غلطی کا تدارک آسان بنائیں
ہم غلطیوں سے نمٹنے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں جو خود ایک غلطی ہوتا ہے۔
ہم غلطیوں سے نمٹنے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں جو خود ایک غلطی ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل
انسان سے چھوٹی بڑی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ غلطی ہلکی ہو یا بھاری اس کا تدارک ممکن ہے۔ ہاں جب غلطی شدید نقصان کی صورت میں ظاہر ہو تو اس کا سو فیصد تدارک نہیں ہوسکتا، تاہم کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پورا ہو جاتا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد غلطیوں کے ازالے کی کوشش نہیں کرتی۔ ایسے افراد کو دراصل یہ شک ہوتا ہے کہ وہ غلطی کے تدارک کی صلاحیت ہی سے محروم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اکثر ہم غلطیوں سے نمٹنے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں جو خود ایک غلطی ہوتا ہے۔ میرا بیٹا غلطی کر بیٹھتا ہے تو میں اسے ڈانٹتا ہوں، سخت سست کہتا ہوں اور غلطی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہوں کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا اندھے کنویں میں جا پڑا ہے۔ نتیجتاً وہ مایوس ہوکر غلطی ہی پر اڑا رہتا ہے اور ازالے کی کوشش نہیں کرتا۔
کبھی میری بیوی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے یا میرا دوست غلطی کر بیٹھتا ہے تو اب میرا اخلاقی فرض ہے کہ اسے احساس دلائوں کوئی بات نہیں، غلطی سرزد ہو ہی جاتی ہے۔ اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ابھی راستہ کھلا ہے، غلطی کا تدارک آسان ہے اور حق کی طرف لوٹ جائو، باطل پر اڑے رہنے سے رجوع الی الحق بہرحال بہتر ہے۔ یہ سب باتیں میں اسے ذہن نشین کرادوں تو یہ اس کی اصلاح کا مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔
اس لیے غلطی کرنے والے کو مریض سمجھیں جسے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔ وہ آپ کی بے جا سختی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ آپ اس کی غلطی پر خوش ہیں۔ اچھا طبیب وہی ہے جسے مریضوں کی صحت کی فکر خود ان سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
''میری اور لوگوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے آگ جلائی۔ روشنی ہوئی تو پروانے آگ میں گرنے لگے، وہ آدمی انہیں آگ سے نکالتا رہا۔ اس کے باوجود وہ آدمی پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے رہے۔ میں تمہارے دامن پکڑ پکڑ کر آگ میں جانے سے روک رہا ہوں اور تم دامن چھڑا چھڑا کر آگ میں جاتے ہو۔''
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ غلطیوں سے نمٹنے کا طریقہ بجائے خود غلطی سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ جس طرح لوگوں کے مزاج اور شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ان کے نقطہ ہائے نظر میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، جو ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ جب آپ کو محسوس ہو کہ فلاں شخص غلطی کررہا ہے اور آپ خیر خواہی کی غرض سے غلطی کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتا تو آپ اس کا نام دشمنوں کی فہرست میں درج نہ کردیں۔ حتی الامکان معاملات کو وسیع الظرفی سے لیں۔
مثال کے طور پر آپ اپنے شاگرد کی غلطی پر اسے خبردار کرتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ آپ اس سے دوستی کو دشمنی میں نہ بدلیں اور اس سے اپنے خوشگوار تعلقات جاری رکھیں۔ ہوسکتا ہے آپ کے مثبت طرز عمل سے وہ مزید غلطیوں کا شکار نہ ہو۔
یاد رکھیے چھوٹے شر کے بدلے بڑا شر مول نہ لیں۔ آپ لوگوں سے تعامل میں اسی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کریں اور چھوٹی موٹی باتوں پر ناراض ہونے کی عادت ترک کریں تو اچھی زندگی آپ کا مقدر ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطیوں کا تدارک کریں۔ یہ شرط نہیں کہ وہ آپ کے سامنے غلطیاں ٹھیک کریں، اس لیے غصے میں نہ آئیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد غلطیوں کے ازالے کی کوشش نہیں کرتی۔ ایسے افراد کو دراصل یہ شک ہوتا ہے کہ وہ غلطی کے تدارک کی صلاحیت ہی سے محروم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اکثر ہم غلطیوں سے نمٹنے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں جو خود ایک غلطی ہوتا ہے۔ میرا بیٹا غلطی کر بیٹھتا ہے تو میں اسے ڈانٹتا ہوں، سخت سست کہتا ہوں اور غلطی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہوں کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا اندھے کنویں میں جا پڑا ہے۔ نتیجتاً وہ مایوس ہوکر غلطی ہی پر اڑا رہتا ہے اور ازالے کی کوشش نہیں کرتا۔
کبھی میری بیوی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے یا میرا دوست غلطی کر بیٹھتا ہے تو اب میرا اخلاقی فرض ہے کہ اسے احساس دلائوں کوئی بات نہیں، غلطی سرزد ہو ہی جاتی ہے۔ اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ابھی راستہ کھلا ہے، غلطی کا تدارک آسان ہے اور حق کی طرف لوٹ جائو، باطل پر اڑے رہنے سے رجوع الی الحق بہرحال بہتر ہے۔ یہ سب باتیں میں اسے ذہن نشین کرادوں تو یہ اس کی اصلاح کا مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔
اس لیے غلطی کرنے والے کو مریض سمجھیں جسے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔ وہ آپ کی بے جا سختی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ آپ اس کی غلطی پر خوش ہیں۔ اچھا طبیب وہی ہے جسے مریضوں کی صحت کی فکر خود ان سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
''میری اور لوگوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے آگ جلائی۔ روشنی ہوئی تو پروانے آگ میں گرنے لگے، وہ آدمی انہیں آگ سے نکالتا رہا۔ اس کے باوجود وہ آدمی پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے رہے۔ میں تمہارے دامن پکڑ پکڑ کر آگ میں جانے سے روک رہا ہوں اور تم دامن چھڑا چھڑا کر آگ میں جاتے ہو۔''
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ غلطیوں سے نمٹنے کا طریقہ بجائے خود غلطی سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ جس طرح لوگوں کے مزاج اور شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ان کے نقطہ ہائے نظر میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، جو ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ جب آپ کو محسوس ہو کہ فلاں شخص غلطی کررہا ہے اور آپ خیر خواہی کی غرض سے غلطی کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتا تو آپ اس کا نام دشمنوں کی فہرست میں درج نہ کردیں۔ حتی الامکان معاملات کو وسیع الظرفی سے لیں۔
مثال کے طور پر آپ اپنے شاگرد کی غلطی پر اسے خبردار کرتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ آپ اس سے دوستی کو دشمنی میں نہ بدلیں اور اس سے اپنے خوشگوار تعلقات جاری رکھیں۔ ہوسکتا ہے آپ کے مثبت طرز عمل سے وہ مزید غلطیوں کا شکار نہ ہو۔
یاد رکھیے چھوٹے شر کے بدلے بڑا شر مول نہ لیں۔ آپ لوگوں سے تعامل میں اسی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کریں اور چھوٹی موٹی باتوں پر ناراض ہونے کی عادت ترک کریں تو اچھی زندگی آپ کا مقدر ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطیوں کا تدارک کریں۔ یہ شرط نہیں کہ وہ آپ کے سامنے غلطیاں ٹھیک کریں، اس لیے غصے میں نہ آئیں۔