ایک کی طاقت کیا ہوتی ہے

لوگ دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دنیا میں بستے ہیں اور دوسرے وہ جن میں ایک دنیا بستی ہے۔

لوگ دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دنیا میں بستے ہیں اور دوسرے وہ جن میں ایک دنیا بستی ہے۔ پہلی قسم کے لوگ صرف ردِعمل دکھاتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ صرف عمل کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ تعداد میں جتنے زیادہ ہیں ان کی اجتماعی طاقت اتنی ہی کم ہے۔ دوسری قسم کے لوگ تعداد میں جتنے کم ہیں ان کی انفرادی طاقت اتنی ہی زیادہ ہے۔ پہلی قسم کے لوگ خود کو نارمل اور دوسری قسم کے لوگوں کو ایب نارمل سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ خود کو کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے پاس فالتو باتیں سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔ درحقیقت پہلی قسم کے لوگ بے ہنگم ریوڑ کی طرح ہیں اور دوسری قسم کے لوگ گڈرئیے۔۔۔۔۔۔

کسی نے مجھے مثالی اداکار نصیر الدین شاہ کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں وہ ایک امریکی سائنسداں، فلسفی اور شاعر لارن آئزلی کی ایک حکایت سنا رہے ہیں۔ آئزلی کو ساحل پر چہل قدمی کا شوق تھا۔ ایک دن اس نے دور سے دیکھا کہ ایک نوجوان ساحل پے پڑی کوئی شے اٹھاتا ہے اور سمندر کی جانب دوڑتا ہے اور وہ شے لہروں کی طرف اچھال دیتا ہے۔ آئزلی کو کرید ہوئی اور وہ اس نوجوان کے قریب پہنچا اور اس سے پوچھا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ نوجوان نے اپنا کام روکے بغیر جواب دیا دیکھ نہیں رہے کہ سورج سر پر آ رہا ہے اور سمندر پیچھے ہٹ رہا ہے اور میں ریت پر جو اسٹار فش نیم مردہ پڑی ہیں انھیں اٹھا اٹھا کے سمندر میں پھینک رہا ہوں تا کہ ان میں زندگی بحال ہو جائے۔

آئزلی نے ہنستے ہوئے کہا اس کا فائدہ؟ یہ ساحل تو سیکڑوں میل طویل ہے اور اس پر تاحدِ نگاہ اسٹار فش نیم مردہ پڑی ہیں۔ ان میں سے چند کو سمندر میں پھینکنے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ نوجوان نے ایک اور اسٹار فش سمندر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کم از کم اسے تو فرق پڑ ہی جائے گا۔ آئزلی نے جب اس نکتے پر غور کیا تو اس کا پورا نظریہِ زندگی ہی بدل گیا۔ اگلے دن وہ صبح ہی صبح ساحل پر پہنچا اور نوجوان کے ساتھ مل کر ریت پر پڑی اسٹار فش اترے ہوئے سمندر کی جانب اچھالنے لگا۔

مطلب کیا نکلا؟ مطلب یہ نکلا کہ تماشائی بننے سے ایکٹر بننا بہتر ہے۔ اگر سب کو یہ کہانی سمجھ میں آ جائے تو اجتماعی مستقبل اور مقدر خود ہی بدل جائے گا۔

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے (ِفرازؔ)

اور آپ میں سے بہت سوں نے وہ کہانی بھی تو سنی ہو گی کہ ایک چڑیا سمندر کا پانی چونچ میں بھر بھر کے ساحل کی ریت پر ڈال رہی تھی۔ کسی نے پوچھا کیا کر رہی ہو۔ چڑیا نے کہا اس کی لہروں نے میرا گھونسلہ برباد کر دیا جس میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے اس لیے اب میں یہ ظالم سمندر خالی کر کے ہی دم لوں گی۔ وہ شخص ہنسا ''پاگل ہوگئی ہو۔ کہاں سمندر اور کہاں تمہاری چونچ۔ چڑیا اپنی چونچ میں اور پانی بھر کے لائی اور ریت پر انڈیلتے ہوئے بولی جتنا خالی کر سکتی ہوں اتنا تو ضرور کروں گی۔۔۔۔

سندھ کے ضلع عمر کوٹ کے قصبے کنری کے نزدیک ایک گوٹھ میں آسو کوہلن ایک ٹانگ کی معذوری کے سبب بیساکھیوں پر ہے۔ اس کے سامنے دو راستے تھے۔ کونے میں بیٹھ کے آنسو بہا بہا کے تیرے میرے رحم کی آس میں زندگی گزار لے یا پھر زندگی کو ہی اپنی بیساکھی بنا لے۔ آسو نے گاؤں کے ننگ دھڑنگ بچوں کو جمع کیا اور پڑھانا شروع کر دیا۔ پہلے پہل مذاق اڑا جیسا کہ اڑتا ہے۔ مگر اب وہی لوگ حسبِ توفیق مدد پر مائل ہو گئے ہیں اور آسو کا ون ٹیچر اسکول پورے علاقے میں مشہور ہو چکا ہے۔


اسی عمر کوٹ سے متصل ضلع تھرپارکر کے قصبے چیہلار کے گوٹھ بتڑا میں حسنہ نامی مڈل پاس بچی بھی بستی ہے۔ اس کے دونوں بازو نہیں۔ اس کا اسکول ایک متروک جھونپڑی میں قائم ہے۔ اس جھونپڑی کے اندر اور باہر ساٹھ بچے، بچیاں زیرِ تعلیم ہیں۔ حسنہ دونوں بازؤں کے بیچ چاک پھنسا کر بلیک بورڈ پر لکھ لکھ کے بچوں کو سمجھاتی ہے۔ یہ اسکول مفت ہے۔ بس بچوں کو قاعدہ، پنسل اور تختی خود لانا پڑتی ہے۔ میں نے حسنہ کا ایک وڈیو انٹرویو دیکھا۔ سوال تھا حکومت کوئی مدد کرتی ہے؟ جواب تھا حکومت بیچاری اپنی مدد کر لے تو بہت ہے۔۔۔۔۔۔

آخر آسو کوہلن اور حسنہ بھی میری طرح یہ سوچ سکتی تھیں کہ تعلیم دینا تو حکومت کی ذمے داری ہے، ہمیں کیا۔ ہماری تو اپنی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی۔ ہم نے کوئی ٹھیکہ تھوڑی لے رکھا ہے بچوں کو سدھارنے پڑھانے کا۔ ویسے بھی فائدہ کیا کچھ بھی کرنے کا۔ جنہوں نے پڑھا لیا یا پڑھ لیا انھوں نے کون سی توپ چلا لی؟

میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ آسو اور حسنہ نام کی ان دونوں پریوں کو بالکل نہیں معلوم کہ اسی تھرپارکر میں چار سو گھرانوں پر مشتمل واؤری گوٹھ میں چون اسکول ہیں۔ شائد کسی ایک گاؤں میں اتنے اسکولوں کا ہونا عالمی ریکارڈ ہے۔ ان چون اسکولوں کے نام پر اگر دو دو اساتذہ بھی تعینات ہیں تو ایک سو آٹھ تو ٹیچر ہی ہو گئے۔ مگر ان میں سے بیشتر اسکول بھوتوں کو تعلیم دے رہے ہیں یا مویشیوں کے ہاسٹل ہیں یا ان کے کمرے موالیوں کے بیڈ روم یا پھر ان کی چوکھٹیں ریت کی غذا ہیں۔ اسی تھرپارکر کے چھاچرو تعلقہ کے گوٹھ نورائی جو ٹر میں چالیس اسکول پائے جاتے ہیں۔ ( یہ انکشافات گزشتہ برس فروری میں سندھ اسمبلی میں بحث کے دوران سامنے آئے)۔

اور تھرپارکر سمیت سندھ کے ستائیس اضلاع میں اڑتالیس ہزار دو سو ستتر اسکولوں میں سے چار ہزار پانچ سو چالیس غیر فعال ہیں اور دو ہزار ایک سو اکیس کا وجود بس فائلوں میں ہے۔ لگ بھگ چالیس ہزار اساتذہ غیر حاضر یا بھوت ہیں مگر تنخواہی میٹر چالو ہے۔ جو اسکول زندہ ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد پینے کے پانی سے، چالیس فیصد بجلی سے اور پینتیس فیصد چار دیواری سے محروم ہیں۔ جب کہ صوبے کا سالانہ تعلیمی بجٹ ایک سو پینتالیس ملین روپے ہے اور ایک عدد وزارتِ تعلیم کا بھی وجود ہے۔ ( یہ اعداد و شمار بھوت اسکولوں کے بارے میں دو ہزار تیرہ کے عدالتی جانچ کمیشن کی رپورٹ میں ہیں)۔

مگر محکمہ تعلیم اور کنری کی آسو کوہلن اور چیلہار کی حسنہ حجاں کے اسکول دو الگ الگ دنیاؤں کی مخلوق ہیں۔ آسو اور حسنہ کے پرائیویٹ اسکولوں کا کسی سرکاری کھکھیڑ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پھر بھی اندھیر نگری میں دو دیوں کی ٹمٹماہٹ سے فرق تو پڑتا ہے۔ اسکول سے باہر رہ جانے والے پچاس لاکھ بچوں میں سے کم از کم سو بچوں کو تو فرق پڑ ہی رہا ہو گا۔ جہالت کے سمندر میں سے چونچ بھر پانی کم ہو تو رہا ہے۔ نااہلی کی ریت پر تڑپتی لاکھوں اسٹار فش میں سے کچھ کو تو کچھ نہ کچھ سانسیں مل ہی رہی ہیں۔ اور زندگی کسے کہتے ہیں؟ اور زندگی کس لیے ہے اور کس کے لیے ہے؟

نظر نہ آئیں تو الگ بات ہے مگر پاگل تو ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ پنجاب کے ضلع میلسی کے علاقے سردار پور کے گاؤں جھنڈیر میں دو متوسط زمیندار بھائیوں کی سمجھ میں جب کچھ نہیں آیا تو انھوں نے ایک لائبریری اور اس سے متصل ایک گیسٹ ہاؤس بنا لیا۔ اگر کسی ریسرچ اسکالر کو مذہب، تاریخ اور ادب پر تحقیق کرنی ہے تو وہ اس لائبریری سے استفادہ کر سکتا ہے۔ طعام سے بے فکری ہے۔ مدتِ قیام کی کوئی قید نہیں۔ بس پڑھئے اور لکھئے اور لوٹ جائیے اور پھر آ جائیے۔ نہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔۔

مگر ایک دوسری انتہا بہاولپور اور بہاول نگر کے درمیان پڑنے والا خیر پور ٹامیوالی کا زرعی قصبہ بھی ہے۔ یہاں ہر ڈیڑھ گلی پر اوسطاً ایک مسجد ہے۔ مرکزی جامع مسجد اور اس سے متصل مدرسہ اس کے علاوہ ہے۔ میں نے مدرسے کے بااثر مہتمم اور امامِ جامع مسجد سے پوچھا پچاس ساٹھ ہزار کی آبادی کے لیے کیا سو کے لگ بھگ مساجد کچھ زیادہ نہیں۔ فرمایا قصبے کے اکثر لوگ حالیہ برسوں تک خلیجی ریاستوں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ وہ کچھ فلاحی کام بھی کرنا چاہتے تھے۔ میں نے مشورہ دیا بھلا اللہ کا گھر تعمیر کرنے سے بہتر فلاحی کام اور کیا ہو سکتا ہے۔

امام صاحب سے میں نے پوچھا کبھی کسی فلاحی کام کے خواہاں سے آپ نے کہا کہ مسجدیں تو اب کافی بن گئیں تم خلقِ خدا کے لیے کوئی اسکول یا چھوٹا موٹا فلاحی اسپتال بنوا دو۔ یہ بھی تو ثوابِ جاریہ ہے۔ فرمایا اسکول یا اسپتال وسپتال بنوانا تو حکومتوں کے کام ہیں۔ اب اگر سرکار ذمے داری نہ نبھائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔

میں نے سری نگر کے مرکزی شہدا قبرستان میں گھومتے گھومتے بیسیوں کتبے پڑھ ڈالے۔ ان میں سے بہت سوں پر نام اور عمر کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ، جھنگ، اٹک، گوجرانوالہ ، نوشہرہ وغیرہ وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ پانچ قبروں کے کتبوں پر کندہ تھا۔ جائے پیدائش خیر پور ٹامیوالی پاکستان۔۔۔۔۔
Load Next Story