ایک اور سال بھی گزر گیا

مسلمانوں کو بچانے کے لیے ایشیا کے اس خطے میں ایک آزاد مسلمان ملک کی ضرورت ہی نہیں یہ مسلمانوں کی بقا کا مسئلہ بھی ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو عیسوی سال 2014ء کا آخری دن گزر رہا ہے۔ بے پناہ تلخ یادیں چھوڑ کر۔ آگ میں جلتی ہوئی یادیں میرے بچوں کی گولیوں سے تڑپتی ہوئی لاشیں قومی خوشیوں کو برباد کرتی ہوئی یادیں۔ ہماری کوتاہیوں نالائقیوں اور گناہوں کی کڑی سزاؤں میں گزرتی ہوئی قومی زندگی۔

دہشت گردی کا عذاب عروج پر اور دشمن کی خوشیاں اس سے زیادہ عروج پر۔ بھارت میں مسلمانوں کو جبراً ہندو مذہب اختیار کرنے کی جراتیں بڑھتی ہوئی بھارت کے متعصب ہندوؤں میں ایسی کھلی جرات پہلی بار سامنے آئی۔ گزشتہ دنوں ہم نے قائداعظم کی یاد منائی تو اس سلسلے میں ایک اخبار نے قائد کے مصر کے دورے کا ذکر کیا۔ قائد لندن سے اپنے خوابوں کے پاکستان آتے ہوئے جان بوجھ کر قاہرہ میں رکے جہاں وہ عربوں کو نظریہ پاکستان اور اس خطے میں ایک مسلمان ملک کے قیام کی ناگزیر ضرورت پر اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ قائد نے عربوں پر واضح کیا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک قائم نہ ہوا اور وہاں کے مسلمان ہندو اکثریت کے رحم و کرم کے محتاج ہو گئے تو وہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں مصروف ہو جائیں گے۔

مسلمانوں کو بچانے کے لیے ایشیا کے اس خطے میں ایک آزاد مسلمان ملک کی ضرورت ہی نہیں یہ مسلمانوں کی بقا کا مسئلہ بھی ہے۔ آج ہم قائد کی بصیرت کو زندہ دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ سال ہمارے لیے جن پہلوؤں سے اہم تھا اس میں بھارت میں آباد مسلمانوں کی بقا کے خطرے کا مسئلہ شاید سب سے اہم ہو کر ہمارے سامنے آیا۔ پاکستان کا قیام اور پھر اس کی بقا اس ملک کے دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان کے ایک ہنر مند اور درد مند شہری نے ایٹم بم بنا کر بھارت کے ہاتھ قلم کر دیے لیکن بھارتی ہندوؤں کی نیت جوں کی توں رہی اور یہ جو دہشت گردی کا عفریت آج پاکستان کے لیے حقیقی خطرہ بنا ہوا ہے یہ سب بھارت کا پیدا کردہ ہے۔

پاکستانی بھارت پسند اور بھارت پرست اس الزام سے بہت برہم ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے دوست ملک بھارت سے کیوں مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ بدمعاشی چھوڑ کر خود بھی زندہ رہے اور ہمیں بھی زندہ رہنے دے۔ پاکستان میں اگر کوئی سخت حکومت آ گئی جسے ملک کو لاحق خطروں کے مقابلے کا شدید احساس ہوا تو پھر بھارت جان لے کہ آبادی اور رقبوں کی کثرت اور وسعت مسلمان جواں مردوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوتی مسلمانوں کی تاریخ میں دشمنوں کی کثرت لیکن اس کی تباہی ایک تاریخی حقیقت رہی ہے یہاں صرف ایک مثال دے کر آگے چلتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے دوران ایک دن ایسا بھی آیا کہ مسیحی یورپ کے علماء اور حکمران مذہبی جوش و خروش سے بے تاب ہو کر سلطان صلاح الدین کے لشکر کے سامنے جمع ہو گئے۔

ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مسلمان لشکر ان سے کم تھا۔ سلطان کے ساتھی جرنیلوں نے مشورہ دیا کہ بظاہر ہمارا ان سے مقابلہ نہیں بنتا تعداد میں وہ بہت زیادہ ہیں اس لیے مناسب ہو گا اگر ہم کسی بہانے کنی کترا جائیں۔ یہ سن کر سلطان نے اپنے خیمے کا پردہ اٹھا کر دشمن کا نظارہ کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو دشمن پوری طاقت لے کر ہمارے سامنے ہے اسلحہ اور تعداد بہت زیادہ ہے۔


ہمارے دشمن کے پاس جو کچھ ہے وہ سب ہمارے نشانے پر لے کر آ گیا ہے یاد رکھنا دشمن اتنی تعداد میں ہمارے سامنے پھر کبھی نہیں آئے گا اور ہمیں ایسا موقع پھر نہیں ملے گا کیوں نہ ہم اسے ختم ہی کر دیں اور ہمت کر کے اس کو ہمیشہ کے لیے ٹھکانے لگا دیں کہ پھر ایسا شاندار موقع شاید کبھی نہ آئے چنانچہ کم تعداد میں مسلمان فوجوں نے مسیحی دنیا کے اس عظیم لشکر کو تباہ کر دیا۔ حیران مورخ لکھتے ہیں کہ برسوں تک عکّہ کے میدان میں انسانی ہڈیاں ملتی رہیں۔ مسلمانوں کے ایمانی جذبوں اور خدا پر بھروسے کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بھارت ہرگز ہم پر غالب نہیں آ سکتا بشرطیکہ ہم خود ہی اس سے ہار نہ جائیں۔ یہ دہشت گردی ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ بھارت کی خوشامد سب سے بڑی وجہ۔

گزشتہ سال اس دہشت گردی میں ہمارے ڈیڑھ سو سے زیادہ بچے ہم سے جدا کر دیے گئے یہ زخم ہمارے دل پر لگا۔ وزیراعظم نے یہی کہا کہ یہ تو دل کا زخم ہے ہم اپنے ان بچوں کو بھلا نہیں سکتے۔ گزشتہ سال میں کئی المناک واقعات رونما ہوئے سال کے آخری دنوں میں کراچی اور لاہور میں دو مقامات پر آتشزدگی کے واقعات ہو گئے اسی طرح سال بھر میں کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہوتا ہی رہا اور ہماری حکومت دہشت گردی کا شور مچاتی رہی لیکن دشمن سے زبانی کلامی احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ بھارت میں اس وقت ایک متعصب اور مسلمان دشمن سیاستدان کی حکومت ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ صرف ایک صوبے میں تھے اب وہ پورے ملک کے حکمران ہیں اور کوئی خطرناک مسلمان دشمن منصوبہ لے کر آئے ہیں جو انھوں نے اپنے اقتدار میں مکمل کرنا ہے۔

اس سال میں ہم نے اپنی سیاسی زندگی میں ایک انوکھا احتجاج کیا۔ تین چار ماہ تک ہمارے دو سیاستدانوں نے اسلام آباد میں دھرنے دیے۔ دن رات کے ان دھرنوں نے سیاست کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ایک دھرنے کے لیڈر ملک سے ہی بھاگ گئے اور ان کے دھرنارچی ہکا بکا رہ گئے دوسرا لیڈر ملک کے اندر رہ کر دھرنے سے باہر آ کر سیاست کرنے لگا جس میں دھرنے کی صرف یادیں تھیں۔ ان دونوں دھرنوں نے پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا لیکن عوام کی طویل اور بے مثال حمایت کے باوجود یہ دونوں لیڈر کچھ نہ کر سکے۔ اب صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قوم کو بیدار کر دیا ہے۔ یہ بے مقصد بیداری پریشان حال عوام کو مزید پریشان کر گئی۔ ایک لیڈر یورپ اور امریکا میں ہے دوسرا اپنے پاکستان میں کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل ہی آتی ہے۔

اس گزشتہ سال میں حکومت نے عوام کا ساتھ نہیں دیا۔ مہنگائی طاقت سے بڑھ گئی اور امن و امان کو مفقود ہی کہیں تو بہتر ہے اب جاتے جاتے مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ میں معاشیات کو نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مسلسل قرض پر ملک نہیں چل سکتے اور قرض بھی ان لوگوں کا جو دنیا کی سپر پاور کی نگرانی اور تحفظ میں ہیں اور جب چاہیں ہماری گردن پر پاؤں رکھ کر اپنا قرض وصول کر سکتے ہیں خواہ ہمیں ملک ہی کیوں نہ بیچ دینا پڑے۔ یہ ایک بنیادی خطرناک صورت حال ہے جو دہشت گردی کی ایک اور صورت ہے۔

بہر حال ایک سال گزر گیا زندہ رہے تو دوسرا بھی گزر جائے گا جیسا بھی گزرے اور جس طرح بھی گزرے اس کا احسان ہمارے حکمرانوں کو ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے ہم پر مسلط ہیں۔ محلوں میں رہنے والے جھونپڑیوں کے باسیوں کو تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ میں اپنی مسلمان تاریخ کی روشنیوں کو بھول نہیں سکتا، حضرت صدیقؓ کو جب خلافت دے دی گئی تو انھوں نے اپنا کپڑے کا کاروبار ختم کر دیا اس پر سوال پیدا ہوا کہ ان کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ خلیفہ نے کہا کہ مدینہ شہر کے مزدور کی جتنی تنخواہ اور مزدوری بنتی ہے اتنی تنخواہ مقرر کر دی جائے۔

کہا گیا کہ یہ تو کم ہوتی ہے اس میں آپ کا گزارہ نہیں ہو گا۔ اس پر اس حکمران نے ایک تاریخی فقرہ کہا کہ اچھا پھر مزدور کی مزدوری بڑھا دیتے ہیں میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی۔ یہ وہ حکمران تھے جن کی حکومت گزشتہ صدی تک دنیا کی سپر پاور رہی۔ ہمیں بھی ایسے نہ سہی ان کے پیروکار حکمرانوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دشمن بہت ہیں۔ خدا کرے نیا سال قابل برداشت حالات لے کر آئے۔
Load Next Story