ایک لیڈر سے میری بھی ’’آئی ایم سوری‘‘

دوسری تمام سے درجہ بدرجہ عام معافی مانگ لی گئی۔ یہ انداز گفتگو اور سیاست پہلی بار دیکھا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
یہ ہے ایک عنوان ہماری تازہ سیاست کا۔ پاکستان میں دو ابھرتی ہوئی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے درمیان زبانی کلامی اتنا کچھ ہوا کہ اسے شرافت بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن ہمارے جدید دور کے سیاستدانوں کی سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ ایک سیاستدان نے لندن بیٹھ کر پاکستان میں سیاسی خواتین کی بے عزتی کی اور دل کی بھڑاس نکال لی۔ جب اس زبان اور لہجے پر پاکستان میں ہلچل مچی تو فوراً ہی نام والی خواتین کا نام لے کر کہا گیا کہ آئی ایم سوری، یعنی میں معافی مانگتا ہوں۔

دوسری تمام سے درجہ بدرجہ عام معافی مانگ لی گئی۔ یہ انداز گفتگو اور سیاست پہلی بار دیکھا ہے۔ میری صحافتی عمر سیاستدانوں کے ساتھ گزر گئی بڑے ہی نامور اور قومی سطح پر محترم سیاستدان مہربان رہے اور ان کا اعتماد بھی اس حد تک حاصل رہا کہ ایک صحافی اور رپورٹر کے سامنے وہ اپنے سیاسی حریفوں اور مخالفوں کے بارے میں کھل کر بات کر لیتے تھے لیکن اس اعتماد کے ساتھ کہ بات بس یہیں ختم ہو جائے گی لیکن میں نے پبلک میں یا پرائیویٹ محفلوں میں یہ لب و لہجہ اور یہ زبان اور الفاظ کبھی نہیں سنے جو آج کے نمایاں سیاستدان کہہ رہے ہیں اور برملا ایک دوسرے کو اپنے سیاسی غیض و غضب کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ابھی ان الفاظ اور دشنام طرازی کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ وہ معذرت پر معذرت کرنے لگ جاتے ہیں کیونکہ اتنا احساس کسی نہ کسی حد تک ابھی باقی ہے کہ انھیں خود ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔

میں تو صرف ماضی بعید نہیں ماضی قریب کی سیاسی شائستگی کو یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ادب وآداب کے وہ زمانے کہاں چلے گئے جن کی تہذیب و ثقافت کا بہت شہرہ تھا اور وہ ہم پاکستانیوں خصوصاً پنجابیوں کو مجلسی آداب اور عام زندگی کے رکھ رکھاؤ اور وضع داری سکھانے آتے تھے۔ میں نے ذاتی طور پر پہلے تو ان لوگوں کا بھرپور استقبال کیا کہ ایک تو وہ ہجرت کے مقدس عمل سے گزرے تھے دوسرے اپنے آباؤ اجداد کے مرکزوں سے بچھڑ گئے تھے جن گھروں میں وہ پلے بڑھے تھے جن گلی کوچوں میں وہ کھیلے کودے تھے وہ سب ماضی کی ایک دلگداز یاد بن گئے دوسری وجہ ان کے استقبال کی یہ تھی کہ ہم پنجابی جو اردو کو بھی اپنی زبان سمجھتے تھے لیکن اپنے آپ کو اس زبان میں ناقص سمجھتے تھے ان سے زبان سیکھیں گے اور اپنی اردو کی تحریر اور بول چال درست کریں گے لیکن دیکھا یہ کہ ان میں سے اکثر اردو میں ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔

بس انتظار حسین کی نسل کے دو چار لوگ ہی ایسے تھے جن کی جوتیوں میں بیٹھ کر ہمیں فخر محسوس ہوا۔ اور اردو زبان درست کی مگر اب اندازہ ہوا کہ بعض نے جن کے ساتھ رابطہ قریبی رہا انھوں نے ہماری زبان بھی خراب کر دی اور اس زبان سے کچھ ملتی جلتی جس کے استعمال کے بعد فوراً ہی آئی ایم سوری کہنا پڑ جاتا ہے۔ جہاں تک دوسرے فریق کا تعلق ہے تو وہ اس مقام تک نہ پہنچے کہ انھیں معاف کر دیو کہنا پڑتا۔


ہماری جدید اور رواں دواں سیاست کا یہ انداز جو میرے جیسے پرانے سیاسی خوشہ چینوں کے لیے اجنبی ہی نہیں سخت دل آزار بھی ہے اور ان جید اور وضع دار سیاستدانوں کی یاد کے سامنے شرمندہ کرتا ہے جن کی سیاست نے پاکستان بنایا اور اس ملک کو ایک شناخت بھی دی۔

اسے آباد کیا اور اچھے لوگوں کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور دی لیکن ایک پرانی کہاوت آپ کبھی نہ بھولیں کہ الناس علی دین ملوکہم یعنی لوگ اپنے حکمرانوں اور بادشاہوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ وہی طور اطوار جو ان حکمرانوںکے ہوا کرتے ہیں عوام بھی اختیار کر لیتے ہیں چنانچہ ہمارے ہاں جب تک ثقہ قسم کے سیاستدان حکمران رہے عوام میں بھی اس کی جھلک دیکھی گئی اور لوگ کسی ہلکی بات کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب حکومتیں صرف دولت کے بل بوتے پر حاصل کی جانے لگیں تو لوگ بھی مال و دولت کے پجاری بن گئے خصوصاً فوجی حکومتوں نے تو ہمارا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔

آج بڑی نامور جماعتوں کے لیڈر اگر انھیں جماعتیں کہیں اور لیڈروں کو لیڈر تو وہ آئی ایم سوری پر مجبور ہو گئے کل تک شاید وہ یہ کہنا بھی کسر شان سمجھیں ان کے حریف نے دھمکی دی ہے کہ پھر کبھی ایسی بات ہوئی تو اس کا سخت نوٹس لیا جائے گا لیکن ایک کی معذرت سے فی الحال بات آئی گئی ہو گئی اور امید ہے کہ پھر اس کی نوبت نہیں آئے گی لیکن انتہائی مہذب اور ایثار پیشہ دین کے نام پر بنے ہوئے اس ملک میں خدا کرے اس کے حکمران بھی زیادہ نہیں تو کسی حد تک سلجھے ہوئے ہوں تاکہ ان کی گفتگو سے کسی کو شرمندگی نہ ہو، نہ خود ان کو اور نہ غیر سیاسی لوگوں کو یعنی ہمارے جیسے گھسے پٹے لکھنے والے بھی دلجمعی کے ساتھ دو لفظ لکھ لیا کریں جو کسی کا ساتھ دینے نہ دینے کی جرات نہیں رکھتے۔ ایک زمانہ تھا جب سیاست والے حکمرانوں سے ہی ڈرتے تھے کہ کہیں جیل نہ ہو جائے۔

اب سیاستدانوں سے ڈرتے ہیں اور صرف دنیا پرست حکمرانوں کی پروا نہیں کرتے جن کے راج میں افسر پوری ایک موٹر خواہ وہ صرف دو تین برس پرانی ہی کیوں نہ ہو صرف ایک ہزار روپے میں خرید لیں ایسی انہونی باتیں آج ہی سن رہے ہیں بلکہ ایسی حیرت انگیز باتیں اس ملک کی ہیں جو غیر ملکی قرضوں میں سرتاپا ڈوبا ہوا ہے۔ قرضدار بیرونی حکمران قسم کے لوگ ہیں جو اپنا قرض وصول کرنا جانتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ بجلی گیس اور پٹرول کے بحران کے بعد اب پانی کا بحران بھی آنے والا ہے اس پر عرض کروں کہ قرضوں کا بحران بھی سر پر ہے اور وہ پانی سے پہلے آئے گا یا بعد میں یہ دیکھیں گے۔
Load Next Story