ہر صبح ایک غزل

زاہدہ حنا  منگل 6 جنوری 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

لکڑی کا وہ بدرنگ چوکھٹا یاد آتا ہے جس میں ریت گھڑی جمی ہوئی تھی۔کانچ کے مخروطی گلاس میں سوئی جیسے باریک سوراخ سے ریت کو پھسل کر نیچے گرتے ہوئے دیکھنا اور پھر جب ریت کے تمام ذرے مخروطی گلاس کے نچلے حصے میں گرجائیں تو چوکھٹے کو پلٹ کر رکھ دینا اور ریت کو پھر سے گرتے ہوئے دیکھنا۔ یہ ریت جو ایک گھنٹے کا شمار کرتی تھی، کس قدر پراسرار تھی۔ اس زمانے میں خیال تھا کہ وقت دو حصوں میں بٹے ہوئے اس مخروطی شیشے میں قید ہے۔ یہ بات کچھ دنوں بعد سمجھ میںآئی کہ ہم سب وقت کی قید میں ہیں اور اس میں شاہ و گدا کی کوئی تخصیص نہیں۔

اسی زمانے میں لفتھانسا اور برٹش ایرویز کے رنگین کیلنڈر زندگی کا حصہ بنے اور امریکی مرکز اطلاعات کے چھپے ہوئے وہ کیلنڈر جو امریکی جنگ آزادی کے مختلف ادوار کی با تصویر کہانی سناتے تھے۔ باریک سفید کاغذ پر چھپا ہوا وہ کیلنڈر جس پر انگریزی اردو اورگجراتی میں دن، تاریخ اور مہینہ درج ہوتا تھا۔ شمسی کے ساتھ قمری مہینے اور تاریخیں۔ اس کا ایک صفحہ روز پھاڑا جاتا اور سال کے آخر ہوتے ہوتے وہ تحلیل ہوجاتا۔

ان ہی دنوں یہ جاننے کا شوق ہوا کہ گزرے ہوئے زمانوں میں دن اور تاریخ کا اور برس کا حساب کس طرح رکھا جاتا تھا۔ اس بارے میں تجسس مصری دیوتا توت تک لے گیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سر پر ہلال اٹھائے، خمیدہ چونچ اور لمبی گردن رکھنے والا توت، وقت کا دیوتا تھا اور اسی نے مصری کیلنڈر مرتب کیا تھا۔ یونان میں زراعت کے دیوتا کا نام کرونس تھا، رب الارباب زیوس جس کا بیٹا تھا۔ بعد کے زمانوں میں کرونس وقت کا دیوتا کہلایا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں درانتی ہوتی تھی۔

جس سے وہ گزرے ہوئے برس کو کاٹتا جاتا۔ انسان نے اپنی سہولت کے لیے وقت کو ساعت، دن، مہینے اور برس میں تقسیم کیا۔ یہ سلطنت روما کا جولیس سیزر تھا جس نے صرف بڑی بڑی فتوحات ہی نہیں کیں، اس کا ایک نہایت اہم اقدام 47قبل مسیح میں مغربی دنیا کو 365دنوں کا کیلنڈر دینا بھی تھا۔ یہ کیلنڈر اس نے مصر کی فوجی مہم میں کامیابی کے بعد اختیارکیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مصری حساب داں اور ہیت دان سیزر کی فوج کشی سے دو سو برس پہلے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ لیپ مہینے کے ذریعے ہی سال کو 365دنوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ سیزر کے رائج کیے ہوئے اس جولین کیلنڈر نے دنیا مغربی خطے کو ماہ وسال کا وہ تصور دیا جس کے آج ہم بھی عادی ہوچکے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس جولین کیلنڈرنے مغربی دنیا کو ایک رشتے میں پرو دیا۔ مسلمانوں،ہندوؤں، چینیوں اور متعدد دوسری اقوام کے کیلنڈرآج مختلف ملکوں میں موجود ہیں اور اپنے مخصوص علاقوں میں استعمال بھی ہوتے ہیں لیکن دنیا میں اس وقت جس طرح مغربی تہذیب کا بول بالا ہے، اسی طرح جولین کیلنڈر بھی ہماری روزمرہ زندگی میں جاری و ساری ہے۔

یہ تاریخی حقائق، سلسلہ خیال کا حصہ یوں بنے کہ اس وقت نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی انعام الحق جاوید کا بھیجا ہوا ایک دل ربا اور خیال پرور تحفہ میرے سامنے ہے۔ یہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی خوش بختی ہے کہ ابتداء سے اب تک اسے عموماً بہت فعال اور خوش خیال سربراہ میسر آئے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اردو کے معروف ادیب مظہر الاسلام کی سربراہی میںنیشنل بک فاؤنڈیشن نے کتابوں کا بھرپور جشن منایا اور متعدد دل کش کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔

ان کے بعداس ادارے کی سربراہی برادرم ڈاکٹرانعام الحق جاوید کے حصے میں آئی۔ وہ ادیب ہیں، دانش جُو اور کتاب کے رسیا ہیں۔ 2014 میں انھوں نے کتابوں کے قومی دن کے موقعے پر ایک من موہنا کتاب کیلنڈر شایع کیا تھا۔ اس دوران وہ شاعری کے حوالے سے ایک خواب دیکھتے رہے اور اب اس خواب کی تعبیر ’غزل کیلنڈر‘ کی صورت میں سامنے ہے۔

365 دنوں پرمشتمل یہ کیلنڈر دراصل صدیوں پر پھیلی ہوئی اردو غزل کا ایک ایسا انتخاب ہے جو خواجہ آتش سے شروع ہوا اور یوسف ظفر پر تمام ہوا ہے۔ اردو شاعری کی یہ رنگین اور مرصع تقویم جو اٹھارویں صدی سے اکیسویں صدی تک پھیلی ہوئی ہے، اس کی اشاعت اور اس کا اجراء برادرم انعام الحق جاوید کی کاوش ہے تو ہر تاریخ کے لیے غزل کا انتخاب محبوب ظفر نے کیا ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ

’اردو شاعری کا میدان یوں تو بہت فراخ ہے اور نظم و نثر، میں ہزاروں شاعر ادیب اپنے جوہر دکھاتے رہے ہیں ، لیکن غزل کو دیگر تمام اصناف نظم و نثر کے مقابلے میں ہمیشہ سے امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے۔ شاید اس کا سبب یہی ہے کہ یہ فکرا ور وجدان ور جذبہ و خیال کے اس دلکش باغ کا ایسا پھول ہے، جس کے رنگوں میں بلا کی آب و تاب ہے اور جس کی خوشبو کو دوام ہے۔

زیر نظر ’’تقویم‘‘ بھی غزل کے شعراء سے ترتیب دی گئی ہے، مگر اس کیلنڈر کو اس سے پہلے چھپنے والے ان تمام غزل کیلنڈروں پر اس لیے بھی فوقیت حاصل ہے کہ پہلی بار اس میں معیار کے حوالے سے اہتمام یہ رکھا گیا ہے کہ ان غزل گو شاعروں کو شامل کیا جائے جو ہمارے نزدیک اپنی تخلیقی کار گزاری کے اعتبار سے کلاسیک سے لے کر اب تک کی جدید اردو غزل کی عہد بہ عہد صورت گری میں اہمیت کے حامل ہیں اور جنھیں اسلوب کے حوالے سے دیگر معاصرین پر واضح تفوق و امتیاز حاصل ہے۔

یہ واقعی ایک ہفت خواں تھا جس سے محبوب ظفر گزرے ہیں۔ برادرم انعام الحق جاوید کے مراتب بلند ہوں کہ انھوں نے ایک مشکل کام کا آغاز کیا اور خوش اسلوبی سے اسے انجام تک پہنچایا۔

چمکتے دمکتے آرٹ پیپر پر حروف تہجی کے اعتبار سے کلاسیکی اور جدید شاعروں کی یہ 365غزلیں، آہو چشم حسیناؤں، تتلیوں، پھولوں، پرندوں، شہسواروں، تیراندازوں، دروازوں اور دریچوں سے آراستہ کی گئی ہیں۔ صفحوں پر رنگ باتیں کرتے ہیں اور ناز و ادا سے، غمزہ وعشوہ سے دوسری طرف دیکھنے والیاں دل کو سو طرح سے گرفتار بلا کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا گلدستہ سخن ہے جو قدم قدم پر شعر شناسوں کواپنا اسیر کرتا ہے۔ یوں تو اس میں کیا کچھ نہیں ہے۔، تبرکاً سراج اورنگ آبادی کی ڈھائی سو برس پہلے کی غزل آپ کی نذر ہے:

خبرِ تحیرِّ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شہِ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی جامہ دری رہی
چلی سمتِ غیب سوں اک ہوا کہ چمن ظہور کاجل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم،جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ یار کا گِلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب، عقل کی طاق پر جیوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی
ترے جوشِ حیرتِ حُسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہُوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی
کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

اردو شاعری کے صاحب عالم اسد اللہ خاں غالب کی غزل سے مرصع 2015 کی یہ تقویم ہر صاحب دل کے سرہانے ہونی چاہیے کہ آج کی ہنگاموں اور حوادث سے بھری ہوئی دنیا میں یہ شعر کیسی معنویت رکھتا ہے:

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔