سرزمین عشق و عاشقی میں سونا چاندی
پاکستان ایک خود کفیل ملک ہے جس کے پاس دفاع کے لیے اب ایٹم بم بھی ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
ہیر رانجھے کی داستان عشق و عاشقی کے قرب و جوار میں آباد رجوعہ سادات چنیوٹ کا قریب ترین پڑوسی ہے۔ گاؤں جاتے ہوئے اسی آبادی سے گزر ہوتا رہا ہے اور ہزاروں بار لوہے اور سونے چاندی کے خاموش ڈھیروں کے اوپر سے خاک اڑاتے گزرے ہیں مگر کیا معلوم کہ اس زمین پر تخت ہزارے کے رانجھے اور سیالوں کی ہیر نے وارث شاہ کو ایک داستان کی جو نعمت عطا کی اس کی تہوں میں دنیا جہان کے خزانے مدفون ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ خود غرض اور ملک کی محبت کی نعمت سے محروم کسی حکمران نے ان خزانوں کو لوٹنے کا اذن کسی منظور نظر کو دے دیا تھا جو عدالت نے توجہ دلانے پر منسوخ کر دیا۔ آج کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان قومی خزانوں کو پوری قوم پر لٹائیں گے صرف چند افراد کو ان کے ذاتی مفاد کا موقع نہیں دیں گے۔ ذاتی بات ہے کہ رجوعہ کے سادات کرام سے ہمارے خاندان کے سجادہ نشینوں کا قریب ترین تعلق اور خانہ واحد والا معاملہ تھا۔ محترم چچا میاں شہاب الدین مرحوم و مغفور کا رجوعہ کے بڑے شاہ صاحب غلام محمد مرحوم و مغفور سے ایسا قرب تھا کہ وہ کوئی ملبوس یا کوئی اور خاص چیز اپنے لیے خریدتے تو شاہ صاحب کے لیے بھی۔
بہر کیف یہ پرانے زمانے کے لوگ تھے جو محبتوں پر زندہ رہتے تھے لیکن ان بابرکت تعلقات کی برکت تھی کہ میرے چچا زاد بھائی میاں کمال الدین جب چنیوٹ میں بڑے انتظامی عہدے پر تبدیل ہو کر گئے تو ان کے ہم عصر رجوعہ سادات کے شاہ صاحبان ان کا سامان اپنے ہاں لے گئے کہ تمہارا گھر موجود ہے تو پھر سرکاری قیام گاہ پر قیام کیوں۔ معلوم ہوا کہ نسلی اور خاندانی وجاہت کے ساتھ اس سونے چاندی کا اثر بھی تھا جو ان کے قدموں میں چھپا ہوا پڑا تھا ان کے مریدوں کی طرح اور صدیوں سے اپنے غیر مرئی اثرات زمین کے اوپر بھی منعکس کر رہا تھا۔ امید ہے کہ اب یہ خزانے برآمد ہوں گے اور ان کی چمک دمک پوری قوم دیکھے گی اور اپنی زندگیوں کو ان سے منور کرے گی۔
شہید حکیم محمد سعید صاحب ایک مثالی پاکستانی محب وطن جو زمانے کے منتخب شہر دلی کو ترک کر کے کراچی میں آباد ہو گئے اور یہاں اپنے سابقہ ہموطنوں کے ہاتھوں شہادت کے مرتبے تک پہنچے اپنی پاکستانی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورہ رحمٰن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے' پاکستان میں تین نعمتیں اس سے زیادہ ہیں پھر وہ بڑے جذبے کے ساتھ ان تمام نعمتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔
حکیم صاحب کو تو پاکستان نے شہادت کا مرتبہ دے دیا لیکن ہم اب تک ان نعمتوں سے محروم رہے جن کو حکیم صاحب گنا کرتے تھے۔ یہ ذخیرے پنجاب میں ہیں لیکن پنجاب کا وزیراعلیٰ ایسے ذخیروں کو پنجابی نہیں قومی ذخیرہ شمار کرتا ہے اور قوم کو ان ذخیروں کی خوشخبری سناتا ہے۔ ہمارا پورا ملک زیرزمین ذخیروں سے بھرا پڑا ہے۔ سارا بلوچستان، اور سندھ کے بارے میں آپ کئی بار پڑھ چکے ہیں کہ وہاں کیا کیا خزانے دفن ہیں اور بے چین ہیں کہ کوئی انھیں زمین کے اوپر خدمت خلق کے لیے نکال لے جائے۔ پنجاب میں بہت کچھ زیر زمین پڑا کروٹیں لے رہا ہے اور تلملا رہا ہے کوئی اسے باہر نکالے اور اس کی زمین پر صرف فصل ہی نہیں سونا چاندی کاشت کرے۔
پاکستان میں برسرزمین اور زیرزمین اتنا کچھ ہے کہ ساتھ ستر سال کی بے تحاشا لوٹ کھسوٹ کے باوجود بہت کچھ بچا ہوا ہے بلکہ اتنا کچھ باقی بھی ہے کہ وہ سب لوٹا بھی نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں بہترین آبپاشی کا نظام ہے اور زمین کی زرخیزی حیران کن ہے۔
ہم کبھی اناج درآمد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے پڑوس میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی بھوک سے مرتا نہیں اپنے ہموطنوں کی سنگدلی سے مارا جاتا ہے جیسے ان دنوں تھر میں ہر روز نوزائیدہ اور دنوں کے پاکستانی بچے فوت ہو رہے ہیں۔ ان کے ''قتل'' کا حساب قیامت کے روز ہو گا اور ہمارے ان حکمرانوں سے ہو گا جو موٹر کاروں کے لشکروں کی معیت میں ایک آدھ بار کبھی ان بھوکے علاقوں کا معائنہ کرنے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اناج بھی وافر ہے اور نقد فصلیں بھی بہت ہیں۔ ہماری کپاس کی فصل ہی ہمارے جائز بیرونی قرضے اتار دیتی ہے ماسوائے ان قرضوں کے جو ہمارے مشہور وزیرِ قرض ہر آتے جاتے سے مانگتے پھرتے ہیں۔
پاکستان ایک خود کفیل ملک ہے جس کے پاس دفاع کے لیے اب ایٹم بم بھی ہے جس نے اس کے پیدائشی دشمن کو جنگ کے تصور سے بھی محروم کر دیا ہے اور اب وہ ہمارے ہاں مسلسل تخریب کاری کر رہا ہے اور اپنے حساب سے جنگ کے برابر ہمارا نقصان کرنے کی فکر میں ہے۔ یہ لوہا اور سونا چاندی پرانی بات ہے۔ روس نے جب ہمیں اسٹیل مل دی تھی تو اس کا خیال تھا کہ ہمارے ہاں اتنا لوہا موجود ہے جو مل چلا سکتا ہے لیکن پھر بھی ہم نے درآمد کرنا شروع کر دیا کہ کمیشن اس سے بنتا تھا مقامی لوہے سے نہیں۔ اللہ ہمارے اوپر رحم فرمائے اور جو نعمتیں عطا کر دی ہیں ہمیں ان کے حلال کرنے کی توفیق بھی دے۔
معلوم ہوا ہے کہ خود غرض اور ملک کی محبت کی نعمت سے محروم کسی حکمران نے ان خزانوں کو لوٹنے کا اذن کسی منظور نظر کو دے دیا تھا جو عدالت نے توجہ دلانے پر منسوخ کر دیا۔ آج کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان قومی خزانوں کو پوری قوم پر لٹائیں گے صرف چند افراد کو ان کے ذاتی مفاد کا موقع نہیں دیں گے۔ ذاتی بات ہے کہ رجوعہ کے سادات کرام سے ہمارے خاندان کے سجادہ نشینوں کا قریب ترین تعلق اور خانہ واحد والا معاملہ تھا۔ محترم چچا میاں شہاب الدین مرحوم و مغفور کا رجوعہ کے بڑے شاہ صاحب غلام محمد مرحوم و مغفور سے ایسا قرب تھا کہ وہ کوئی ملبوس یا کوئی اور خاص چیز اپنے لیے خریدتے تو شاہ صاحب کے لیے بھی۔
بہر کیف یہ پرانے زمانے کے لوگ تھے جو محبتوں پر زندہ رہتے تھے لیکن ان بابرکت تعلقات کی برکت تھی کہ میرے چچا زاد بھائی میاں کمال الدین جب چنیوٹ میں بڑے انتظامی عہدے پر تبدیل ہو کر گئے تو ان کے ہم عصر رجوعہ سادات کے شاہ صاحبان ان کا سامان اپنے ہاں لے گئے کہ تمہارا گھر موجود ہے تو پھر سرکاری قیام گاہ پر قیام کیوں۔ معلوم ہوا کہ نسلی اور خاندانی وجاہت کے ساتھ اس سونے چاندی کا اثر بھی تھا جو ان کے قدموں میں چھپا ہوا پڑا تھا ان کے مریدوں کی طرح اور صدیوں سے اپنے غیر مرئی اثرات زمین کے اوپر بھی منعکس کر رہا تھا۔ امید ہے کہ اب یہ خزانے برآمد ہوں گے اور ان کی چمک دمک پوری قوم دیکھے گی اور اپنی زندگیوں کو ان سے منور کرے گی۔
شہید حکیم محمد سعید صاحب ایک مثالی پاکستانی محب وطن جو زمانے کے منتخب شہر دلی کو ترک کر کے کراچی میں آباد ہو گئے اور یہاں اپنے سابقہ ہموطنوں کے ہاتھوں شہادت کے مرتبے تک پہنچے اپنی پاکستانی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورہ رحمٰن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے' پاکستان میں تین نعمتیں اس سے زیادہ ہیں پھر وہ بڑے جذبے کے ساتھ ان تمام نعمتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔
حکیم صاحب کو تو پاکستان نے شہادت کا مرتبہ دے دیا لیکن ہم اب تک ان نعمتوں سے محروم رہے جن کو حکیم صاحب گنا کرتے تھے۔ یہ ذخیرے پنجاب میں ہیں لیکن پنجاب کا وزیراعلیٰ ایسے ذخیروں کو پنجابی نہیں قومی ذخیرہ شمار کرتا ہے اور قوم کو ان ذخیروں کی خوشخبری سناتا ہے۔ ہمارا پورا ملک زیرزمین ذخیروں سے بھرا پڑا ہے۔ سارا بلوچستان، اور سندھ کے بارے میں آپ کئی بار پڑھ چکے ہیں کہ وہاں کیا کیا خزانے دفن ہیں اور بے چین ہیں کہ کوئی انھیں زمین کے اوپر خدمت خلق کے لیے نکال لے جائے۔ پنجاب میں بہت کچھ زیر زمین پڑا کروٹیں لے رہا ہے اور تلملا رہا ہے کوئی اسے باہر نکالے اور اس کی زمین پر صرف فصل ہی نہیں سونا چاندی کاشت کرے۔
پاکستان میں برسرزمین اور زیرزمین اتنا کچھ ہے کہ ساتھ ستر سال کی بے تحاشا لوٹ کھسوٹ کے باوجود بہت کچھ بچا ہوا ہے بلکہ اتنا کچھ باقی بھی ہے کہ وہ سب لوٹا بھی نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں بہترین آبپاشی کا نظام ہے اور زمین کی زرخیزی حیران کن ہے۔
ہم کبھی اناج درآمد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے پڑوس میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی بھوک سے مرتا نہیں اپنے ہموطنوں کی سنگدلی سے مارا جاتا ہے جیسے ان دنوں تھر میں ہر روز نوزائیدہ اور دنوں کے پاکستانی بچے فوت ہو رہے ہیں۔ ان کے ''قتل'' کا حساب قیامت کے روز ہو گا اور ہمارے ان حکمرانوں سے ہو گا جو موٹر کاروں کے لشکروں کی معیت میں ایک آدھ بار کبھی ان بھوکے علاقوں کا معائنہ کرنے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اناج بھی وافر ہے اور نقد فصلیں بھی بہت ہیں۔ ہماری کپاس کی فصل ہی ہمارے جائز بیرونی قرضے اتار دیتی ہے ماسوائے ان قرضوں کے جو ہمارے مشہور وزیرِ قرض ہر آتے جاتے سے مانگتے پھرتے ہیں۔
پاکستان ایک خود کفیل ملک ہے جس کے پاس دفاع کے لیے اب ایٹم بم بھی ہے جس نے اس کے پیدائشی دشمن کو جنگ کے تصور سے بھی محروم کر دیا ہے اور اب وہ ہمارے ہاں مسلسل تخریب کاری کر رہا ہے اور اپنے حساب سے جنگ کے برابر ہمارا نقصان کرنے کی فکر میں ہے۔ یہ لوہا اور سونا چاندی پرانی بات ہے۔ روس نے جب ہمیں اسٹیل مل دی تھی تو اس کا خیال تھا کہ ہمارے ہاں اتنا لوہا موجود ہے جو مل چلا سکتا ہے لیکن پھر بھی ہم نے درآمد کرنا شروع کر دیا کہ کمیشن اس سے بنتا تھا مقامی لوہے سے نہیں۔ اللہ ہمارے اوپر رحم فرمائے اور جو نعمتیں عطا کر دی ہیں ہمیں ان کے حلال کرنے کی توفیق بھی دے۔