سب کچھ بند کشمیری چائے کھلی

اس ملک میں سب کچھ بند سہی اگر کوئی چیز بند نہیں ہے تو وہ زراندوزی اور کرپشن بے ایمانی رشوت ستانی وغیرہ ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
بندش کا زمانہ ہے گو ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک کہلاتے ہیں مگر ہمارے ہاں آزادی بہت محدود ہے اور بہت کچھ بند ہو چکا ہے۔ بجلی بند گیس بند اور اب پنجاب میں پٹرول بھی بند۔ کھلا کیا ہے چور ڈاکو کھلے ہیں اور ہر روز لاہور جیسے شہر میں لاکھوں کروڑوں کے ڈاکے پڑتے ہیں۔ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اب تو میرا خیال ہے کہ لاہور والوں کے پاس جو کچھ تھا وہ لٹ چکا ہے اور باقی صرف وہ خود رہ گئے ہیں جن پر سب کچھ بند ہے۔

صرف سانس کھلا ہے کیونکہ قدرت کی عنایات میں سے ایک یہ نعمت بھی ہے جو کسی حکمران کے اختیار میں نہیں ہے البتہ اس کو گندا کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے اور اس وجہ سے سانس کی کئی بیماریاں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ امراض دمہ کے ماہر ڈاکٹر خالد چیمہ مجھے نصیحت کیا کرتے ہیں کہ گندی ہوا سے بچو لیکن کیسے بچوں اور کہاں جاؤں لاہور میں تو ہر چیز میں کچھ نہ کچھ گند ضرور موجود ہے اور تو اور کھانے کی سبزی بھی خالص نہیں ہے۔ یہ گندے نالوں کے پانی سے پرورش پاتی ہے اور اس کی عمر زیادہ سے زیادہ ایک دن کی ہوتی ہے اور دوسرے دن یہ سوکھ جاتی ہے اور پہچانی نہیں جاتی۔ اب وہ دن گئے جب دو چار دنوں کی سبزی خرید لی جاتی تھی۔

امیری غریبی اپنی جگہ لیکن جو اشیائے ضرورت خریدی جا سکتی ہیں وہ بھی ناقص ہیں تو کسی کی امیری کس کام کی اور یہ امیری بذات خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے جس پر صوفیوں نے بہت مضامین باندھے ہیں اور عبرت دلائی ہے لیکن کوئی کچھ بھی کہے اور کتنے ہی نصیحت بھرے وعظ کرے لالچ بری بلا ہے جس کے بارے میں ایک فارسی شاعر نے کہا ہے کہ کسی لالچی کی حرص بھری آنکھ کو قناعت پُر کر سکتی ہے یا قبر کی خاک۔ گزشتہ دنوں ہمارے قومی لیڈروں کے اثاثوں کی مالیت کو بیان کیا گیا اور یہ مالیت اور اثاثے کم از کم بیان کیے گئے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کروڑوں سے لے کر اربوں تک تھے جو سب اس طرح جھوٹے تھے کہ ان کو ہر ممکن حد تک کم از کم ظاہر کیا گیا اس سے کم فہم آدمیوں کو یہ امید بندھی کہ ان کو ووٹ دیں اب یہ لوگ مزید کرپشن نہیں کریں گے لیکن یہ کرپشن نہیں کریں گے تو پھر کیا کریں گے کہ ع

انھیں اور کوئی کام تو آتا ہی نہیں

انھوں نے جو اثاثے بیان کیے ہیں کوئی محکمہ ایسا بھی ہو جو ان کم از کم ظاہر کیے گئے اثاثوں کی ہی تحقیق کرے کہ یہ کہاں سے آئے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کسی حکمران خاندان کے چند حساس لوگوں نے یہ سوچا کہ اپنے بزرگ سے عرض کریں کہ اب ہمیں دنیا میں اور کیا چاہیے کیوں نہ ہم اپنا کاروبار بند کرنے کا اعلان کر دیں اس پر اس جہاندیدہ بزرگ نے اپنے ان نادان فرزندوں سے کہا کہ کاروبار کا مزا تو اب آئے گا جب حکومت بھی اپنی ہو گی۔ عرض فقط یہ ہے کہ اس ملک میں سب کچھ بند سہی اگر کوئی چیز بند نہیں ہے تو وہ زراندوزی اور کرپشن بے ایمانی رشوت ستانی وغیرہ ہیں۔ ان کی کھلی چھٹی ہے کیونکہ یہ عام آدمی نہیں کر سکتا صرف بڑے بااثر اور بااختیار لوگ ہی کر سکتے ہیں جن کو سماجی روایات کی پروا بھی نہیں اور بڑے تام جھام کے ساتھ کسی کے گھر پُرسا دینے پہنچ جاتے ہیں اور تعزیت کرتے ہیں۔


ایوب خان کے زمانے سے یہ لوگ اس ملک پر مسلط ہوئے ہیں جنھیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں یہ لوگ برطانوی دور کی پیداوار تھے جو نسل در نسل آگے بڑھتے گئے اور ہم تک آ پہنچے ہیں اور ابھی ہماری آنے والی نسلوں تک دندناتے جائیں گے۔ یہ نسل جب تک باقی رہے گی یعنی اقتدار اس کے پاس رہے گا تب تک اس آزاد ملک کے باشندے ان کے غلام رہیں گے کیونکہ آزادی کے تمام ذرائع ان کی تحویل اور قبضہ میں رہیں گے۔

اس اشرافیہ نے ملک کو اس برے اور بھدے طریقے سے چلایا کہ اسے دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ ایوب خان کبھی بریگیڈئر تھے اور مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ وہ اپنی یاداشتوں میں یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ یہ ملک خوشحال نہیں رہ سکتا۔ ان سے نجات ہی میں سلامتی ہے چنانچہ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے بنگالیوں سے جان چھڑانے کے حربے استعمال کرنے شروع کر دیے اور ان کے جانشینوں نے ان کی خواہش پوری کر دی۔ جن لوگوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ان کا نگران ایک فوجی تھا اور اس کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں نمایاں ان کے زمانے کے وزیر تھے مثلاً جناب ذوالفقار علی بھٹو جو مشرقی پاکستان کی اکثریت والی آبادی کی موجودگی میں کبھی اس ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارے خاندان کی عمریں بہت کم ہیں اور میں اتنا انتظار نہیں کر سکتا کہ سہروردی کی طرح انتظار ہی کرتا رہوں۔ بہر کیف وہ لوگ کامیاب رہے ۔

ان میں ایک اہم شخصیت اور ملک کے سربراہ جرنیل یحییٰ خان کے نمبر دو جنرل عمر کے تین بیٹے ان دنوں مغربی پاکستان یعنی پاکستان میں بہت اہم عہدوں پر اپنی اچانک آمد کے بعد اچانک فائز ہو گئے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ سلسلہ جاریہ اب تک ہمارے سروں پر مسلط ہے اور لگتا ہے کہ ابھی رہے گا۔ ہمارے ہاں بظاہر جمہوریت ہے جس میں مارشل لاؤں کا طویل وقفہ بھی آتا رہتا ہے مگر جمہوریت پھر بھی زندہ رہتی ہے اور ہماری جمہوریت روپے پیسے کا کھیل ہے اور اشرافیہ ہی اس میں کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ داروں کا گروہ ہے کوئی غریب خواہ وہ کتنا بھی بڑا سیاستدان کیوں نہ ہو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا ملک معراج خالد اپنے آخری الیکشن میں ایک رئیس کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے تھے اور ان کے خلاف ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی ملک صاحب مُلک کے ہر بڑے عہدے پر فائز رہے لیکن انھوں نے اپنے لیے کچھ نہیں بنایا تو تم لوگوں کے لیے کیا بنائیں گے چنانچہ ملک صاحب یہ الیکشن ہار گئے کیونکہ انھوں نے ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنے لیے کچھ نہ بنایا جو اپنے لیے کچھ نہیں بنا سکتا وہ کسی دوسرے کے لیے کیا بنائے گا۔

اپنے ان عہدوں کے باوجود ملک صاحب چونکہ خالی جیب تھے اور رہے اس لیے وہ اشرافیہ میں شامل نہ ہو سکے وہ عوام میں مقبول تھے اور ان کی بڑی عزت تھی لیکن ان عوام کا ووٹ ان کے لیے نہیں تھا۔ بات اشرافیہ کی ہو رہی تھی جو اب تک ملک کا حکمران ہے ہمارے آج کے حکمران روائتی اشرافیہ میں شامل نہیں تھے لیکن اشرافیہ سے زیادہ ان کے پاس دولت تھی اور سیاست کا شوق اس لیے وہ فوراً ہی اشرافیہ کلب کے رکن بنا دیے گئے اور اب اشرافیہ کے بڑے بڑے نام ان کے ماتحت وزارتوں میں ہیں۔ ان لوگوں کو اقتدار کی قربت درکار ہے خواہ وہ کسی بھی حالت اور طریقے سے حاصل ہو۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ کہ میاں صاحب کی ایک سیاسی دعوت تھی کھانے کے بعد جب چائے چلی تو ایک مشہور و معروف اشرافیہ خاندان کے نمائندے سے میں نے کہا آپ بھی کشمیری چائے پر لگ گئے ہیں۔ انھوں نے میرے طنز کو سمجھ کر ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ملک صاحب کشمیری چائے بڑی لذیذ ہوتی ہے۔

ایک وزیر با تدبیر کا لطیفہ: تیل میسر نہیں مگر خوشخبری یہ ہے کہ اگلے ماہ یہ شاید سستا ہو جائے گا۔ یعنی جو چیز موجود ہی نہیں وہ سستی ہو گی۔ سبحان اللہ!
Load Next Story