پھانسی

ہمیں ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی سزا ملتی ہی رہتی ہے اور یہ ایک مسلسل سزا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمیں ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی سزا ملتی ہی رہتی ہے اور یہ ایک مسلسل سزا ہے جو ہم پر کسی نہ کسی طرح مسلط حکمران اپنی لاپروائی بلکہ ملک سے لاپروائی کی صورت میں ہماری قسمت میں لکھتے رہتے ہیں۔ معاملات تو لاتعداد ہیں مگر فی الحال ان دنوں زیربحث مسئلے پھانسی کو لیتے ہیں یہ کسی انسان کو اس وقت ملتی ہے جب وہ کسی دوسرے انسان کو قتل کر دیتا ہے۔ قاتل کے لیے اور کوئی سزا ہو ہی نہیں سکتی اور اسے اس کے وارثوں کے سوا کسی اور کو معاف کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔

ہماری شریعت میں واضح ہے کہ قتل کی سزا موت کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارے لاپروا حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی کہ کافی عرصہ سے ملک میں قتل تو ہو رہے ہیں مگر کسی قاتل کو سزا نہیں مل رہی، اسے بند کر دیا گیا ہے۔ جب سے چند مغربی اقوام نے پھانسی کی مخالفت شروع کی ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی مشورہ دیا ہے تو ہم نے اس مشورے کو حکم حاکم مان کر اس پر عمل شروع کر دیا ہے۔ طویل عرصہ تک غلام رہنے کی وجہ سے ہمیں غلامی کا چسکہ پڑ گیا ہے۔ دنیا کی طاقت ور قوموں کی طرف سے کوئی اشارہ بھی ملتا ہے تو ہم اس پر عمل فرض سمجھ لیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان قوموں کے معاشرے اور ہمارے معاشرے میں کتنا فرق ہے۔

وہ مستحکم معاشرت کی لذت سے سرشار قومیں ہیں جب کہ ہم ابھی بالکل ابتدائی دور سے گزر رہے ہیں اور ایک کچے معاشرے کے فرد ہیں جسے ابھی اپنی بنیادیں قائم اور مستحکم کرنی ہیں۔ ویسے اسلام میں ایک معاشرے کے اصول طے ہیں مگر ہم ان سے بدکتے ہیں اور مغربی دنیا کی پیروی کے شوقین ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران اسی مغربی معاشرے کو ہر بات میں آئیڈیل سمجھتے ہیں اور اپنی جمع پونجی تک بھی ان کے بینکوں کے حوالے کرتے رہتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بھی پھانسی کا سلسلہ جاری تھا لیکن مغربی ملکوں میں ایک رو چلی کہ انسان کو پھانسی دینا اور کسی بھی دوسرے طریقے سے اسے موت کے گھاٹ اتار دینا ایک غیرانسانی عمل ہے لیکن ہم نے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس معاشرے میں کسی مسئلے پر صرف تلخ کلامی میں بھی قتل کر دیا جاتا ہو وہاں سزائے موت کے خاتمے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ بات بات پر قتل ہوتے رہیں گے کیونکہ کسی کو سزا کا خوف نہیں ہو گا۔ اب جب کچھ لوگوں نے دہشت گردی اختیار کر لی ہے اور قتل شروع ہو گئے ہیں تو سانحہ پشاور پر ہمارے حکمرانوں کو اس قدر شرمساری ہوئی ہے کہ سزائے موت کو بحال کر دیا گیا ہے۔ اس میں اپنی اس کوتاہی کو چھپانا بھی تھا جو سزائے موت کے خاتمے کے بعد قاتلوں نے عام کر دی ہے۔ اب ہر جیل میں پھانسی قانون کو بحال کیا جا رہا ہے اور پھانسی کے زنگ آلود آلات کو صیقل کیا جا رہا ہے۔

اخباروں میں قتل کی خبریں بھی خاصی بڑھ گئی ہیں اور بعض لوگوں میں قاتلانہ ذہن بھی پرورش پا رہے ہیں۔ یہ اس لیے کہ قتل کی کوئی سزا باقی نہیں رہی۔ تعجب ہے کہ معمولی سے معمولی جرم کی سزا بھی موجود ہے مگر سب سے بڑے جرم کی کوئی سزا نہیں۔ بہرکیف حکمرانی کے نشے میں دھت حکمرانوں کو بھی ہوش آ گیا ہے۔ اب وہ چاہیں تو پھانسی دینے پر بھی اپنے کسی بھی پسندیدہ شخص کو مامور کر سکتے ہیں کہ یہ بڑا کام بھی اپنے پاس ہی رہے تو اچھا ہے۔


انسان ہمیشہ موت سے گھبراتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی موت کب ہو گی۔ ہمارے شاعر نے بھی کہا ہے کہ

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

لیکن سزائے موت کی صورت میں جب موت کا دن مقرر اور معین ہو جاتا ہے تو جان پہلے ہی نکل جاتی ہے۔ خبر چھپی کہ بعض قیدی جب پھانسی گھاٹ کی طرف لے جائے گئے تو چلتے چلتے راستے میں وہ گر گئے۔ ان کی ٹانگیں جواب دے گئیں گویا جان نکل گئی اور ایسا تو اکثر ہوتا ہے کہ پھانسی پر نیم مردوں کو ہی چڑھایا جاتا ہے۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے جرم کا احساس ہوتا ہے اور وہ خود کو بھی مجرم سمجھ کر اس کی سزا میں پھانسی چڑھ جاتے ہیں لیکن جن لوگوں کو ان کا کوئی اخلاقی جرم نہیں تھا وہ کسی سیاسی اور ایسے ہی کسی نظریاتی جرم میں اگر موت کی سزا پا رہے ہوتے ہیں تو یہ موت کا پھندا چومنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں کئی ''باغی'' علماء کو موت کی سزا دی گئی۔ وہ اپنے شہادت کے اعزاز کو چومتے ہوئے پھانسی چڑھ گئے۔

ہمارے دور میں بھی ایک عالم دین اور سیاست دان سید ابو الاعلیٰ مودودی کو موت کی سزا سنائی گئی اور جب انھیں سزائے موت کے قیدیوں کی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ کل آپ کو سزا دی جائے گی تو انھوں نے سنی ان سنی کر دی۔ ان کے ساتھی جب صبر کی حدیں پار کر گئے اور رونے دھونے لگے تو انھوں نے ان سے کہا کہ سنو اگر خدا نے میری موت لکھ دی ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اگر نہیں لکھی تو کوئی بڑے سے بڑا طاقتور بھی مجھے موت کی سزا دے نہیں سکتا۔ جیل کا عملہ بتاتا ہے کہ پھانسی کی تاریخ سے رات پہلے بھی وہ خوب سوئے اور ان کے خراٹے سنے گئے۔ امام امین احسن اصلاحی جیسا شخص بھی جو ان کے ساتھ قید میں تھا اپنے لیڈر کے کپڑے جو انھوں نے پھانسی والے کپڑے پہننے سے پہلے اتارے تھے آنکھوں کو لگا لگا کر بلک بلک کر روتا رہا لیکن قدرت نے ابھی زندگی لکھی تھی کہ ان کی سزا معاف کر دی گئی۔ یہ وہ نظریاتی پختہ لوگ تھے جن کی ٹانگیں نہیں کانپتی تھیں، زمین کانپتی تھی کیونکہ وہ اپنی زندگی اور موت اللہ کے سپرد کر چکے تھے۔

بہرکیف اخلاقی مجرموں کے لیے پھانسی کی سزا لازم اور شریعت کی پیروی ہے۔ یہ جرائم کے سدباب اور دہشت گردی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور ہمیں اسے لازم قرار دینا چاہیے۔
Load Next Story