تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

جوانی دیوانی میں ہر نوجوان اپنے تئیں انقلابی ہوتا ہے اسے یہ زعم ہی نہیں یقین بھی ہوتا ہے کہ وہ تن تنہا دنیا بدل سکتاہے

KARACHI:
جوانی دیوانی میں ہر نوجوان اپنے تئیں انقلابی ہوتا ہے۔ اسے یہ زعم ہی نہیں یقین بھی ہوتا ہے کہ وہ تن تنہا دنیا بدل سکتا ہے۔ یعنی جہاں پہاڑ ہیں وہاں سمندر اور جہاں صحرا ہیں وہاں دریا بہا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی ہر نوجوان اس فینٹسی کا شکار ہوتا ہے تا وقتیکہ الیکشن نہ ہو جائیں۔ بالفاظ دیگر انقلاب کا بھوت الیکشن کی دھونی دے کے اتارا جاتا ہے۔ لیکن اس کا معاملہ مختلف تھا۔ وہ ۱۴ جون ۱۹۲۸ کو ارجنٹائن میں پیدا ہوا۔

اس کی ماں مارکس کو مانتی تھی اور باپ کسی کے باپ کو بھی نہیں مانتا تھا یہی وجہ تھی کہ گھر میں اکثر نظریاتی قسم کی تو تو میں میں جاری رہتی تھی۔ گمان غالب ہے کہ فتح حق یعنی ما ں کی ہوتی ہو گی اور باطل یعنی باپ تنگ آ کر گھر سے نکل جاتا ہو گا کیونکہ مارکسی نظریات کا اثر اس پہ روز بروز گہرا ہوتا گیا تھا۔ وہ آٹھ سال کا تھا جب اسپین میں سوشلسٹ انقلاب آیا اور دنیا بھر سے کمیونسٹ جنرل فرانکو کے خلاف اسپین میں جمع ہونے لگے۔ اس جدو جہد نے اس کے معصوم لیکن سوچنے والے ذہن کو متاثر کیا۔ زمانۂ طالبعلمی میں ہی اس نے ارجنٹائن کے نوجوانوں کی ایک تنظیم civic revolucionario جوائن کر لی۔ اسی تنظیم نے بعد میں ارجنٹائن کے آمر جان پیرون کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔

وہ بے پناہ ذہین طالبعلم تھا۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیکل کی سات سالہ تعلیم وہ محض تین سال کی مدت میں پوری کر چکا تھا۔ افتاد طبع کا یہ عالم تھا کہ میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ لاطینی امریکا کی سیاحت پہ موٹر سائیکل پہ نکل کھڑا ہوا۔ اس کی روداد وہ اپنی کتاب موٹرسائکل ڈایئریز میں لکھتا ہے۔ ایک سال بعد دوبارہ ارجنٹائن آیا اور محض چند ماہ میں بارہ امتحان دے کر ڈاکٹر بن گیا۔ ۱۹۵۳ میں وہ لاطینی امریکا کے آٹھ مختلف ممالک کی خاک چھان چکا تھا۔ بالآخر وہ گوئٹے مالا پہنچا جہاں جیکب اربینزگزمان برسراقتدار آ کر کمیونسٹ پارٹی کی مدد سے انقلابی اصلاحات میں مصروف تھا۔ امریکی جاگیرداروں کی زمینیں مقامی کسانوں میں تقسیم کی جا رہی تھیں اور امریکا کی سب سے بڑی کمپنی یونائٹڈ فوڈ کمپنی کو بلا معاوضہ قومی تحویل میں لیا جا چکا تھا۔

یہیں اس کی ملاقات حکومت میں شامل گوئٹے مالا کے انقلابیوں سے ہوئی اور ان کیوبن مسلح انقلابیوں سے بھی جو باتستا کے فوجی بیرکوں پہ ناکام بغاوت کے بعد خود کو فیڈل کاسٹرو کی رہنمائی میں منظم کر رہے تھے۔۱۹۵۴ کے وسط میں امریکی CIA نے کرنل کارلوس کی قیادت میں باقاعدہ مسلح مداخلت کے ذریعے گوئٹے مالا کی ''منتخب'' انقلابی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس نے کمیونسٹ یوتھ ملیشیا میں شامل ہو کر مزاحمت کی لیکن لیڈرشپ کے بحران کی وجہ سے اس مزاحمت کو سختی سے کچل دیا گیا۔ وہ اس دور کے بارے میں لکھتا ہے: ''ہر چند کہ میں گوئٹے مالا کی حکومت میں کسی عہدے پہ فائز نہیں تھا لیکن میں انقلابی حکومت کی مدافعت کو اپنا فرض سمجھتا تھا۔

جب امریکی ایجنٹوں نے کاروائی کی تو میں نے یہی کیا لیکن اسوقت کسی نے میرا ساتھ نہ دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہتھیار اٹھائے جا سکتے تھے مگر کسی نے ہتھیار نہیں اٹھائے''۔ اس کے بعد اس نے اپنے ملک ارجنٹائن کے سفارتخانے میں پناہ لی لیکن واپس وطن جانے کی بجائے میکسیکو چلا گیا۔ اس دوران فیڈل کاسڑو بھی رہا ہو کر میکسیکو آ گیا۔ یہیں اس نے کاسترو کی اس مسلح انقلابی جدوجہد میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی جسے ۲۶ جولائی کی تحریک کہا جاتا ہے۔ جس کا مقصد کیوبا میں امریکی پٹھو حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ وہ ۲ دسمبر ۱۹۵۶ کو کیوبا کے ساحل پہ اترنے والے ان کمیونسٹ گوریلوں میں شامل تھا جو کیوبا کے باشندے نہیں تھے لیکن لینن کا نعرہ ''دنیا کے تمام محنت کش اور مظلومو ایک ہو جاؤ'' انھیں یہاں کھینچ لایا تھا۔ اس معرکے میں اکثر کمیونسٹ گوریلے مارے گئے۔


اس سمیت صرف چند ہی بچ سکے جنہوں نے کاسترو کی قیادت میں سیرا ماسٹیرا کی پہاڑیوں میں مسلح بغاوت کا آغاز کر دیا۔ نوجوان جوق در جوق اس فوج میں شامل ہوتے گئے۔ وہ بے جگری سے لڑا اور وہ وقت بھی آیا جب انھوں نے باتستا کے سب سے اہم فوجی اڈے پہ قبضہ کر لیا اور باتستا کے فوجی جرنیل کاسترو اور اس سے مذاکرات پہ مجبور ہو گئے اور خود باستتا ڈومینیکن ریپبلک فرار ہو گیا۔ یکم جنوری ۱۹۵۹ کو کیوبا پہ انقلابیوں کا قبضہ ہو گیا۔ جب وہ فاتحانہ شان سے ہوانا میں داخل ہوئے تو ایک معمر شہری نے بے ساختہ کہا:ـ ''ارے باتستا تو بچوں سے شکست کھا گیا''۔

انقلاب کے بعد اسے کیوبن شہریت دے دی گئی اور اس نے سوشلسٹ کیوبا کی تعمیرمیں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اس کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ اسے کیوبا کے قومی بینک کا صدر مقرر کیا گیا حتیٰ کہ اس نے ۱۹۶۴ میں کیوبا کے نمایندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔ الجیریا میں ایک سیمینار میں وہ یوں گویا ہوا 'ہماری تادم مرگ جدوجہد کا کوئی انجام نہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں جاری سامراج کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے۔ پسماندہ ممالک کے لیے ضروری ہے کہ انقلاب کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کریں اور سامراج کے خلاف بہت سارے ویتنام تخلیق کریں۔' جب اسے لگا کہ کیوبا میں اس کا کام ختم ہو گیا ہے تو وہ ان الفاظ میں کاسترو سے رخصت ہوا 'میرا اب کیوبا سے کوئی قانونی تعلق نہیں۔ ہاں ایک ایسا تعلق رہے گا جسے وعدوں کی طرح اپنی مرضی سے نہیں توڑا جا سکتا۔ دنیا کے مقہور عوام مجھے صدا دے رہے ہیں'۔

پھر وہ کانگو چلا آیاجہاں اس نے مقامی گوریلوں کو مبوتو کے خلاف منظم کیا۔ وہاں اسے کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی تو وہ چیکوسلواکیہ اور تنزانیہ چلا گیا۔ اس نے موزمبیق میں بھی جدوجہد میں حصہ لینا چاہا لیکن امریکن سی آئی اے کتوں کی طرح اس کی بو سونگھ رہی تھی۔ پھر بھی وہ بولیویا چلا آیا جہاں ایک سال وہ مسلح جدوجہد کرتا رہا۔ اس گوریلا جنگ کی روداد وہ ایک ڈائری میں درج کرتا رہا۔ ۸ اکتوبر ۱۹۶۷ کو بولیویا کے فوجی دستوں نے اسے سی آئی اے کے مدد سے زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ اسی ڈائری سے انھیں اس کے مطلوب اصلی ہونے کا پتہ چلا۔ اسے قید کے بعد کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ عدالت کا صحن اس مرد کارزار کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔ اسے دوران قید ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یوںوہ شعلہ جو ارجنٹائن میں فروزاں ہوا تھا، بولیویا کی اجنبی سرزمین میں خاکستر ہوا۔

تیز چمکدار پر کشش آنکھیں، روشن پیشانی، چہرے کی وجاہت میں اضافہ کرتی خوبصورت داڑھی، ہونٹوں میں مخصوص انداز سے دبا سگار اور سر کو قدرے جھکا کر ترچھی نظر سے دیکھنے کا اندا ز آج بھی ہر اس نوجوان کو لبھاتے ہیں جس نے کبھی سماج بدلنے کی خواہش کی ہو۔ اس کی لکھی کتاب گوریلا جنگ جس میں وہ گوریلا جنگ کی تکنیک بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے آج بھی ایک گائیڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اسی میں وہ واشگاف انداز میں بیان کرتا ہے کہ عوامی طاقتیں منظم فوج کے خلاف فتح حاصل کر سکتی ہیں، انقلابی حالات کا انتظار کرنا ضروری نہیں بلکہ ایسے حالات پیدا بھی کیے جا سکتے ہیں اور جمہوری حکومتوں کو بدلنے کے لیے جب ہر آئینی طریقہ ناکام ہو جائے تو مسلح جدوجہدہی کامیاب ہوتی ہے۔ اس مرد نر کو جس کا قلم اور ہتھیار یکساں رفتار سے چلتا تھا دنیا چی گویرا کے نام سے جانتی اور سیلوٹ کرتی ہے۔

اس رومان سے بھری کہانی کو جو ارجنٹائن سے شروع ہو کر بولیویا پہ ختم ہوئی، ایک بار پھر پڑھیے لیکن اس بار گویرا کی جگہ اسامہ، ایمن یا کوئی بھی بھلا سا مسلمان نام رکھ لیجیئے، کاسترو کو بھی مشرف بہ اسلام کر لیجیے۔ ارجنٹائن کو افغانستان پڑھئے اور کیوبا، گوئٹے مالا، میکسیکو اور بولیویا کو پاکستان، مصر، شام ، عراق اور جو نام آپ دینا چاہیں دے دیجیے، گویرا کی تقریر میں جہاں جہاں سوشلسٹ ممالک کا تذکرہ ہے اسکو اسلامی ممالک کر لیجیے۔ دیکھئے کیا اب بھی یہ داستان اتنی ہی دلکش لگتی ہے؟
Load Next Story