ابو الکلام اور تنقیدی مراسلہ
کسی موقف کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنا اس شخص یا شخصیت کی بے ادبی ہے نہ احترام کی ہر حد سے گزر جانا۔
Abdulqhasan@hotmail.com
لاہور:
میرے ایک باہمت اور علم شناس دوست نے اپنے نامور ادارے ،آتش فشاں، کے زیر اہتمام برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بڑی شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد پر ایک کتاب شائع کی اور مجھے تبصرے کے لیے ارسال کی۔ میں نے اپنی دانست کے مطابق تبصرہ کر دیا اس پر انھوں نے پیارے انداز میں ایک تنقیدی مراسلہ ارسال کیا۔ ان دنوں میری طبیعت کچھ پراگندہ رہی اور یہ مراسلہ کہیں ادھر ادھر ہو گیا۔ اب چند روز پہلے دستیاب ہوا تو تکلیف دہ ملکی حالات پر لکھنا پڑا۔ اب زیادہ تاخیر اور برادرم منیر احمد منیر کے ڈر سے حالات سے قطع نظر یہ مراسلہ پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے قائم کیجیے۔
محترم عبدالقادر حسن صاحب
السلام علیکم
روزنامہ ایکسپریس لاہور 22 نومبر2014ء۔ آپ کا کالم: غیر سیاسی باتیں۔ عنوان: ،،فیض صاحب، دو ٹوک باتیں اور مولانا آزاد،،۔ آخری پیرے میں آپ نے میری کتاب ،،مولانا ابو الکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، کا نام لیے بغیر جو پندرہ سطریں لکھی ہیں ان میں یہ بھی بیان کیا ہے،،... کتاب مولانا ابوالکلام آزاد کی بعض غلط فہمیوں یا ان کے نقادوں کے بقول ان کی غلط بیانیوں پر مشتمل ہے۔ دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،،۔
اس کے بعد آپ لکھتے ہیں: ،،لیکن میں حضرت مولانا کی بے مثال علمی عظمتوں کو سامنے رکھ کر اور ان کی بلاشبہ نادر روز گار شخصیت کے احترام میں اس کتاب پر تبصرہ نہیں کر سکتا،،۔ حالانکہ آپ نے ان دس الفاظ ،،دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،، میں تبصرہ کر دیا ہے اور یہ چند لفظی رائے، تجزیہ اور سراہنا خاصی شہہ زور ہے۔
دو ٹوک، سچی اور کھری بات کہنا آپ کی قبیل کے ان صحافیوں کی شناخت رہی ہے، عملی صحافت کے لیے میں نے جن کے آگے زانوائے تلمذ تہہ کیا۔ پھر آپ کی یہ مختصر سی 15 سطری تحریر اس قدر ڈھلمل، گول مول اور دم بخود کیوں؟ مثلاً: آپ لکھتے ہیں: ،،امام الہند مولانا آزاد کے بارے میں احترام کی ہر حد سے گزر جانا مناسب نہیں ہے،،۔
کسی موقف کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنا اس شخص یا شخصیت کی بے ادبی ہے نہ احترام کی ہر حد سے گزر جانا۔ اس کے بعد آپ رقم طراز ہیں: ،،اور یہ خاکسار مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکاتا ہے،،۔
عبدالقادر حسن صاحب! آپ بے شک مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکائیں لیکن یہ بتائیں کہ مولانا کے اس علمی مقام نے مسلمان قوم کو کیا دیا؟
مولانا اپنے علمی مقام کے تحت اس حقیقت سے کیسے بے خبر رہ گئے کہ جونہی اس سرزمین میں مسلمانوں نے قدم رکھے یہاں کی بااثر ہندو قیادت بہ شمول برہمن، راجے، مہاراجے، جاگیردار وغیرہ یہ طے کر بیٹھے کہ مسلمانوں کو اسی راستے یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا جس راستے سے وہ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے سازشیں جاری رہیں۔ پیش نہ چلی۔ انگریز کی آمد ان کے لیے زبردست ساز گار رہی۔ ہندو کانگریس کا مطمع نظر متحدہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنا اور یہاں ہندو راج قائم کرنا رہا۔ یہی نہیں مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا اور جاوا سماٹرا وغیرہ تک اس کا ہدف تھے۔ یہ گاندھی اور نہرو کی آشاہی نہ تھی، ساری برہمن قیادت اس پر ایک تھی۔ یہ حقیقت گاندھی اور نہرو نے ہی بیان نہیں کی، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم چواین لائی، نہرو کی ناک کے بال شیخ عبداللہ، خان عبدالغفار خاں اور خود مولانا آزاد بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
تاریخ میں آپ کو ،،بے مثال علمی عظمتوں،، پر فائز ایسی ،،نادر روز گار،، شخصیات ملیں گی کہ جب وقت قیام آیا تو وہ سجدے میں گر گئیں۔ اس کی کچھ تفصیل میری کتاب مذکور میں موجود ہے جو پتہ نہیں آپ نے پڑھی بھی ہے کہ نہیں۔ ویسے میں آپ کو اپنے ادارے کی طرف سے شائع ایک کتاب ،،ہندو راج کے منصوبے،، بھیج رہا ہوں۔ یہ کتاب پہلی بار 1931ء میں چھپی۔ 83 برس گزر جانے کے باوجود پوری مسلم دنیا کو ہندو راج تلے لانے کی سوچ، ارادے اور پروگرام جوں کا توں۔ وہی افغانستان اور وہی ریشہ دوانیاں۔ مسلم دنیا کو ہندو راج تلے کچلنا، شدھی اور سنگھٹن پر پوری قوت سے عمل پیرا ہونا۔ یقیناً مولانا آزاد کی سی نادر روز گار اور علمی شخصیت اس سے بے خبر نہیں تھی۔
شدھی کے تحت جب راجپوتانہ کے تیس ہزار مسلمان ملکانہ راجپوتوں کو ہندو بننے پر مجبور کر دیا گیا تو پورے متحدہ ہندوستان میں غوغا مچ گیا۔ برہمن ایک بار پھر اپنے اصل روپ میں سامنے آ گیا۔ جب برصغیر ہی نہیں پوری مسلم اور تیسری دنیا کو ہندو راج تلے کچلنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اور قائداعظمؒ کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ انھیں اس دائمی عذاب سے محفوظ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھی، آپ کے نادر روز گار اور امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد اسی ہندو کانگریس کے صدر تھے۔
مولانا آزاد کے علمی مقام کے سامنے سر جھکانے کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ یہ خاکسار: ،،ان کے بارے میں اس متنازعہ کتاب کو ادب کے ساتھ محفوظ کر لیتا ہے،،۔
استاد محترم! پانچویں سطر میں آپ نے لکھا ہے: ،،دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،،۔ گیارھویں سطر میں اسے متنازعہ قرار دے ڈالتے ہیں۔ دستاویزی ثبوت والی کتاب متنازعہ کیسے ٹھہری؟
،،مولانا ابو الکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، مولانا آزاد کی ان پیش گوئیوں کا جواب ہے، جب سے ہوش سنبھالا مجھے اپنے ہم مسلک بزرگوں اور دوستوں کی طرف سے سننے اور پڑھنے کو ملتی رہیں۔
آغا شورش کاشمیری نے 1951ء میں اپنے ہفتہ وار ،،چٹان،، میں ،،بوئے گل، نالہ دل، دود چراغ محفل،، کے عنوان تلے اپنی سیاسی یادداشتیں لکھیں۔ 1972ء میں اسی نام سے انھیں کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ان میں انھوں نے مارچ اپریل 1946ء میں مولانا آزاد کے ساتھ بیسیوں نشستوں میں لیے گئے انٹرویو کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہ وہ اسے مولانا پر اپنی کتاب میں شائع کریں گے۔ یہ کتاب ،،مولانا ابو الکلام آزاد،، ان کی وفات کے کوئی سوا بارہ برس بعد فروری 1988ء میں شائع ہوئی۔ اس دوران میں مولانا کے مداحین اس کتاب کی اشاعت کے سخت منتظر رہے۔ بلکہ شک کیا جانے لگا، شاید مجید نظامی نے مسعود شورش پر رسوخ استعمال کرتے ہوئے کتاب کی اشاعت رکوا دی ہے۔
کتاب شائع ہوئی تو پاکستان کے بارے میں مولانا کی پیش گوئیوں کا چرچا کیا گیا۔ بالآخر عبدالقادر حسن! آپ کے ممدوح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے 28 اکتوبر 2013ء تا 23 دسمبر 2013ء،، پانچ اقساط میں یہ پیش گوئیاں اپنے خلاف حقیقت تبصرے کے ساتھ معاصر اردو اور انگریزی میں شائع کیں۔ اس سے ایک تو آپ کے ممدوح کے اصل چہرے پر سے ،،عظمت،، کا پردہ سرک گیا۔ دوسرے، مولانا کے مداحین اور پاکستان میں رہنے، یہاں کا کھانے اور یہاں عیش کرنے کے باوجود متحدہ ہندوستان اور ہندو راج کے ان زبردست حامیوں نے ان پیش گوئیوں پر مبنی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے مضامین صحیفہ آسمانی سمجھ کر پھیلائے اور عام کیے۔ میں نے مولانا کی ان پیش گوئیوں کا تاریخ اور ریکارڈ سے جواب دیا تو پھر ،،مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، متنازعہ کیسے ٹھہری؟
آپ کے اس جملے پر مجھے حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ پریکٹیکل جرنلزم میں میں آپ کو بھی اپنے اساتذہ میں شمار کیا کرتا ہوں۔ آپ سے براہ راست کم سہی بالواسطہ بہت کچھ سیکھا۔ اور آپ کا محبت بھرا رویہ میرے لیے ہمیشہ طمانیت اور فخر کا موجب رہا۔ کل بھی اور آج بھی۔
فقط
والسلام
منیر احمد منیر
میرے ایک باہمت اور علم شناس دوست نے اپنے نامور ادارے ،آتش فشاں، کے زیر اہتمام برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بڑی شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد پر ایک کتاب شائع کی اور مجھے تبصرے کے لیے ارسال کی۔ میں نے اپنی دانست کے مطابق تبصرہ کر دیا اس پر انھوں نے پیارے انداز میں ایک تنقیدی مراسلہ ارسال کیا۔ ان دنوں میری طبیعت کچھ پراگندہ رہی اور یہ مراسلہ کہیں ادھر ادھر ہو گیا۔ اب چند روز پہلے دستیاب ہوا تو تکلیف دہ ملکی حالات پر لکھنا پڑا۔ اب زیادہ تاخیر اور برادرم منیر احمد منیر کے ڈر سے حالات سے قطع نظر یہ مراسلہ پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے قائم کیجیے۔
محترم عبدالقادر حسن صاحب
السلام علیکم
روزنامہ ایکسپریس لاہور 22 نومبر2014ء۔ آپ کا کالم: غیر سیاسی باتیں۔ عنوان: ،،فیض صاحب، دو ٹوک باتیں اور مولانا آزاد،،۔ آخری پیرے میں آپ نے میری کتاب ،،مولانا ابو الکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، کا نام لیے بغیر جو پندرہ سطریں لکھی ہیں ان میں یہ بھی بیان کیا ہے،،... کتاب مولانا ابوالکلام آزاد کی بعض غلط فہمیوں یا ان کے نقادوں کے بقول ان کی غلط بیانیوں پر مشتمل ہے۔ دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،،۔
اس کے بعد آپ لکھتے ہیں: ،،لیکن میں حضرت مولانا کی بے مثال علمی عظمتوں کو سامنے رکھ کر اور ان کی بلاشبہ نادر روز گار شخصیت کے احترام میں اس کتاب پر تبصرہ نہیں کر سکتا،،۔ حالانکہ آپ نے ان دس الفاظ ،،دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،، میں تبصرہ کر دیا ہے اور یہ چند لفظی رائے، تجزیہ اور سراہنا خاصی شہہ زور ہے۔
دو ٹوک، سچی اور کھری بات کہنا آپ کی قبیل کے ان صحافیوں کی شناخت رہی ہے، عملی صحافت کے لیے میں نے جن کے آگے زانوائے تلمذ تہہ کیا۔ پھر آپ کی یہ مختصر سی 15 سطری تحریر اس قدر ڈھلمل، گول مول اور دم بخود کیوں؟ مثلاً: آپ لکھتے ہیں: ،،امام الہند مولانا آزاد کے بارے میں احترام کی ہر حد سے گزر جانا مناسب نہیں ہے،،۔
کسی موقف کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنا اس شخص یا شخصیت کی بے ادبی ہے نہ احترام کی ہر حد سے گزر جانا۔ اس کے بعد آپ رقم طراز ہیں: ،،اور یہ خاکسار مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکاتا ہے،،۔
عبدالقادر حسن صاحب! آپ بے شک مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکائیں لیکن یہ بتائیں کہ مولانا کے اس علمی مقام نے مسلمان قوم کو کیا دیا؟
مولانا اپنے علمی مقام کے تحت اس حقیقت سے کیسے بے خبر رہ گئے کہ جونہی اس سرزمین میں مسلمانوں نے قدم رکھے یہاں کی بااثر ہندو قیادت بہ شمول برہمن، راجے، مہاراجے، جاگیردار وغیرہ یہ طے کر بیٹھے کہ مسلمانوں کو اسی راستے یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا جس راستے سے وہ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے سازشیں جاری رہیں۔ پیش نہ چلی۔ انگریز کی آمد ان کے لیے زبردست ساز گار رہی۔ ہندو کانگریس کا مطمع نظر متحدہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنا اور یہاں ہندو راج قائم کرنا رہا۔ یہی نہیں مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا اور جاوا سماٹرا وغیرہ تک اس کا ہدف تھے۔ یہ گاندھی اور نہرو کی آشاہی نہ تھی، ساری برہمن قیادت اس پر ایک تھی۔ یہ حقیقت گاندھی اور نہرو نے ہی بیان نہیں کی، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم چواین لائی، نہرو کی ناک کے بال شیخ عبداللہ، خان عبدالغفار خاں اور خود مولانا آزاد بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
تاریخ میں آپ کو ،،بے مثال علمی عظمتوں،، پر فائز ایسی ،،نادر روز گار،، شخصیات ملیں گی کہ جب وقت قیام آیا تو وہ سجدے میں گر گئیں۔ اس کی کچھ تفصیل میری کتاب مذکور میں موجود ہے جو پتہ نہیں آپ نے پڑھی بھی ہے کہ نہیں۔ ویسے میں آپ کو اپنے ادارے کی طرف سے شائع ایک کتاب ،،ہندو راج کے منصوبے،، بھیج رہا ہوں۔ یہ کتاب پہلی بار 1931ء میں چھپی۔ 83 برس گزر جانے کے باوجود پوری مسلم دنیا کو ہندو راج تلے لانے کی سوچ، ارادے اور پروگرام جوں کا توں۔ وہی افغانستان اور وہی ریشہ دوانیاں۔ مسلم دنیا کو ہندو راج تلے کچلنا، شدھی اور سنگھٹن پر پوری قوت سے عمل پیرا ہونا۔ یقیناً مولانا آزاد کی سی نادر روز گار اور علمی شخصیت اس سے بے خبر نہیں تھی۔
شدھی کے تحت جب راجپوتانہ کے تیس ہزار مسلمان ملکانہ راجپوتوں کو ہندو بننے پر مجبور کر دیا گیا تو پورے متحدہ ہندوستان میں غوغا مچ گیا۔ برہمن ایک بار پھر اپنے اصل روپ میں سامنے آ گیا۔ جب برصغیر ہی نہیں پوری مسلم اور تیسری دنیا کو ہندو راج تلے کچلنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اور قائداعظمؒ کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ انھیں اس دائمی عذاب سے محفوظ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھی، آپ کے نادر روز گار اور امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد اسی ہندو کانگریس کے صدر تھے۔
مولانا آزاد کے علمی مقام کے سامنے سر جھکانے کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ یہ خاکسار: ،،ان کے بارے میں اس متنازعہ کتاب کو ادب کے ساتھ محفوظ کر لیتا ہے،،۔
استاد محترم! پانچویں سطر میں آپ نے لکھا ہے: ،،دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،،۔ گیارھویں سطر میں اسے متنازعہ قرار دے ڈالتے ہیں۔ دستاویزی ثبوت والی کتاب متنازعہ کیسے ٹھہری؟
،،مولانا ابو الکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، مولانا آزاد کی ان پیش گوئیوں کا جواب ہے، جب سے ہوش سنبھالا مجھے اپنے ہم مسلک بزرگوں اور دوستوں کی طرف سے سننے اور پڑھنے کو ملتی رہیں۔
آغا شورش کاشمیری نے 1951ء میں اپنے ہفتہ وار ،،چٹان،، میں ،،بوئے گل، نالہ دل، دود چراغ محفل،، کے عنوان تلے اپنی سیاسی یادداشتیں لکھیں۔ 1972ء میں اسی نام سے انھیں کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ان میں انھوں نے مارچ اپریل 1946ء میں مولانا آزاد کے ساتھ بیسیوں نشستوں میں لیے گئے انٹرویو کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہ وہ اسے مولانا پر اپنی کتاب میں شائع کریں گے۔ یہ کتاب ،،مولانا ابو الکلام آزاد،، ان کی وفات کے کوئی سوا بارہ برس بعد فروری 1988ء میں شائع ہوئی۔ اس دوران میں مولانا کے مداحین اس کتاب کی اشاعت کے سخت منتظر رہے۔ بلکہ شک کیا جانے لگا، شاید مجید نظامی نے مسعود شورش پر رسوخ استعمال کرتے ہوئے کتاب کی اشاعت رکوا دی ہے۔
کتاب شائع ہوئی تو پاکستان کے بارے میں مولانا کی پیش گوئیوں کا چرچا کیا گیا۔ بالآخر عبدالقادر حسن! آپ کے ممدوح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے 28 اکتوبر 2013ء تا 23 دسمبر 2013ء،، پانچ اقساط میں یہ پیش گوئیاں اپنے خلاف حقیقت تبصرے کے ساتھ معاصر اردو اور انگریزی میں شائع کیں۔ اس سے ایک تو آپ کے ممدوح کے اصل چہرے پر سے ،،عظمت،، کا پردہ سرک گیا۔ دوسرے، مولانا کے مداحین اور پاکستان میں رہنے، یہاں کا کھانے اور یہاں عیش کرنے کے باوجود متحدہ ہندوستان اور ہندو راج کے ان زبردست حامیوں نے ان پیش گوئیوں پر مبنی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے مضامین صحیفہ آسمانی سمجھ کر پھیلائے اور عام کیے۔ میں نے مولانا کی ان پیش گوئیوں کا تاریخ اور ریکارڈ سے جواب دیا تو پھر ،،مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط،، متنازعہ کیسے ٹھہری؟
آپ کے اس جملے پر مجھے حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ پریکٹیکل جرنلزم میں میں آپ کو بھی اپنے اساتذہ میں شمار کیا کرتا ہوں۔ آپ سے براہ راست کم سہی بالواسطہ بہت کچھ سیکھا۔ اور آپ کا محبت بھرا رویہ میرے لیے ہمیشہ طمانیت اور فخر کا موجب رہا۔ کل بھی اور آج بھی۔
فقط
والسلام
منیر احمد منیر