وہ گمنام کالم نویس
تین اخبار بدلے ہیں اور تینوں پالیسی اختلاف کی بنیاد پر اب قسمت سے ایک ایسا اخبار ملا ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
میرے ذہن کے سامنے موضوعات کا ایک انبار رکھا ہوا ہے لیکن مجھ میں اب اتنی ہمت باقی نہیں رہی کہ اس انبار کو ہاتھ بھی لگا سکوں اس پر لکھنا تو دور کی بات ہے اور وجہ شاید یہ ہے کہ کالم نگاری کی جو مٹی ان دنوں پلید کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے اور صحافت کی اس صنعت کو جس قدر رسوا کیا گیا ہے اس کی کوئی مثال تو بڑی بات ہے اس کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔ نہایت ہی جرات مندانہ خوشامد بلا تکلف دروغ نویسی اور سامنے کے حقائق کو جھٹلانے کا وتیرہ اور نہ جانے کیا کچھ یہ سب آج کے اکثر و بیشتر کالموں کا موضوع ہے۔
پتہ نہیں برسوں پہلے کس چکر میں پھنس کر اخبار کی رپورٹنگ کے ساتھ کالم نگاری بھی شروع کر دی تھی کیونکہ کئی خبریں ایسی ہوتی تھیں جو نہ تو بطور خبر اخبار میں چھپ سکتی تھیں اور نہ ہی ادارتی موضوع بن سکتی تھیں۔ ایک آدھ بار ایسی ہی لاوارث اور آوارہ خبروں کا کالم بنایا تو ایڈیٹر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انھوں نے نیوز ایڈیٹر سے کہا کہ میں نے اسے کالم نویسی کے لیے بھیجا تھا لیکن آپ نے اسے خبروں کی ترتیب میں الجھا دیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مشکل کام کرنا پڑ گیا جو اس زمانے میں نیا نیا تھا کیونکہ ان دنوں اخباروں میں کالم نہیں ہوا کرتے تھے بس لے دے کر ایک کالم ہوتا تھا جو ادارتی صفحہ پر اداریہ کے بغل میں چھپتا تھا اور مصنف کے نام کے بغیر یہ ایک طنزیہ اور مزاحیہ کالم ہوتا تھا اور اس کے لکھنے والوں میں مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرت، مولانا نصراللہ خان عزیز، حاجی لق لق بعد میں مجید نظامی جیسے لوگ شامل تھے لیکن یہ سب نام کے بغیر یعنی گمنام کالم نویس۔ یہ صحافت کے وہ جید لوگ تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے بلند معیار کی وجہ سے صحافت کی اس صنف میں بعد میں آنے والوں کے لیے بے حد مشکلات پیدا کر دیں۔ انھوں نے تحریر کا ایک اتنا اونچا معیار قائم کر دیا کہ اس تک کئی سیڑھیاں لگا کر بھی پہنچنا مشکل ہوتا تھا۔ پھر ان استادوں کی اگر آپس میں کبھی چھیڑ چھاڑ ہو جاتی تو نکتہ آفرینیوں کے معجزے ظہور میں آتے۔ ایک بار مولانا چراغ حسن حسرت اور شورش کاشمیری میں کسی سیاسی بات پر ان بن ہو گئی۔ دونوں اعلیٰ نثر نگار ہونے کے ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔
مولانا حسرت بہت کم گو لیکن بلند مرتبہ شاعر تھے۔ دونوں حضرات نے نظم و نثر میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور حسرت صاحب جب اس نزاع میں سنجیدہ ہو گئے تو انھوں نے شعر کا سہارا لے کر آغا شورش کو خاموش کر دیا۔ آغا صاحب مولانا کے دفتر میں جا کر ان سے معذرت خواہ ہو گئے اور معافی تلافی ہو گئی ورنہ آغا صاحب کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا لیکن حتی الوسع یہ بڑے لوگ شائستگی کو عزیز رکھتے تھے۔ سرراہ سن لیجیے کہ حسرت صاحب کافی ہاؤس میں بیٹھا کرتے تھے اور قریب ہی پنجاب پبلک لائبریری میں بھی آتے جاتے رہتے تھے جہاں میرا بھی ڈیرہ ہوتا تھا۔
کبھی راستے میں ملاقات ہو جاتی میں ادب سے سلام کرتا انھوں نے ایک بار پوچھا کہ عزیزم کیا کرتے ہو میں نے لکھنے کے پیشے کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان دنوں ترجمہ کا کام کر رہا ہوں، انھوں نے چلتے چلتے یہ نصیحت کی کہ ترجمہ نہیں لکھنے کی کوشش کرو۔ ان دنوں میں ایک اخبار میں بھی کبھی کبھار لکھتا تھا شاید کوئی تحریر ان کی نظر سے بھی گزری ہو حسب معمول سرراہے ایک ملاقات ہوئی تو روک کر کہا کہ تحریر میں بھی روانی بہت ضروری ہوتی ہے نثر بھی شاعری ہی ہوتی ہے جیسے چلنے میں ہموار راستہ درکار ہوتا ہے اسی طرح تحریر میں بھی روانی اور سادگی ضروری ہے قاری کو کہیں بھی ٹھوکر نہیں لگنی چاہیے۔ اسی طرح جب بھی ان بڑے لوگوں سے نیاز حاصل ہوئے جو آج ماضی کی یاد گار داستانیں ہیں گو انھوں نے کوئی نہ کوئی نکتے کی بات کہہ دی اور اپنی زندگی کا کوئی تجربہ اور سبق بیان کردیا۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ یہ وہ لوگ تھے جو اخباروں میں عموماً نام کے بغیر یا کسی فرضی نام سے کالم لکھتے تھے جن کی تحریریں پڑھ کرہم نے دو لفظ لکھنے سیکھے مگر آج صحافت زیادہ تر صرف ذریعہ روز گار اور حصول رزق بن چکی ہے۔ دنیا بہت ہی بدل چکی ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے برسر روز گار یعنی تنخواہ دار ہونا ضروری ہے اگر میں نے صرف ایک سو بیس روپے ماہوار پر نوکری شروع کی تھی تو ان یاد گار زمانہ لوگوں کی تحریروں مشوروں اور نصیحتوں سے قدم بقدم آگے بڑھتے گئے تنخواہ بڑھتی گئی اور ایک دولت جو اس سفر میں چلتے چلتے مفت میں مل گئی وہ سکون قلب تھی اور اس سے بڑی دولت آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ پرانے زمانے میں ہر صحافی عموماً نظریاتی ہوتا تھا۔
اگر وہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں لکھتا تھا تو کسی دلیل کے ساتھ اورشخصیات پر تنقید یا کسی کی تعریف بہت ہی کم ہوتی تھی۔ آج میں اخبار دیکھتا ہوں تو اپنے ساتھیوں کی تحریروں سے خوف آتا ہے۔ خوشامد کے نئے نئے اسلوب دریافت ہوتے ہیں جن سے تحریر کا وقار مجروح بلکہ خون آلود ہوتا رہتا ہے۔ میں نے انھی دوستوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے اس لیے میں اس موضوع پر تفصیل میں نہیں جا سکتا لیکن اپنی ذات کی تسلی اور اطمینان کے لیے اظہار افسوس ضرور کر سکتا ہوں جب کہ میں بھی ایک عام سا صحافی ہوں اور وقت کی صحافت کی خوبیوں اور خرابیوں سے بھرا ہوا ہوں، بس ایک بات کی کوشش کی ہے کہ صحافت میں سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ تین اخبار بدلے ہیں اور تینوں پالیسی اختلاف کی بنیاد پر اب قسمت سے ایک ایسا اخبار ملا ہے جہاں میرا کبھی ایک لفظ بھی کاٹا نہیں گیا اگر مجھ سے زبان و بیان یا واقعات کے نقل کرنے میں کوئی غلطی ہوتی ہے تو مہربانی کرکے مجھے اس سے مطلع کیا جاتا ہے جس کی فوراً اصلاح کر دی جاتی ہے۔
اس اطمینان کی دولت کے ساتھ کئی برس گزر گئے ہیں تو جو باقی ہیں وہ بھی گزر جائیں گے اور اطمینان کی دولت میسر رہے گی اور یوں رئیسانہ زندگی گزرے گی لیکن خدا نہ کرے کہ میں آج کے دورکی مروج خوشامد اور بے جا حمایت کے گناہ میں پھنس جاؤں اور اپنی دنیا برباد کر لوں اور کسی کی نہیں خود اپنی ذات کی ملامت کا نشانہ بن جاؤں اور دل ہی دل میں شرمندہ شرمندہ پھرا کروں اور اپنے بزرگوں کی روحوں کو بھی شرمندہ کرتا رہوں جن کی رہنمائی اور بزرگانہ ہمدردی میں صحافت سیکھی ہے اور ان کے صحافتی کردار کو نمونہ سمجھا ہے۔
پتہ نہیں برسوں پہلے کس چکر میں پھنس کر اخبار کی رپورٹنگ کے ساتھ کالم نگاری بھی شروع کر دی تھی کیونکہ کئی خبریں ایسی ہوتی تھیں جو نہ تو بطور خبر اخبار میں چھپ سکتی تھیں اور نہ ہی ادارتی موضوع بن سکتی تھیں۔ ایک آدھ بار ایسی ہی لاوارث اور آوارہ خبروں کا کالم بنایا تو ایڈیٹر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انھوں نے نیوز ایڈیٹر سے کہا کہ میں نے اسے کالم نویسی کے لیے بھیجا تھا لیکن آپ نے اسے خبروں کی ترتیب میں الجھا دیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مشکل کام کرنا پڑ گیا جو اس زمانے میں نیا نیا تھا کیونکہ ان دنوں اخباروں میں کالم نہیں ہوا کرتے تھے بس لے دے کر ایک کالم ہوتا تھا جو ادارتی صفحہ پر اداریہ کے بغل میں چھپتا تھا اور مصنف کے نام کے بغیر یہ ایک طنزیہ اور مزاحیہ کالم ہوتا تھا اور اس کے لکھنے والوں میں مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرت، مولانا نصراللہ خان عزیز، حاجی لق لق بعد میں مجید نظامی جیسے لوگ شامل تھے لیکن یہ سب نام کے بغیر یعنی گمنام کالم نویس۔ یہ صحافت کے وہ جید لوگ تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے بلند معیار کی وجہ سے صحافت کی اس صنف میں بعد میں آنے والوں کے لیے بے حد مشکلات پیدا کر دیں۔ انھوں نے تحریر کا ایک اتنا اونچا معیار قائم کر دیا کہ اس تک کئی سیڑھیاں لگا کر بھی پہنچنا مشکل ہوتا تھا۔ پھر ان استادوں کی اگر آپس میں کبھی چھیڑ چھاڑ ہو جاتی تو نکتہ آفرینیوں کے معجزے ظہور میں آتے۔ ایک بار مولانا چراغ حسن حسرت اور شورش کاشمیری میں کسی سیاسی بات پر ان بن ہو گئی۔ دونوں اعلیٰ نثر نگار ہونے کے ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔
مولانا حسرت بہت کم گو لیکن بلند مرتبہ شاعر تھے۔ دونوں حضرات نے نظم و نثر میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور حسرت صاحب جب اس نزاع میں سنجیدہ ہو گئے تو انھوں نے شعر کا سہارا لے کر آغا شورش کو خاموش کر دیا۔ آغا صاحب مولانا کے دفتر میں جا کر ان سے معذرت خواہ ہو گئے اور معافی تلافی ہو گئی ورنہ آغا صاحب کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا لیکن حتی الوسع یہ بڑے لوگ شائستگی کو عزیز رکھتے تھے۔ سرراہ سن لیجیے کہ حسرت صاحب کافی ہاؤس میں بیٹھا کرتے تھے اور قریب ہی پنجاب پبلک لائبریری میں بھی آتے جاتے رہتے تھے جہاں میرا بھی ڈیرہ ہوتا تھا۔
کبھی راستے میں ملاقات ہو جاتی میں ادب سے سلام کرتا انھوں نے ایک بار پوچھا کہ عزیزم کیا کرتے ہو میں نے لکھنے کے پیشے کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان دنوں ترجمہ کا کام کر رہا ہوں، انھوں نے چلتے چلتے یہ نصیحت کی کہ ترجمہ نہیں لکھنے کی کوشش کرو۔ ان دنوں میں ایک اخبار میں بھی کبھی کبھار لکھتا تھا شاید کوئی تحریر ان کی نظر سے بھی گزری ہو حسب معمول سرراہے ایک ملاقات ہوئی تو روک کر کہا کہ تحریر میں بھی روانی بہت ضروری ہوتی ہے نثر بھی شاعری ہی ہوتی ہے جیسے چلنے میں ہموار راستہ درکار ہوتا ہے اسی طرح تحریر میں بھی روانی اور سادگی ضروری ہے قاری کو کہیں بھی ٹھوکر نہیں لگنی چاہیے۔ اسی طرح جب بھی ان بڑے لوگوں سے نیاز حاصل ہوئے جو آج ماضی کی یاد گار داستانیں ہیں گو انھوں نے کوئی نہ کوئی نکتے کی بات کہہ دی اور اپنی زندگی کا کوئی تجربہ اور سبق بیان کردیا۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ یہ وہ لوگ تھے جو اخباروں میں عموماً نام کے بغیر یا کسی فرضی نام سے کالم لکھتے تھے جن کی تحریریں پڑھ کرہم نے دو لفظ لکھنے سیکھے مگر آج صحافت زیادہ تر صرف ذریعہ روز گار اور حصول رزق بن چکی ہے۔ دنیا بہت ہی بدل چکی ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے برسر روز گار یعنی تنخواہ دار ہونا ضروری ہے اگر میں نے صرف ایک سو بیس روپے ماہوار پر نوکری شروع کی تھی تو ان یاد گار زمانہ لوگوں کی تحریروں مشوروں اور نصیحتوں سے قدم بقدم آگے بڑھتے گئے تنخواہ بڑھتی گئی اور ایک دولت جو اس سفر میں چلتے چلتے مفت میں مل گئی وہ سکون قلب تھی اور اس سے بڑی دولت آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ پرانے زمانے میں ہر صحافی عموماً نظریاتی ہوتا تھا۔
اگر وہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں لکھتا تھا تو کسی دلیل کے ساتھ اورشخصیات پر تنقید یا کسی کی تعریف بہت ہی کم ہوتی تھی۔ آج میں اخبار دیکھتا ہوں تو اپنے ساتھیوں کی تحریروں سے خوف آتا ہے۔ خوشامد کے نئے نئے اسلوب دریافت ہوتے ہیں جن سے تحریر کا وقار مجروح بلکہ خون آلود ہوتا رہتا ہے۔ میں نے انھی دوستوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے اس لیے میں اس موضوع پر تفصیل میں نہیں جا سکتا لیکن اپنی ذات کی تسلی اور اطمینان کے لیے اظہار افسوس ضرور کر سکتا ہوں جب کہ میں بھی ایک عام سا صحافی ہوں اور وقت کی صحافت کی خوبیوں اور خرابیوں سے بھرا ہوا ہوں، بس ایک بات کی کوشش کی ہے کہ صحافت میں سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ تین اخبار بدلے ہیں اور تینوں پالیسی اختلاف کی بنیاد پر اب قسمت سے ایک ایسا اخبار ملا ہے جہاں میرا کبھی ایک لفظ بھی کاٹا نہیں گیا اگر مجھ سے زبان و بیان یا واقعات کے نقل کرنے میں کوئی غلطی ہوتی ہے تو مہربانی کرکے مجھے اس سے مطلع کیا جاتا ہے جس کی فوراً اصلاح کر دی جاتی ہے۔
اس اطمینان کی دولت کے ساتھ کئی برس گزر گئے ہیں تو جو باقی ہیں وہ بھی گزر جائیں گے اور اطمینان کی دولت میسر رہے گی اور یوں رئیسانہ زندگی گزرے گی لیکن خدا نہ کرے کہ میں آج کے دورکی مروج خوشامد اور بے جا حمایت کے گناہ میں پھنس جاؤں اور اپنی دنیا برباد کر لوں اور کسی کی نہیں خود اپنی ذات کی ملامت کا نشانہ بن جاؤں اور دل ہی دل میں شرمندہ شرمندہ پھرا کروں اور اپنے بزرگوں کی روحوں کو بھی شرمندہ کرتا رہوں جن کی رہنمائی اور بزرگانہ ہمدردی میں صحافت سیکھی ہے اور ان کے صحافتی کردار کو نمونہ سمجھا ہے۔