ہم اپنے قائد خود بن جائیں

حافظ صاحب کی تنظیم میں بڑی جان ہے اپنے ایمان اور اللہ پر بھروسے سے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
نہیں معلوم امریکا سمیت طاقت ور مغربی دنیا کو اچانک کیا ہوگیا ہے کہ وہ کمزور مسلمانوں کے خلاف اپنی بندوقیں تان کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ پہلے تو انھوں نے پیرس میں ایک فرانسیسی رسالے کے حق میں زبردست مظاہرہ کیا جس میں کوئی چالیس سے زائد حکمران بھی شریک ہوئے، اس رسالے نے چند غلیظ کارٹون چھاپے تھے جن میں آنحضرت ﷺ کی گستاخی کی گئی اور جب مسلم دنیا اس کے خلاف سرگرم ہو گئی تو جواب میں مغربی مسیحی دنیا نے مظاہرے شروع کر دیے۔

اسی دوران امریکی حکمران بھی خاموش نہ رہے اور انھوں نے پاکستان کے ایک مجاہد کی سرکوبی کا حکم دیا۔ حافظ سعید صاحب کی تنظیم کا نام ہے جماعۃ الدعوۃ جس کی سب سے بڑی سرگرمی خدمت خلق ہے۔ پاکستان میں جہاں کہیں کوئی آفت آئی خواہ وہ کتنا ہی مشکل پہاڑی علاقہ بھی کیوں نہ ہوا سب سے پہلے جماعت الدعوۃ کے رضا کار وہاں پہنچے۔ ایک زبردست زلزلے میں جب ہماری فوج پوری تیزی کے ساتھ مدد کے لیے وہاں پہنچی تو حافظ سعید صاحب کے رضا کار وہاں پہلے سے موجود تھے۔

حافظ صاحب کی تنظیم میں بڑی جان ہے اپنے ایمان اور اللہ پر بھروسے سے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ ایک تاریخی مثال یاد کیجیے قوت ایمانی اور اسلحہ کی۔ تین بار اپنے وقت کی سپر پاور برطانیہ افغانستان سے بری طرح شکست کھا کر واپس گئی اب چوتھی بار بھی وہ واپس جا چکی ہے اور اس نے افغانستان میں اپنے سب سے بڑے مرکز سے برطانوی پرچم اتار لیا ہے جسے ادب کے ساتھ لپیٹ کر وہ جلد ہی وطن واپس پہنچ رہی ہے اس کے ساتھ اس کا سرپرست امریکا بھی افغانستان پر اپنی پہلی یلغار میں ناکام ہو کر بھاگ گیا ہے۔

امریکا اب اپنا غصہ مسلمان ملکوں پر نکال رہا ہے جن میں افغانستان کا پڑوسی پاکستان سرفہرست ہے اور امریکا نے پاکستان کو مشورہ (حکم) دیا ہے کہ وہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ کو پکڑ لے اور اس کی جماعت کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دے لیکن حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا بینک اکاؤنٹ تو ہے ہی نہیں، پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور امریکا نے ان کے سر کی جو بھاری قیمت لگا رکھی ہے وہ بھی اگر کسی کی ہمت ہے تو اس سے وصول کرلے۔

امریکا کے اس اعلان کے بعد پاکستان نے حافظ صاحب کی سیکیورٹی کے لیے کوئی تین درجن محافظ لگا رکھے ہیں اس طرح ان کے سر کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ امریکا کا بس چلے تو وہ اسلام پرہی پابندی لگا دے لیکن اب تو کوئی قوم ایسی پیدا ہی نہیں ہوئی جو یہ جسارت کر سکے اور ایسی جرات دکھا سکے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو امریکی صدر بھارت کے دورے پر پہنچ چکے ہیں۔ امریکا بھارت کا ساتھی دوست اور محافظ ہے اور جناب صدر بھارت میں یہی تاثر دیں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہیں۔

دنیا کے ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کا چاہے ساتھ دے اور اپنے قومی مفاد کی حفاظت کرے۔ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کو یہ حق سب سے زیادہ ہے اور امریکا اپنے اعلان کے مطابق پوری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے اور ہر ملک میں انسانی مفادات کا محافظ ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے کسی قسم کی زحمت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم مدتوں سے شروع دن سے امریکی بلاک میں شامل ہیں اور دل و جان سے اس کے ساتھ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک امریکا کا محکوم ہے اور امریکا نے کسی نہ کسی طرح اسے قابو میں رکھا ہوا ہے۔


سعودی عرب کے ایک بادشاہ شاہ فیصل نے آزادانہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی اور بیت المقدس یعنی قبلہ اول میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو امریکا نے اسے شہید کرا دیا۔ جس کے بعد وہ بڑی حد تک سعودی عرب سے فارغ ہو گیا اسے خطرہ تھا کہ مسلمانوں کی اس مقدس سرزمین کی حفاظت ہر مسلمان کا ایمان ہے اور تاریخ میں جب بھی مسلمانوں کے ایمان کا سوال پیدا ہوا تو ان کو فتح نصیب ہوئی اس کی واضح مثال افغانستان ہے جہاں سے پہلے بھی اور آج بھی مغربی طاقتیں دم دبا کر بھاگ رہی ہیں۔

برطانیہ جب وہ ایک سپر پاور تھا تو 1842' 1880 اور 1919ء میں تین بار یہاں سے شکست کھا کر بھاگا، یہاں تک کہ ایک حملے میں تو افغانوں نے اس کی پوری فوج ختم کر دی سوائے ایک زخمی ڈاکٹر کے جس نے ہندوستان جا کر اپنی فوج کے انجام کی اطلاع دی۔ اب تو رسل و رسائل عام ہیں اور برطانیہ کے افغانستان سے اپنا یونین جیک اتارنے کی اطلاع دنیا بھر کو مل چکی ہے اس کے ساتھ امریکا بھی کچھ رکھ رکھاؤ کے ساتھ وہاں سے کھسک رہا ہے اور بے چارہ سوویت یونین یعنی روس تو وہاں سے ایسی بری حالت میں نکلا کہ اس کی سوویت یونین کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔

1991ء میں جب میں وسطی ایشیاء کی ریاستوں میں گیا تو انھیں روس سے نئی نئی آزادی ملی تھی اور ان کی قومی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ سوویت یونین کے قبضے میں ان کا حلیہ تک بدل دیا گیا۔ رسم الخط بدل کر انھیں ان کے قرآن سے بھی محروم کر دیا۔ کسی گھر میں قرآن پاک کا کوئی پھٹا ہوا ورق بھی ہوتا تو وہ اسے انتہائی ادب اور عقیدت کے ساتھ سنبھال کر رکھتا اور بچہ پیدا ہوتا تو بند مسجدوں میں سے کسی مسجد کی دیوار کے ساتھ اس کا جسم لگا کر برکت حاصل کرتا۔

سوویت یونین وسطی ایشیا سے آگے بڑھ کر افغانستان پر قابض ہو گیا جس کے بعد اس کی اصل منزل پاکستان تھی اور پھر گرم سمندر۔ میں نے روس کے سفیر سرور عظیموف سے انٹرویو کیا تو اس نے گرم پانی کے مشہور منصوبے کی تردید کی اور کہا کہ ہم 'کسی' پاکستانی کو کچھ رشوت دے کر بھی گرم پانی تک کا راستہ لے سکتے ہیں۔

ہمیں اس کے لیے جنگ کی کیا ضرورت ہے لیکن صدر ضیاء الحق نے افغانستان میں ہی روس یعنی سوویت یونین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم واصل کر دیا۔ اس میں امریکا نے بھی بلاشبہ مدد کی لیکن اسٹنگر میزائل کی حد تک، جانیں افغانوں نے قربان کیں اور جنگی منصوبہ پاکستان کے جنرل اختر نے بنایا اور ہم اس روسی عذاب سے بچ گئے۔ ہمارے روشن خیال، ضیاء الحق کی ایسی ہی چند کارروائیوں کی وجہ سے مخالف ہیں۔

اب پھر صورت حال ایسی بن رہی ہے کہ مغربی دنیا پاکستان کو پسند نہیں کرتی اور اس کے بم کو سخت ناپسند کرتی ہے لیکن مسیحی دنیا کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل بم وہ ہے جو ہر مسلمان کے سینے میں محفوظ ہے اور وہ یہ بم ہے اللہ تعالیٰ کی نصرت پر ایمان، اپنے رسولؐ کی مہربانی پر بھروسہ۔ افغانوں نے چار مرتبہ مغربی دنیاکو اپنے ہاں شکست دی جب کہ افغانوں کی طاقت نہ ہونے کے برابر تھی، درے کی بندوق اور پہاڑوں کے پتھر لیکن فتح مادی طاقت کی نہیں ایمان کی ہوئی۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستانی کچھ گھبرائے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان کی سچی مسلمان قیادت سے محرومی ہے لیکن ہر پاکستانی کو ایسی کسی پسندیدہ اور اسلامی قیادت کے بغیر اپنا قائد خود بننا ہو گا اور خدا نہ کرے کہ ہم کسی آزمائش میں پڑ جائیں لیکن پھر بھی کسی بھی آزمائش کے لیے تیار رہیں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ بھارت کا ہندو ہمارے مقابلے میں کچھ نہیں بشرطیکہ ہم اپنے ایمان پر قائم رہیں اور اللہ سے مدد مانگیں۔
Load Next Story