر میں اگر کوئی مختصر سا وقفہ قیام اور سکون کا مل بھی گیا تو تیز ہوا کے جھونکے کی طرح سروں پر سے گزر گیا۔ ہمارے اسی مسلسل سفر میں ایک وقفہ اب دکھائی دینے والا ہے۔ عمران خان پاکستان کا آئیڈیل حکمران ہو نہ ہو اس وقت تک وہ کرپشن اور بددیانتی سے محفوظ ہے اور اس کی ذات پر کسی ایمپائر کی کوئی انگلی نہیں اٹھی۔ میں اس پر عمران کے والد اور اپنے دوست اکرام اللہ خان نیازی مرحوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا کرے عمران قوم کو بھی مبارک ثابت ہو۔
Load Next Story