تمہارے در پہ جنت منتظر ہے
اب ذرا دریائے سندھ پر نظر ڈالیے ۔ تاریخی اہمیت کی حامل اس مہا ندی نے جو بہت مقدس بھی ہے,ایک پوری تہذیب کو جنم دیا ہے۔
tishna.brelvi@yahoo.com
ایک عظیم الشان منصوبہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو بے حد خوشحال بنانے کے لیے کب سے منتظر ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے ابھی تک اس حقیقت کو اپنی فکر وشعور کا حصہ نہیں بنایا ہے کہ اب بین الاقوامی تعاون کے بغیرکوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا اور موجودہ عہد کا تقاضہ ہے کہ اختلافات کے باوجود ملکوں کے درمیان تعاون قائم رہے۔
اس لیے کہ دریا' پہاڑ' سمندر' موسم' زلزلے' سیلاب ' طوفان وغیرہ سرحدوں کی پروا نہیں کرتے۔ان سب کا مقابلہ مل کر ہی کیا جاسکتا ہے اور باہمی تعلقات میں تعصب برتنے والا خود اپنا ہی دشمن ہوتا ہے۔ قدرت نے برصغیر کے شمال مغربی خطے کو ایک زبردست نعمت عطا فرمائی ہے ۔ طویل پہاڑی سلسلوں اورگلیشیروں کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا قابلِ رشک نظام ۔ کاش پاک و ہند (الگ ملک رہتے ہوئے)اس عظیم تحفے سے پورا فائدہ اُٹھاسکتے اور خوشحالی میں یورپ کا مقابلہ کرسکتے ۔کاش ہم ایک انڈس ویلی اتھارٹی (INDUS VALLEY AUTHORITY) قائم کرسکتے ۔
درجنوں ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرسکتے'سیلاب کا سد باب کرسکتے' بے اندازہ بجلی پیدا کرسکتے'کھاد تیارکرسکتے 'جنگلات لگاسکتے 'لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتے'ہر قسم کی فصل وافر مقدارمیں برآمدکرکے اربوں ڈالرکماسکتے ۔ ٹورسٹوں کے لیے شاندار تفریحی مقامات بناسکتے۔ عوام کا معیارِ زندگی اتنابلند کرسکتے کہ یورپ کے مڈل انکم والے ممالک ہم پر رشک کرتے۔
یہ خواب وخیال کی باتیں نہیں ہیں ۔یہ سب کچھ ہوچکا ہے اور ساری دنیا سے خراج تحسین وصول کرچکا ہے۔ مگر یہ معجزہ ہمارے برصغیر میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ امریکا میں۔ اس کامیاب تاریخی منصوبے کو آگے بڑھانے والے صدرروز ویلٹ نے اتنی زبردست مقبولیت حاصل کی کہ وہ چار بار صدر منتخب ہوا ۔ تیسری اورچوتھی بار روز ویلٹ وہیل چئیر پرہونے کے باوجود صدر چنا گیا۔
اکتوبر 1929کے وال اسٹریٹ کریش (WALL STREET CRASH)کے بعد امریکا کا وسطی حصہ کسی افریقی ملک کا نقشہ پیش کررہا تھا ۔ بھوک' افلاس'بیروزگار ی عام، صنعت و زراعت تباہ ۔1932میں فرینکلین روز ویلٹ نئی امیدوں اورنئی امنگوں کے ساتھ صدر منتخب ہوا اور فوراً ہی اس نے (TENNESSEE VALLEY AUTHORITY)کے نام سے ایک نیا منصوبہ تیار کروایا اور 1933میںکانگریس سے چارٹر کرالیاتاکہ دریائے ٹنی سی اور اس کی معاون ندیوں کا علاقہ جو سات ریاستوں پر مشتمل ہے ' زرعی اور صنعتی اعتبار سے ترقی کرسکے ۔ زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر سیلاب کی روک تھام کی جاسکے ' پانی ذخیرہ کیا جاسکے ۔
وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکے'کھاد تیار کی جاسکے'زرعی پیداوار بڑھائی جاسکے ۔عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے جنگلات بنائے جاسکیں۔ دریائی نقل وحمل کو مزید بہتر بنایا جاسکے ۔ روزگار میں زبردست اضافہ کیا جائے اور اس علاقے کا معیار زندگی بلند کیا جاسکے ۔خوش قسمتی سے TVAکو آرتھر مارگن جیسے قابل ڈائریکٹرز مل گئے جو اپنے کام میں ماہر تھے ۔ساتھ ہی صدر روز ویلٹ کو برطانوی ماہر اقتصادیات لارڈ مینرڈ کینز LORD MAYNARD KEYNESکی سفارشات سے بھی مدد ملی ۔ اس کی ایک سفارش نے تو امریکا میںانقلاب برپا کردیا۔
''ہرحالت میں اپنے صنعتی مزدوروں (اورکسانوں) کو خوش رکھو ۔ ان کو سپاہیوں کی طرح استعمال کرو۔بھوکا سپاہی تو اپنے افسرکو بھی قتل کردیتا ہے لیکن پیٹ بھرا سپاہی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوجاتا ہے ۔بیروزگاری ختم کرو ، حاکم اعلیٰ اکاؤنٹنٹ نہ بنے جس کوہر وقت بیلنس شیٹ برابر کرنے کاخیال رہتا ہے بلکہ خاندان کا سرپرست بنے ۔ قرضے لے کر ، سونا فروخت کرکے ، امیروں پر ٹیکس لگا کر اور سود کی شرح گھٹا بڑھا کر کام چلائے یعنی DEFIClT FINANCINGپر عمل کرے ۔ خوش وخرم کارکن تمہارے سب مسائل حل کردیں گے۔''یاد رہے کہ اس سے پہلے اس اصول پر جرمن ڈکٹیٹراڈولف ھٹلر نے عمل کرکے جرمنی کو بے حد خوشحال اور طاقتور بنا دیا تھا ۔
کاش ہمارے حکمران کسی اور سے نہیں تو ہٹلر سے ہی کچھ سیکھ لیں۔TVAنے دوسری جنگ عظیم میں بھی زبردست خدمات انجام دیں۔گولہ بارود کے لیے امونیم نائٹریٹ پیدا کی اور ہزاروں لڑاکا طیاروں کے لیے المونیم اور پھر مین ہٹن پراجیکٹ MANHATAN PROJECT(ایٹم بم کی تیاری) میں بھی TVAکا اہم رول رہا۔ ژاںپوں ساغت (فرانس کے مشہور کمیونسٹ مصنف) SARTREنے بھی یہاں کا دورہ کیا اور اس منصوبے کی تعریف کی کیونکہ اس سے غریب کسانوںاور مزدوروںکو بہت فائدہ ہوا۔ TVAمنصوبہ روز ویلٹ کے NEW DEAL کا اہم حصہ ہے اور اس سے صنعتی اور برقی انقلاب آیا ہے۔
اب ذرا دریائے سندھ پر نظر ڈالیے ۔ تاریخی اہمیت کی حامل اس مہا ندی نے جو بہت مقدس بھی ہے,ایک پوری تہذیب کو جنم دیا ہے ۔ تبت 'کشمیر پاکستان اور ہندوستان کو سیراب کرنے والا یہ دریا اور اس کے دو درجن معاون دریا دنیا کے عظیم آبی نظاموں میں شامل ہیں ۔ دریائے سندھ کی لمبائی دوہزار میل ہے اور اس کا طاس تقریباً پانچ لاکھ مربع میل ہے۔ جب کہ دریائے ٹنسی صرف 700میل لمبا ہے اور اس کا طاس 40ہزار مربع میل ہے ۔ انگریزی دورمیں ایک بہت کامیاب نہری نظام بھی وجود میں آیا جس نے پنجاب کے دیہات کوسیراب کیا لیکن اس زمانے میں ڈیم بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ۔
جب بھی کوئی بڑا ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم بنتا ہے تو کچھ علاقہ تو زیر آب ضرور آتا ہے اور آبادی کو منتقل ہونا پڑتا ہے ۔ مصر کے اسوان ڈیم کو یاد کیجیے ۔ وہاںنہ صرف آبادی بلکہ فراعنہ کے دیو ہیکل مجسمے بھی دوسری جگہ منتقل کیے گئے ۔کالا باغ ڈیم کا ذکرکئی عشروں سے سن رہے ہیں مگر کام آگے نہیں بڑھا۔نواب کالا باغ کی وجہ سے کالا باغ بدنام ہے ۔کاش کالا باغ ڈیم کے بجائے اس کا نام '' باچا خان ڈیم '' رکھ دیا جائے تو وہاں کے باشندوںکواعتراض نہیں ہوگا ، مگر اس آسان حل کی طرف کون توجہ دے ۔ ہندوستانی پنجاب میں ستلج پر بھاکڑا ننگل ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا کہ یہ ڈیم نئے ہندوستان کے مندر ہیں اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔
یاد رکھو دوستو ہر ڈیم ہے اک امتحان
آزماتی ہیں وطن کو ایسی تعمیریں بہت
(تشنہ)
''ٹنسی ویلی اتھارٹی'' کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لیلن تھالDAVID LILIENTHALنے60سال پہلے برصغیر کا دورہ کیا تھا اوردریائے سندھ کے علاقے کا معائنہ کرنے کے بعد جو تجاویزپیش کیں ان میں اہم یہ تھیں ''ہندوستان اور پاکستان مل کردریائے سندھ کے تمام آبی وسائل کو ترقی دیں ۔ نئے ڈیم بنائیں ' آبپاشی کا نظام بہتر بنائیں ۔زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کریں اور زرعی اور صنعتی ترقی کے ساتھ روزگار کے بے شمار مواقعے پیدا کریں۔''
کون نہیں جانتا کہ بیروزگاری اور دہشت گردی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ بیروزگار نوجوان سب کچھ کرسکتا ہے۔قتل بھی اورخود کشی بھی۔ انڈس ویلی اتھارٹی جیسے بڑے منصوبوںکے لیے بڑے آدمی چاہئیں جو طویل منصوبہ بندی کرسکیں مگر ہمارے حکمران سب چھوٹے آدمی ہیں۔ خواب غفلت کا شکار ۔ ان سے کیا امید رکھیں۔
زمانے بھرکی دولت منتظر ہے
مسرت اور عشرت منتظر ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو
تمہارے در پہ جنت منتظر ہے
(تشنہ)
اس لیے کہ دریا' پہاڑ' سمندر' موسم' زلزلے' سیلاب ' طوفان وغیرہ سرحدوں کی پروا نہیں کرتے۔ان سب کا مقابلہ مل کر ہی کیا جاسکتا ہے اور باہمی تعلقات میں تعصب برتنے والا خود اپنا ہی دشمن ہوتا ہے۔ قدرت نے برصغیر کے شمال مغربی خطے کو ایک زبردست نعمت عطا فرمائی ہے ۔ طویل پہاڑی سلسلوں اورگلیشیروں کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا قابلِ رشک نظام ۔ کاش پاک و ہند (الگ ملک رہتے ہوئے)اس عظیم تحفے سے پورا فائدہ اُٹھاسکتے اور خوشحالی میں یورپ کا مقابلہ کرسکتے ۔کاش ہم ایک انڈس ویلی اتھارٹی (INDUS VALLEY AUTHORITY) قائم کرسکتے ۔
درجنوں ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرسکتے'سیلاب کا سد باب کرسکتے' بے اندازہ بجلی پیدا کرسکتے'کھاد تیارکرسکتے 'جنگلات لگاسکتے 'لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتے'ہر قسم کی فصل وافر مقدارمیں برآمدکرکے اربوں ڈالرکماسکتے ۔ ٹورسٹوں کے لیے شاندار تفریحی مقامات بناسکتے۔ عوام کا معیارِ زندگی اتنابلند کرسکتے کہ یورپ کے مڈل انکم والے ممالک ہم پر رشک کرتے۔
یہ خواب وخیال کی باتیں نہیں ہیں ۔یہ سب کچھ ہوچکا ہے اور ساری دنیا سے خراج تحسین وصول کرچکا ہے۔ مگر یہ معجزہ ہمارے برصغیر میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ امریکا میں۔ اس کامیاب تاریخی منصوبے کو آگے بڑھانے والے صدرروز ویلٹ نے اتنی زبردست مقبولیت حاصل کی کہ وہ چار بار صدر منتخب ہوا ۔ تیسری اورچوتھی بار روز ویلٹ وہیل چئیر پرہونے کے باوجود صدر چنا گیا۔
اکتوبر 1929کے وال اسٹریٹ کریش (WALL STREET CRASH)کے بعد امریکا کا وسطی حصہ کسی افریقی ملک کا نقشہ پیش کررہا تھا ۔ بھوک' افلاس'بیروزگار ی عام، صنعت و زراعت تباہ ۔1932میں فرینکلین روز ویلٹ نئی امیدوں اورنئی امنگوں کے ساتھ صدر منتخب ہوا اور فوراً ہی اس نے (TENNESSEE VALLEY AUTHORITY)کے نام سے ایک نیا منصوبہ تیار کروایا اور 1933میںکانگریس سے چارٹر کرالیاتاکہ دریائے ٹنی سی اور اس کی معاون ندیوں کا علاقہ جو سات ریاستوں پر مشتمل ہے ' زرعی اور صنعتی اعتبار سے ترقی کرسکے ۔ زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر سیلاب کی روک تھام کی جاسکے ' پانی ذخیرہ کیا جاسکے ۔
وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکے'کھاد تیار کی جاسکے'زرعی پیداوار بڑھائی جاسکے ۔عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے جنگلات بنائے جاسکیں۔ دریائی نقل وحمل کو مزید بہتر بنایا جاسکے ۔ روزگار میں زبردست اضافہ کیا جائے اور اس علاقے کا معیار زندگی بلند کیا جاسکے ۔خوش قسمتی سے TVAکو آرتھر مارگن جیسے قابل ڈائریکٹرز مل گئے جو اپنے کام میں ماہر تھے ۔ساتھ ہی صدر روز ویلٹ کو برطانوی ماہر اقتصادیات لارڈ مینرڈ کینز LORD MAYNARD KEYNESکی سفارشات سے بھی مدد ملی ۔ اس کی ایک سفارش نے تو امریکا میںانقلاب برپا کردیا۔
''ہرحالت میں اپنے صنعتی مزدوروں (اورکسانوں) کو خوش رکھو ۔ ان کو سپاہیوں کی طرح استعمال کرو۔بھوکا سپاہی تو اپنے افسرکو بھی قتل کردیتا ہے لیکن پیٹ بھرا سپاہی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوجاتا ہے ۔بیروزگاری ختم کرو ، حاکم اعلیٰ اکاؤنٹنٹ نہ بنے جس کوہر وقت بیلنس شیٹ برابر کرنے کاخیال رہتا ہے بلکہ خاندان کا سرپرست بنے ۔ قرضے لے کر ، سونا فروخت کرکے ، امیروں پر ٹیکس لگا کر اور سود کی شرح گھٹا بڑھا کر کام چلائے یعنی DEFIClT FINANCINGپر عمل کرے ۔ خوش وخرم کارکن تمہارے سب مسائل حل کردیں گے۔''یاد رہے کہ اس سے پہلے اس اصول پر جرمن ڈکٹیٹراڈولف ھٹلر نے عمل کرکے جرمنی کو بے حد خوشحال اور طاقتور بنا دیا تھا ۔
کاش ہمارے حکمران کسی اور سے نہیں تو ہٹلر سے ہی کچھ سیکھ لیں۔TVAنے دوسری جنگ عظیم میں بھی زبردست خدمات انجام دیں۔گولہ بارود کے لیے امونیم نائٹریٹ پیدا کی اور ہزاروں لڑاکا طیاروں کے لیے المونیم اور پھر مین ہٹن پراجیکٹ MANHATAN PROJECT(ایٹم بم کی تیاری) میں بھی TVAکا اہم رول رہا۔ ژاںپوں ساغت (فرانس کے مشہور کمیونسٹ مصنف) SARTREنے بھی یہاں کا دورہ کیا اور اس منصوبے کی تعریف کی کیونکہ اس سے غریب کسانوںاور مزدوروںکو بہت فائدہ ہوا۔ TVAمنصوبہ روز ویلٹ کے NEW DEAL کا اہم حصہ ہے اور اس سے صنعتی اور برقی انقلاب آیا ہے۔
اب ذرا دریائے سندھ پر نظر ڈالیے ۔ تاریخی اہمیت کی حامل اس مہا ندی نے جو بہت مقدس بھی ہے,ایک پوری تہذیب کو جنم دیا ہے ۔ تبت 'کشمیر پاکستان اور ہندوستان کو سیراب کرنے والا یہ دریا اور اس کے دو درجن معاون دریا دنیا کے عظیم آبی نظاموں میں شامل ہیں ۔ دریائے سندھ کی لمبائی دوہزار میل ہے اور اس کا طاس تقریباً پانچ لاکھ مربع میل ہے۔ جب کہ دریائے ٹنسی صرف 700میل لمبا ہے اور اس کا طاس 40ہزار مربع میل ہے ۔ انگریزی دورمیں ایک بہت کامیاب نہری نظام بھی وجود میں آیا جس نے پنجاب کے دیہات کوسیراب کیا لیکن اس زمانے میں ڈیم بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ۔
جب بھی کوئی بڑا ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم بنتا ہے تو کچھ علاقہ تو زیر آب ضرور آتا ہے اور آبادی کو منتقل ہونا پڑتا ہے ۔ مصر کے اسوان ڈیم کو یاد کیجیے ۔ وہاںنہ صرف آبادی بلکہ فراعنہ کے دیو ہیکل مجسمے بھی دوسری جگہ منتقل کیے گئے ۔کالا باغ ڈیم کا ذکرکئی عشروں سے سن رہے ہیں مگر کام آگے نہیں بڑھا۔نواب کالا باغ کی وجہ سے کالا باغ بدنام ہے ۔کاش کالا باغ ڈیم کے بجائے اس کا نام '' باچا خان ڈیم '' رکھ دیا جائے تو وہاں کے باشندوںکواعتراض نہیں ہوگا ، مگر اس آسان حل کی طرف کون توجہ دے ۔ ہندوستانی پنجاب میں ستلج پر بھاکڑا ننگل ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا کہ یہ ڈیم نئے ہندوستان کے مندر ہیں اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔
یاد رکھو دوستو ہر ڈیم ہے اک امتحان
آزماتی ہیں وطن کو ایسی تعمیریں بہت
(تشنہ)
''ٹنسی ویلی اتھارٹی'' کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لیلن تھالDAVID LILIENTHALنے60سال پہلے برصغیر کا دورہ کیا تھا اوردریائے سندھ کے علاقے کا معائنہ کرنے کے بعد جو تجاویزپیش کیں ان میں اہم یہ تھیں ''ہندوستان اور پاکستان مل کردریائے سندھ کے تمام آبی وسائل کو ترقی دیں ۔ نئے ڈیم بنائیں ' آبپاشی کا نظام بہتر بنائیں ۔زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کریں اور زرعی اور صنعتی ترقی کے ساتھ روزگار کے بے شمار مواقعے پیدا کریں۔''
کون نہیں جانتا کہ بیروزگاری اور دہشت گردی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ بیروزگار نوجوان سب کچھ کرسکتا ہے۔قتل بھی اورخود کشی بھی۔ انڈس ویلی اتھارٹی جیسے بڑے منصوبوںکے لیے بڑے آدمی چاہئیں جو طویل منصوبہ بندی کرسکیں مگر ہمارے حکمران سب چھوٹے آدمی ہیں۔ خواب غفلت کا شکار ۔ ان سے کیا امید رکھیں۔
زمانے بھرکی دولت منتظر ہے
مسرت اور عشرت منتظر ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو
تمہارے در پہ جنت منتظر ہے
(تشنہ)