ہمارے حکمران جرات سے کام لیں

ہماری فوج کو تو اس دہشت گردی کا پہلے سے علم تھا اور اس نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ بھی شروع کر دی تھی۔

Abdulqhasan@hotmail.com

وطن عزیز کے چھوٹے بڑے لاتعداد سیاستدانوں میں سے دو عدد نے گزشتہ دنوں دھرنے کے نام پر طویل عرصہ تک اسلام آباد میں ایک ہنگامہ برپا کیے رکھا جو طویل ترین دھرنا تھا یعنی کوئی سوا سو دنوں تک مسلسل جاری رہنے والا۔ پاکستان کے مایوس عوام نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن دھرنا باز دونوں لیڈروں کے لیے یہ ایک بے مقصد مشق تھی جس میں صرف ان کی ذات کو کچھ حاصل ہوا ہو تو دوسری بات ہے قوم کو سوائے پرشور اور پرجوش شاموں اور رنگین چہروں کے اور کچھ نہ ملا اور ملنا بھی کچھ نہ تھا کہ دھرنوں کے قائدین کو خود کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کس مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اس بے نتیجہ طویل ترین سیاسی سرگرمی کے جو اپنی مثال آپ تھی بالآخر ایک دن اچانک ختم کر دی گئی اور دھرنے باز عوام جو ایسی شاموں کے عادی ہو چکے تھے حیران ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ ایک دھرنا باز لیڈر کی طرح جو اپنے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر امریکا بھاگ گیا اور ابھی تک بھاگا ہوا ہے البتہ دوسرا لیڈر پاکستان میں موجود ہے، عدیم المثال دھرنے کی رنگین یادوں میں گم یہ لیڈر ایک مستقل جماعت رکھتا ہے جو چل رہی ہے اور قومی سیاست میں اپنی خاص حیثیت بنا چکی ہے۔ یاد آیا کہ دھرنے کا ایک نتیجہ اس جماعت کی مقبولیت کی صورت میں سامنے ضرور آیا جو اس جماعت کے لیڈر کے ذہن میں بھی شاید نہیں تھا، یہ نتیجہ خود بخود ہی نکل آیا اور اب ہر سرکاری اور غیر سرکاری قومی سیاسی اجتماع میں اس لیڈر کو سب سے زیادہ اہمیت ملتی ہے حتیٰ کہ اس کی دوسری شادی کی افواہ بھی ایک قومی خبر بن چکی ہے۔

میں نے اس بڑی ہی اہم افواہ پر کان دھرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اندر برسوں تک جاگنے اور اب برسوں تک سونے والے رپورٹر کو جگایا اور اس نے مجھے اس افواہ کے بارے میں کچھ تلاش کر کے بتایا لیکن میں وہ آپ کو نہیں بتاؤں گا جس ملک کے گھر گھر میں دہشت گردی کا خطرہ چھایا ہوا ہو اور تعلیم و تدریس تک بند ہو اس ناگفتہ بہ اور کربناک حالت میں ایسی شادی بیاہ کی افواہیں اچھی نہیں لگتیں۔ دنیا کے سامنے شرمندہ کرتی ہیں۔

بات دہشت گردی پر سیاسی جماعتوں کی یکے بعد دیگرے کئی اجلاسوں کی ہو رہی تھی۔ ہماری فوج کو تو اس دہشت گردی کا پہلے سے علم تھا اور اس نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ بھی شروع کر دی تھی لیکن ہمارے سیاستدانوں کو جن پرامن اور جنگ دونوں حالتوں میں ملک کی دیکھ بھال کا فرض عائد ہوتا ہے ان کو ملک کے خلاف دہشت گردی کا خطرہ پشاور کے اسکول کے سانحے سے ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر کا دن ایک عظیم ترین سانحہ کی یاد ہے اور اس دن ایک اور بہت ہی درد ناک سانحہ ہمارے دشمنوں نے تیار کیا جس نے مایوسی سے بے ہوش قوم کو ایک بار پھر بحال کر دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ واقعہ تو میرے دل میں ہوا ہے۔


اس طرح ساری قوم کے دل درد میں اور آنکھیں پانی میں ڈوب گئیں۔ حکومت نے اس پر حسب معمول اجلاس شروع کر دیے ملک بھر کی جماعتوں اور گروہوں کے نمایندوں کو دعوت دی اور یہ دعوت یکے بعد دیگرے کئی اجلاسوں میں جاری رہی۔ قوم نہایت ہی توجہ سے ان اجلاسوں کی روداد سنتی رہی۔ ان طویل جلسوں اور مشاورتی مجلسوں سے گھبرا کر کہ ایک طرف اس سانحہ عظیم نے ملک بھر میں آگ لگا دی ہے اور دنیا بھر سے تعزیت اور رنج کے پیغامات آ رہے ہیں دوسری طرف وہ بحث جاری ہے اور وہ بھی بے نتیجہ۔ اس صورت حال سے گھبرا کر چوہدری شجاعت حسین نے براہ راست وزیراعظم کو مخاطب کر کے سب کو چونکا دیا کہ جناب وزیراعظم جرات مندانہ فیصلے کریں چاہے وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہوں اور ان فیصلوں کی وجہ سے آپ کی کرسی بھی کیوں نہ چلی جائے مگر فیصلے مضبوط دلیرانہ اور جرات مندانہ ہوں۔

چوہدری شجاعت نے اجلاس کے شرکاء سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ذرا تصور کریں جس ماں نے اپنے بچے کو تیار کر کے صبح اسکول بھیجا تھا اس کے اسکول بیگ میں سینڈوچ رکھے تھے اور دوپہر کے کھانے پر اپنے بچے کا انتظار کر رہی تھی مگر بچہ نہ ملا اس کے جسم کے کچھ ٹکڑے ملے۔ اگر ہم میں سے کسی جج کا یا ہمارا بچہ ہوتا تو ہم کیا اس وقت آئین کی بات کر رہے ہوتے۔ رپورٹر بتاتے ہیں کہ شجاعت کی تقریر سے شرکاء پر رقت طاری ہو گئی اور سارا ماحول ہی بدل گیا۔ وزیراعظم نے بھی چوہدری شجاعت کی تقریر کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں ان کی باتوں سے متفق ہوں۔ اس سے کانفرنس کا رخ ہی بدل گیا۔

پشاور کے اسکول کا یہ سانحہ قوم کے دلوں میںاتر چکا ہے اور یہ اپنا بدلہ چاہتا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ ہم دفاعی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے ہیں اور اسکول بند کر رہے ہیں کوئی ایک ماہ تک کل کسی اور شعبے میں ایسی کوئی دہشت گردی ہو گی تو ہم اس کو بند کر دیں گے اور رفتہ رفتہ دشمنوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں پورا ملک ہی بند کر دیں گے ویسے ایک ماہ تک اسکول بند کرنے کا عندیہ دینا ملک بند کرنے کے مترادف ہے کہ تعلیم تدریس سے زیادہ اہم اور بنیادی شعبہ اور کون سا ہے۔ ہم اپنی نئی نسل اور جوان نسل کے دلوں میں خوف پیدا کر رہے ہیں اور دشمن کی خواہشات کی تعمیل کر رہے ہیں جو ایک نہایت ہی احمقانہ عمل ہے۔ کیا ہمیں بھارت جیسے کمینے اور دشمنی پر ہر دم تیار پڑوسی سے کسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے۔

جنگیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک اسلحہ کی جنگ اور ایک سپاہی کی جنگ ہم دونوں قسم کی جنگوں میں اپنے دشمن سے کم نہیں ہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ مہلک اسلحہ میں ہم برابر ہیں یا ہم بہتر ہیں اور سپاہی سے سپاہی کا مقابلہ تو ہے ہی نہیں۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم خدا و رسولؐ کے لیے جنگ کر رہے ہیں تو ہمارے غازی کا مقابلہ کون کر سکتا ہے جس کی تمنا ہے کہ وہ اس جہاد میں شہید ہو جائے۔ اس کی شہادت کی نعمتوں کو خود اللہ پاک کی ذات نے بیان کیا ہے ایسے سپاہی کا بت پرست مقابلہ نہیں کرسکتے۔

عرض صرف اتنی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں اور قوم کو حوصلہ دیں۔ ہماری قوم دکھی قوم ہے کہ اسے جس عظیم ملک کا شہری ہونا تھا اس کے لیڈروں نے اسے اس سے محروم کر دیا۔ یہ اشرافیہ جسے میں بدمعاشیہ کہتا ہوں ایوب خان کے ساتھ ہی اس ملک پر مسلط ہو گئی۔ انگریزوں کا پروردہ یہ طبقہ کسی آزاد اور باغیرت ملک کو چلا ہی نہیں سکتا۔ اس کے قد بت کو چھوٹا کر کے اپنے برابر لے آتا ہے تاکہ وہ حکومت کر سکے۔ ہمیں اس طبقے سے نجات تو کسی نجات دہندہ سے ہی ملے گی جس کا ہم سب مل کر انتظار کریں فی الحال ہم اس ملک کو جیسا بھی یہ ہے بچانے کی کوشش کریں۔
Load Next Story