ایک لکیر

سید نور اظہر جعفری  ہفتہ 31 جنوری 2015

کبھی کبھی انسان ایک ایسے عالم میں ہوتا ہے جب اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پیش آمدہ معاملے پرکس طرح ردعمل ظاہرکرے۔ دکھ اور افسوس کا ایک ایسا عالم ہوتا ہے کہ جہاں آپ اپنے آپ کو دنیا کا حقیر ترین فرد اور اپنی قوم کو دنیا کی حقیر ترین قوم سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس خطے میں صدیوں حکمرانی کی اور ہمارے دور حکمرانی کی یادگاریں پورے برصغیر کے سینے پر ثبت ہیں چاہے وہ آگرہ کا تاج محل ہو۔ دہلی کا قطب مینار یا لاہور کا شاہی قلعہ یہ سب مسلمانوں کی انسان دوستی کی یادگاریں ہیں۔

ان عمارتوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے گردوارے اور ہندوؤں کے مندر، بدھوں کی عبادت گاہیں۔ یہ سب اعلان کرتے ہیں کہ اس خطہ ارضی برصغیر پر مسلمانوں نے عدل اور مساوات کے ساتھ حکومت کی اور اگر ان کے اپنے اندر اقتدار اور مسند کی رسہ کشی رہی بھی تو اس سے غیر مسلم متاثر نہیں ہوئے اور تمام لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے دھرم پر قائم رہنے کی اجازت تھی اور اس سلسلے میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں تھی۔

اکبر اور جودھا کا رشتہ برصغیرکی محبت کی ایک داستان ہے اور اس کا محبت کے ساتھ ساتھ رواداری کے اظہار کا بھی ایک رشتہ تھا کہ مسلمان کسی پر ظلم نہیں کرتے اور جو مسلمانوں کی حاکمیت کو تسلیم کرلیں ان سے اتنے قریبی رشتے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بات کا مذہبی تناظر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک انداز حکمرانی اور سیاست کی بات ہے۔

مگر برصغیر میں انگریز کی آمد کے بعد جس طرح ہندوؤں نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ مسلمانوں کی حکمرانی ختم کرنا چاہتے تھے اور انگریز نے بھی ہندوؤں اور کچھ مسلمانوں کو مفاد پرستی جن کا ایمان تھا اور جو مسلمانوں کے ’’میرجعفر‘‘ تھے خوب اس مقصد کے تحت استعمال کیا۔

صدیوں ساتھ رہنے والی قومیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئیں اس میں انگریزوں کی سیاست اور ہندوستان کے ہندوؤں کی سازشی سرشت نے خوب کام کیا۔ یوں اندازہ ہوگیا کہ اب مزید برصغیر میں ہندو مسلم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں نے کانگریس میں رہ کر بھی دیکھ لیا کہ اس کے کرتا دھرتا صرف ہندو مفادات کے لیے کام کر رہے تھے۔

اس حقیقت نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور مسلمان زعما  خان لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا ظفرعلی خان،علی برادران اور بے شمار مسلم خاندانوں کے اعلیٰ لوگوں کو اکٹھا کردیا مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھ میں تھا جو میر کارواں تھے۔

یوں پاکستان شدید جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ کشمیر جو پاکستان کو ملنا تھا اس پر ہندوستان نے ایک سازش کے تحت قبضہ کرلیا جس پر صوبہ سرحد نے کشمیر کی جنگ لڑی ایک حصے کو آزاد کرایا ہندوستان سے جسے آزاد کشمیر کہتے ہیں۔ بعد میں بھارت نے سیاچن پر بھی دھوکے سے قبضہ کرلیا جو پاکستان کا علاقہ ہے اسے حاصل کرنے کے لیے کارگل رونما ہوا جو بہت دیر سے ہوا۔ بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان، کشمیر، دریاؤں کے پانی کی تقسیم میں بھارت کی بے ایمانی اور ہٹ دھرمی سیاچن اور کئی سرحدی مسائل درپیش ہیں جو حل طلب ہیں اور موجودہ حکومت سے پیشتر تک تمام حکومتیں اس خارجہ پالیسی کی علمبردار ہیں۔

جس پارٹی کی آج پاکستان میں حکومت ہے یہ کہلاتی تو مسلم لیگ ہے، مگر حیرت ہے کہ اس کی تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ یہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دلوانے پر سرگرم ہے اور بھارت میں ہمیں ہر سطح پر بے عزت کیا جا رہا ہے بھارت کی اسپیکر نے ہمارے قومی اسمبلی کے ممبروں کو ملاقات کی دعوت دے کر ملنے سے انکار کردیا۔ ہمارے پاک اور کبڈی کے کھلاڑیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے اور بے ایمانی کرکے ان کو چیمپئن شپ سے محروم کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان نے سیفما کے اجلاس میں کہا کہ ہم ایک ہیں ہماری ثقافت ایک ہے یہ سرحد تو بس ایک لکیر ہے۔وزیر اعظم پاکستان کو معلوم ہوگا کہ بھارت نے چین سے بھارت میں انفرااسٹرکچر میں پاکستان کی مدد کرنے پر اعتراض کیا ہے اور خود وزیر اعظم پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے تعمیر کردہ ناجائز ڈیمز پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور پاکستان آہستہ آہستہ بنجر ہو رہا ہے۔

کیا یہ تصور پاکستان، جدوجہد پاکستان، لاکھوں مہاجرین کی جانوں کے نذرانے کی تضحیک نہیں۔ سیفما کے اجلاس میں یہ الفاظ پاکستان کے لیے ’’زہر قاتل‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اگر سچ بولنے کا اتنا ہی شوق ہے تو 1970کے سچ کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا جب عوامی لیگ نے پاکستان کے الیکشن میں اکثریت حاصل کی تھی اور پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہونی چاہیے تھی اور اس طرح مغربی پاکستان کی پارٹیوں کی تو باری ہی نہیں آتی۔ انھیں حزب اختلاف میں رہنا پڑتا ۔

آج ساری پارٹیاں ایک طرف اور تحریک انصاف ایک طرف۔ ہم صرف حالات کو پیش کر رہے ہیں۔ ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کو اگر اقتدار مل جائے تو وہ اس ملک کے ساتھ کیا کرے گی ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ جب تک آزما نہ لیں تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف وہ کچھ ’’ڈلیور‘‘ کردے گی جو دوسری جماعتیں نہ کرسکیں۔ اب تک کا ریکارڈ تو ٹھیک ہے تحریک انصاف کا۔ مگر ایک بات جو روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ سیاستدانوں نے  ’’مشترکہ محاذ‘‘ قائم کرلیا تھا جس کا مقصد یہی تھا کہ وہ قوم کو جس طرح چاہیں ’’بے وقوف‘‘ بنائیں، لوٹیں یا ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیں۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہ ہو۔ پشاور کے واقعے نے ان خواہشات کو ناکام بنادیا ہے۔

عدالت اپنے قوانین کے تحت عمل کرتی ہے اور ہر چند کہ آزاد ہے مگر اب احتیاط سے بہت زیادہ کام لیا جا رہا ہے۔ پشاور پبلک اسکول نے قوم کو ایک کردیا ہے یعنی سیاستدان بھی اب کچھ سوچنے لگے ہیں قوم کے بارے میں۔ مگر فوج اور عدالت دونوں کو ان تمام حالات کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔

حکمرانوں کے عزائم کو ’’تحفظ پاکستان‘‘ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ یہ بہت ضروری ہے۔ وقت نکل گیا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے اور دنیا کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔ پاکستان دوستی اور پاکستان دشمنی کی سرحدیں واضح کرنی پڑیں گی اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی کرنا پڑے گا۔

یہ بہت ضروری ہے ہم اپنے بچوں کو کیا منہ دکھائیں گے ان کو کیا وراثت دیں گے۔ جس سرحد کو ایک لکیر قرار دے رہے ہیں یہ لاکھوں شہیدوں کے خون اور ماں بہنوں کی عزتوں سے تعمیر ہوئی ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ کسی کے ذاتی مفادات کی خاطر یہ سرحد ختم نہیں ہوگی اس کا ثبوت واہگہ بارڈر پر پیش آنے والے واقعے اور لاہور کے عوام کے ردعمل نے دے دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔