پتھر کا زمانہ اور کیا ہوتا ہے

جنگلی درختوں کا کچا پھل کھانا درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانکنا اور اس طرح کی آج کے مقابلے میں غیر انسانی زندگی بسر کرنا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
امریکا اپنی طاقت میں اندھا ہو کر کمزور ملکوں پر جب کبھی ناراض ہوتا ہے ان کی کسی حرکت کو امریکی منشاء و مرضی کے خلاف سمجھتا ہے یا کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ اسے دھمکی دیتا ہے کہ میں تمہیں پتھر کے دور میں لوٹا دوں گا۔ یعنی تمہاری وہی حالت کر دوں گا جو پتھر کے زمانے میں قوموں کی ہوا کرتی تھی۔ وہ زمانہ جو قدیم ترین انسانوں کا زمانہ تھا جس میں جدید زمانہ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی تھی اور انسانی زندگی ایک پتھر کی مانند تھی انتہائی سخت اور مشقت سے بھری ہوئی۔

جنگلی درختوں کا کچا پھل کھانا درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانکنا اور اس طرح کی آج کے مقابلے میں غیر انسانی زندگی بسر کرنا۔ آج بھی جب کسی کو انسانی آسائش کا سامان میسر نہیں ہوتا تو ایسی زندگی کو پتھر کے زمانے کی زندگی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ ہم پاکستانی بھی ان دنوں اگر پتھر کی پرانی زندگی سے تو نہیں لیکن اس سے ملتی جلتی زندگی سے ضرور گزر رہے ہیں۔ جدید دور کی سہولتیں اور آسانیاں اگرچہ ہمیں دکھائی گئی ہیں اور کچھ دیر ہم ان سے لطف اندوز بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ مدت بہت کم ہوتی ہے زیادہ تر ان سے محرومی ہی ہوتی ہے اور ہمارا وقت پتھر کے دور سے ہی گزرتا رہتا ہے۔

دور جدید کی سب سے بڑی نعمت اور سہولت بجلی ہے جس سے ہماری زندگی چلتی ہے اس سے روشنی ملتی ہے گرمی سردی کا مقابلہ کرنے کے طریقے ملتے ہیں۔ باورچی خانے کے آلات اور فریج وغیرہ اسی سے چلتے ہیں اور جدید زندگی کے کتنے ہی ذریعے اسی بجلی سے چالو ہوتے ہیں۔ ہمارے اخبار، ٹیلی وژن، سینما اور تھیٹر وغیرہ تفریح کے تمام ذریعے بجلی کے محتاج ہیں۔ ان آسائشوں کی فہرست بھی مکمل نہیں کی جا سکتی جو بجلی کی عنایت ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بجلی نہیں ہے۔

جہاں ہے وہاں یہ ہر گھنٹے کے وقفے سے ملتی ہے یعنی کوئی کام اگر آپ کسی بجلی والے گھنٹے کے شروع ہونے پر شروع کرتے ہیں تو اسے اسی گھنٹے میں ہی ختم کر دیں ورنہ وہ کام پھر کسی دوسرے بجلی والے گھنٹے میں چلا جائے گا اور اس وقت نہ جانے آپ کا کیا موڈ ہو گا اور کیا حالت ہو گی کہ آپ اس ادھورے کام کو مکمل کر سکیں گے اور نہ جانے کسی کام پر کتنے گھنٹے لگتے ہیں جو وقفے وقفے سے شروع اور ختم ہوتے ہیں۔ ایک شعر میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ

ع میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

اور اس کو بھی آدھا کر دیا۔ یوں سمجھیں کہ ہماری آپ کی زندگی قدرت نے تو جتنی بھی مقرر کی تھی۔ اس میں نصف کی کٹوتی ہم نے خود کرلی ہے۔ بڑھاپے سے ڈرنے والے خوش ہوں کہ وہ ابھی آدھے بوڑھے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی عملی طور پر دگنی ہو گئی ہے۔ ایک بجلی ہی نصف یا عملاً ختم کر دیں تو آپ خود بخود پتھر کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں کسی امریکی دھمکی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

ہمارے ہاں تو حد ہو گئی کہ پہلے گیس سے ایک صاف ستھری زندگی دی گئی لیکن پھر اسے بند کر دیا گیا اور اب یہ اگر کہیں ملتی ہے تو یوں کہ صبح ناشتہ تیار کر لیں اور رات کو کھانا، زیادہ سردی لگے تو گیس کا ہیٹر لگا لیں لیکن عین ممکن ہے ابھی تاپ کی سردی باقی ہو تو یہ غائب ہو جائے اور پھر کسی وقت اچانک آ جائے لیکن موت بن کر وہ یوں کہ اس کی بندش کے وقت اسے بند نہ کیا اور جب یہ کھل گئی تو اس کی کچی گیس کمرے میں بھر گئی اور آپ کنبے سمیت فوت ہو گئے یعنی اس سہولت میں موت بھی پوشیدہ ہے جو آپ کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیتی ہے۔


بجلی گیس اپنی جگہ اب تو پٹرول بھی بند ہونا شروع ہو گیا ہے۔ زندگی جاری رکھنے کا ایک ایسا ذریعہ جو آپ خرید سکتے ہیںاور اسے عوام کے ہاتھوں نفع پر بیچ سکتے ہیں لیکن بدانتظامی کا یہ کمال ہے کہ ایسی نفع بخش چیز بھی آپ بروقت نہیں خریدتے اور خلق خدا کو ذلیل و رسواء کر دیتے ہیں جو لوگ پٹرول پمپوں پر بوتلیں لے کر موٹر سائیکلوں کے لیے پٹرول لینے جاتے ہیں ان کو گداگر کہہ کر وزرا حضرات ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ نہ ہوا کوئی منصف حکمران ورنہ وہ ایسے بدزبان وزیر کی زبان ہی کٹوا دیتا اور باقی زندگی وہ پتھر کے دور میں بسر کر دیتے پھر کسی کا مذاق اڑانے کے قابل ہی نہ رہتے صرف اُوں آں کرتے رہ جاتے۔ اگر چور کا ہاتھ کاٹا جا سکتا ہے تو کسی بدزبان کی زبان کیوں نہیں۔

بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے کسی امریکی دھمکی کے بغیر ہی ہمیں پتھر کے دور میں بھجوا دیا ہے اور خود عیش کر رہی ہے۔ برفیلی سردیوں میں مری کا موسم سیاحوں کا پسندیدہ موسم ہوتا ہے معلوم ہوا کہ یہ موسم ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی سیاحوں کی طرح پسندیدہ ہوتا ہے کہ وہ کثیر سرکاری اخراجات کے ساتھ مری میں دربار لگاتے ہیں اور وہ فیصلے جو کسی فٹ پاتھ کے چائے خانے میں بھی ہو سکتے تھے وہ مری میں جا کر ہوتے ہیں ایک فارسی شعر یاد آ رہا ہے چونکہ فارسی نقل کرنے میں دقت ہوتی ہے اس لیے صرف ریڈر حضرات کی سہولت کے لیے ترجمہ ملاحظہ کریں کہ

میرے کشادہ دل مہربان کے لیے کوہ و بیاباں سب برابر ہیں
کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے خیمہ گاڑنے کا حکم دیتا ہے اور دربار آراستہ کر لیتا ہے
صاحب ذوق حضرات کے لیے اب شعر بھی لکھ دیتے ہیں جیسا بھی چھپے وہی پڑھ لیں ؎

منعم مرا بکوہ و بیاباں برابر است
ہر جا کہ رفت خیمہ کرد و بارگاہ ساخت

بہر کیف حالات جو بھی ہیں اب ان کے بیان کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سب نہ اندھے ہیں نہ بے حس۔ میں تو لاہور کے حالات کو دیکھ کر اپنے گاؤں کی وہ زندگی یاد کررہا ہوں جب میں پیدا ہوا اور بڑا ہوا تو میرے گاؤں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ بجلی نہ گیس نہ پٹرول وغیرہ۔ روشنی کے لیے مٹی کا دیا جس میں تیل اور کپاس کی بتی بنا کر ڈال دی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ رات کو جب اسے بجھانے کا وقت ہوتا تو گھر میں بحث ہوتی کہ کون اسے بجھائے گا کیونکہ اس کے بجھنے پر جو بدبو پیدا ہوتی سب اس سے بھاگتے تھے۔ کسی نوکر کی شامت آ جاتی۔

سفر کے لیے گھوڑے یا پیدل بیماری کے لیے حکیم اور زندگی کی ضروریات کے لیے زمین کی فصل اور بس۔ یہ مختصر سی زندگی جو جدید دور کی نام نہاد سہولتوں یا آلائشوں سے پاک ہوتی تھی یہ پتھر کے زمانے کی زندگی تھی۔ خود لاہور میں 1930ء کے قریب بجلی آئی تھی اور یہ شہر بھی میرے گاؤں کی طرح پتھر کے زمانے کا ہی ایک شہر تھا۔ جس میں بادشاہ قلعے اور محل بناتے تھے اور غریب عوام مٹی کے دیے جلاتے تھے لیکن آج کے مقابلے میں بادشاہوں کی زندگی بھی ایک طرح کی پتھر کی زندگی ہوتی تھی نہ بجلی نہ گیس نہ پٹرول۔ ہر طرح کی مشقت کے لیے عام انسان جو مشعلیں اٹھا کر چلتے تھے اور محلوں کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھوتے تھے۔ ہم تو آج بھی قریب قریب پتھر کے دور کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں کوئی ہمیں پتھر کے زمانے کی دھمکیاں نہ دے۔
Load Next Story