دشمن کا کاری وار

ہر پہلو سے نیا ملک صرف پاکستان ہے اور یہ منفرد تاریخی کارنامہ جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے سرانجام دیا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

پاکستان محض ایک اور ملک نہیں یہ دنیا کے تمام ممالک میں ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے، کوئی دوسرا ملک انفرادیت کا یہ اعزاز نہیں رکھتا۔ یوں تو اسرائیل کو بھی ایک نظریاتی ملک کہا جاتا ہے مگر وہ دوسروں کی بے پناہ حق تلفی اور خونریزی کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اب تک وہ اسی ڈگر پر چل رہا ہے اور زندہ ہے جب کہ پاکستان ایک خوشدلانہ جمہوریت کا نتیجہ ہے اور مسلمانوں کے سیاسی اور معاشرتی نظریات کی اساس پر قائم ہوا ہے۔

اس طرح مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے نظریات اور مسلمانوں کی تہذیب اور سیاسی و فکری تمدن کی حفاظت اور فروغ اس کا بنیادی مقصد ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی اور دنیا بھر کے دشمنوں اور حاسدوں کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ دنیا حیرت زدہ رہ گئی اور ثقہ دانشوروں اور مؤرخوں نے لکھا کہ عالمی سطح کے لیڈروں نے دنیا بھر میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں لیکن ایک بالکل نیا ملک صرف جناح نے پاکستان کے نام سے بنایا۔ اس سے قبل ایسا متمول اور آزاد ملک اور کوئی نہیں تھا۔ مسلمان ممالک کئی تھے لیکن وہ سب پہلے سے موجود تھے ان کے باشندوں نے اسلام بعد میں قبول کیا۔ اسلام کا مرکز جزیزہ نما عرب بھی پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح دوسرے ممالک بھی پہلے سے اپنا نام رکھتے تھے لیکن ہر پہلو سے نیا ملک صرف پاکستان ہے اور یہ منفرد تاریخی کارنامہ جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے سرانجام دیا۔ اپنے ملک کے لیے زمین دوسروں سے حاصل کی اور نئی سرحدوں کے ساتھ ایک ملک قائم کر دیا۔

پاکستان کے اس مختصر سے تعارف کے بعد اس ملک کا ایک یہ تعارف بھی ہے کہ اس نئے ملک کے لیڈروں نے ان نظریات و مقاصد اور اس کی اساس کو بھلا دیا جو اس ملک کی اصل طاقت اور بنیاد تھے۔ پاکستان کے حکمران پرلے درجے کے خودغرض اور مطلب پرست لوگ رہے اور اپنے مقاصد اور نظریات کو پرے کر دیا۔ بعد میں نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا لیکن اس ملک میں اس کے اس نئے نام کے مطابق اس میں نہ اسلام تھا نہ جمہوریت تھی اور نہ یہ وہ پاکستان تھا جو اس کے قیام کے وقت تھا۔

اس کا آدھا حصہ اس سے کٹ گیا اور اس کی بنیادی وجہ اس کے حکمرانوں کی اس ملک کے نظریات اور مقاصد سے مکمل روگردانی تھی۔ آج یہ ملک دہشت گردی کی یلغار کی زد میں ہے اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں رحم کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے انتہائی نالائق اور نااہل حکمرانوں نے ملک کو دشمنوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں اس سے کرتے رہیں۔ پاکستان کے مسلمہ دشمنوں میں ایک دشمن بھارت بھی ہے۔


جس کے ہندو باشندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پاکستان ان کی بھارت ماتا کو کاٹ کر بنایا گیا ہے اور یہ دراصل ان کا ملک ہے جو ان کی زمین پر قائم ہے جسے ختم کرنا ان کا ایمان ہے جس طرح وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے ہیں اسی طرح وہ دل میں پاکستان کو بھی بھارت کا ایک اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ پاکستانی حکمران اگر اسی طرح بزدلی اور کمزوری دکھاتے رہے اور ان کی قومی پالیسیاں حالات کے تابع رہیں تو کسی دن پاکستان بھی ان کا علانیہ اٹوٹ انگ بن جائے گا۔

پشاور میں بچوں کے ساتھ جو حادثہ ہوا اس پر دنیا کا ہر انسان لرز اٹھا۔ کیا ہمیں اپنے دشمن سے ایسی کوئی توقع نہیں تھی کہ ہم نے اپنے اسکولوں کی سیکیورٹی پر توجہ نہ دی اور ٹکے ٹکے کے سیاست دانوں کی حفاظت پر پولیس لگا دی۔ پشاور کے اس حادثے کے بعد جب قومی رہنما ایک اجلاس میں شرکت کے لیے پشاور پہنچے تو ان کی طویل و عریض گاڑیاں بڑے فخر کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور ان میں سوار اشرافیہ کے ارکان اس وقت تک گاڑیوں میں بیٹھے رہے جب تک کہ باوردی ملازمین نے ان کی گاڑی کا دروازہ نہ کھولا۔ ان کا یہ انداز دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ میرے بچوں کو صرف خدا کی ذات ہی کسی غیبی ذریعے سے بچا سکتی ہے ورنہ ہم ایسی کوئی زحمت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

اس سانحہ کے بعد سیکیورٹی کی ایک نئی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ اسکول فوراً بند کر دیے گئے ہیں۔ ایسے معاملات میں رازداری کا بنیادی اصول ترک کر کے سیکیورٹی کا ہر پہلو عوام کے سامنے ظاہر کیا جا رہا ہے تا کہ دہشت گرد بھی باخبر رہیں۔ کچھ دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی ہے اور کچھ کو دی جانے والی ہے اور ہم پھانسی کے تمام انتظامات وغیرہ کا اعلان کرتے چلے جا رہے ہیں ساتھ ہی خطرہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ دہشت گرد ان پھانسیوں سے مشتعل ہو کر مزید کوئی کارروائی نہ کر دیں۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ پھانسی دینے کے بعد بتا دیا جاتا کہ کتنے دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ معلوم نہیں کون دانش مند اور ماہر حکومت کو ایسے احمقانہ مشورے دے رہا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کسی پرانے ریٹائرڈ پولیس والے کو یہ کام سونپا جاتا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد یہ بڑا سانحہ ہے۔ سقوط ڈھاکا کی طرح ہی ماتم ہمارے گھر کے اندر ہوا ہے اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں ہی اس سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ یہ ساری آزمائش ہے۔ دیکھیں ہم کیا کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں کچھ لکھنے کی ہمت پیدا نہیں ہو سکی۔ ہمارے انور مسعود کے ایک قطعے کا شعر دیکھئے:

بستوں کے ساتھ ساتھ ہیں بچوں کی میتیں
مکتب سے آئے ہیں کہ یہ مقتل سے آئے ہیں
Load Next Story