جنرل راحیل شریف کا حقیقت پسندانہ مؤقف

آرمی چیف نے کہا کہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیےمسئلہ کشمیر کا حل ضروری، پاکستان عزت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے تو یہ حقیقت امریکا اور برطانیہ پر واضح ہو گئی ہے کہ اس جنگ میں سب سے اہم کردار پاکستان نے ادا کیا ہے، فوٹو : فائل

ZURICH:
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ قومی ایکشن پلان دہشت گردی کے خلاف جامع منصوبہ ہے اور حکومت اس پر مکمل عملدرآمد کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنے دورہ لندن کے دوران جمعہ کو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایکشن پلان انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طویل المدتی جامع منصوبہ ہے، حکومت اس پر مکمل عملدرآمد کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب نہایت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، کوئی امتیاز کیے بغیر سب دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور ہم تعلقات کے استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری، پاکستان عزت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دنیا کو ہمارے ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہے، برطانیہ کو آئی ڈی پیز کی وقار کے ساتھ واپسی اور آبادکاری کے لیے مدد کرنی چاہیے۔ پاک فوج کے سربراہ کا دورہ برطانیہ انتہائی اہمیت اور دوررس اثرات کا حامل ہے۔


انھوں نے اس دورے کے دوران خطے کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے تو یہ حقیقت امریکا اور برطانیہ پر واضح ہو گئی ہے کہ اس جنگ میں سب سے اہم کردار پاکستان نے ادا کیا ہے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان کی ہیں۔ بھارت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار انتہائی معمولی نوعیت کا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاک بھارت تنازعات ہوں یا افغانستان کے مسائل، ان سب سے برطانیہ کا انتہائی گہرا تعلق ہے۔ برطانیہ نے برصغیر پر طویل عرصے تک حکومت کی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے آزادی بھی برطانیہ سے ہی حاصل کی تھی۔ برطانیہ افغانستان کے حوالے سے بھی انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ برطانوی پالیسی سازوں کو تنازع کشمیر کا بھی پوری طرح علم ہے اور انھیں ڈیورنڈ لائن کے آر پار کے مسائل کا بھی مکمل ادراک ہے۔ برطانیہ اگر چاہے تو اس خطے کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنا کردار ثابت کر دیا ہے۔ شمالی وزیرستان آپریشن ضرب عضب پوری طرح کامیاب ہے اور اب ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے جو قومی ایکشن پلان منظور کیا گیا ہے اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک کو پاکستان کے مسائل اور مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے۔ اگر مسئلہ کشمیر کسی آبرومندانہ طریقے سے حل ہو جاتا ہے تو اس خطے میں بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ کشمیر کا تنازع بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حل نہیں ہو رہا۔ اگر برطانیہ بھارت پر دباؤ ڈالے تو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو سکتا ہے۔

اگر یہ مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو جائے تو تنازع کشمیر کا بھی کوئی حل نکل سکتا ہے۔ بھارتی فوج کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جو اشتعال انگیزی کر رہی ہے، اسے روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کا دورہ برطانیہ اپنے نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بہتری لائے گا۔ برطانوی پالیسی سازوں کو بھی زمینی حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی ہے اور امید یہی ہے کہ مستقبل میں جنوبی ایشیا اور افغانستان کے حوالے سے برطانوی پالیسی میں تبدیلی آئے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو پذیرائی ملے گی۔
Load Next Story