کیا ہم بھارت سے ہار گئے ہیں

کرکٹ کے عالمی میدان میں ہمارے کھلاڑی اپنے مد مقابل بھارت کے کھلاڑیوں سے ہار گئے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

کرکٹ کے عالمی میدان میں ہمارے کھلاڑی اپنے مد مقابل بھارت کے کھلاڑیوں سے ہار گئے ہیں۔ یہ ایک واضح شکست ہے، ہم پاکستانی اپنی خفت مٹانے کے لیے یہی کہیں گے کہ کھیل کے میدان میں ہار جیت دونوں ہوتی ہیں، ہمیں اس میدان میں ہار ہو گئی۔ کرکٹ کے ماہرین جن کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے ہمیں بتا رہے ہیں کہ اس شکست کے اسباب کیا تھے۔ بیٹسمینوں اور باؤلروں میں سے کس کا کھیل زیادہ مایوس کن تھا۔ ہمارے ہاں کرکٹ کے کھیل میں سیاست بھی بہت چلتی ہے۔

کرکٹ میں نام بھی ہے اور کرکٹ کی تنظیم کے پاس سرمایہ بھی بہت ہے اور کرپشن جو ہمارے ہاں ایک معمول بن چکی ہے جہاں سرمایہ ہو گا وہاں یہ بھی ہو گی۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ ایسے مقابلے ایک ایسی جاندار قوم کرتی ہے جو رشوت ستانی اور دوسری بداعمالیوں سے مناسب حد تک محفوظ ہو اور جس کے دست و بازو کے علاوہ اس کے دل میں بھی مقابلے کی ہمت ہو۔ میرے خیال میں اس مقابلے میں پاکستانی قوم نہیں ہمارے کرکٹر ہارے ہیں جو کرکٹ کی بدنام زمانہ سیاست سے مجروح تھے۔ جس ملک میں کسی بڑے کو خوش کرنے کے لیے کرکٹ کی تنظیم بھی ایک ذریعہ ہو اور اس کے بورڈ کا چیئرمین بنا کر کسی کو لاکھوں میں کھیلنے کا میدان دے دیا جائے تو اس سے زیادہ خوش اور حکمرانوں کا ممنون کون ہو گا۔

ہم نے عمران خان کی سربراہی میں ورلڈ کپ جیتا بھی تھا اور شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عمران ایک دبنگ کپتان تھا اور اپنی ٹیم میں سفارش نہیں مانتا تھا۔ اس کی حب الوطنی کا ایک معیار بھی تھا، ایک بار اس کے اپنے کھلاڑی میاں داد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے کھیلتا ہے ،کھیل میں اس کے دل میں پاکستان کے سوا کسی کا خیال نہیں ہوتا۔ میدان گیند بلے کا ہو یا تیر و تفنگ کا اس میں فتح و شکست تو ہوتی ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کھلاڑی کس طرح اور کس جذبے کے ساتھ کھیلے ہیں۔ انھوں نے جان لڑائی ہے یا بچائی ہے اور اپنی مخلصانہ کارکردگی سے ملک اور قوم کی عزت بنائی ہے یا بگاڑی ہے۔

جنگ ہو یا کھیل اس میں کوئی جو کچھ اور جتنا کچھ کرتا ہے وہ چھپا نہیں رہتا۔ فوج کو میدان جنگ میں کارکردگی کا صلہ ایسے انعامات کے ذریعے ملتا ہے جنھیں ایک فوجی سینے سے لگا کر رکھتا ہے اور کسی ایسے فوجی کی قوم میں جو عزت اور مرتبہ ہوتا ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہم اس کے ساتھ کس قدر پیار کرتے ہیں اور اسے ایک ہیرو سمجھ کر اپنے لیے ایک نمونہ سمجھتے ہیں۔ کسی شہید فوجی کا نام لیتے ہی ہماری آنکھیں جھک جاتی ہیں اور اسی طرح کسی غازی کا ذکر سن کر ہم پھولے نہیں سماتے۔

ایسا ہی حال کھلاڑیوں کا ہے جو کھلاڑی کھیل کے میدان میں قوم کا وقار بلند کرتے ہیں ہم انھیں جھک کر سلام کرتے ہیں اور ان کے شکر گزار رہتے ہیں۔ جنگ کا میدان کوئی سا بھی ہو اس میں کسی کی قربانی رائیگاں نہیں جاتی لیکن اگر کسی کے بارے میں قوم کو یہ اطلاع دی جائے کہ اس نے کوتاہی کی، جان بچائی ہے یا سیاست کھیلی ہے تو پھر وہ قوم کا ایک قابل نفرت فرد ہوتا ہے۔


کرکٹ چونکہ سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور اسی طرح اس کے کھلاڑی بھی اس لیے کرکٹ کے نقاد ہر کھلاڑی کا جائزہ لیتے ہیں اور قوم کو اس سے مطلع کرتے ہیں۔ ہمارا میڈیا ان دنوں بہت سرگرم ہے اس لیے جو کچھ بھی اسے میسر آ سکتا ہے وہ قوم کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ میچ ختم ہوتے ہی یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جاری ہے۔ یہ ورلڈ کپ ہے جس کے میچ جاری رہیں گے اور ساتھ ساتھ تبصرے بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی اس وقت مایوسی اور اضطراب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہمارا میچ اپنے پرانے حریف اور مدمقابل بھارت کے ساتھ تھا جو ہم ہار گئے، کسی بھی دوسری ٹیم کے مقابلے میں ہار جاتے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن بھارت کے مقابلے میں ہار جانا بہر حال ایک بات ہے اور بڑی بات ہے۔

یہ ہمیں بھی معلوم ہے اور بھارت کو بھی اور یہ اس لیے کہ ہم پیدائشی طور پر دو مدمقابل ملک ہیں اور ہمارا ہر مقابلہ صرف کھیل کے میدان تک محدود نہیں رہتا، اس کا ہمارے جذبات کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہی وہ جذباتی پہلو ہے جو ہمیں پاک بھارت مقابلے میں شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔ پاک بھارت کے مدمقابل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دو ملک ہیں اور ایسی دو قومیں ہیں جو دونوں متحارب قومیں ہیں۔ ہمارے درمیان جو لکیر ہے وہ بے حس پاکستانیوں کے لیے محض ایک مفروضہ ہو لیکن پاکستانیوں کے لیے وہ زندگی و موت کی لکیر ہے۔ ایک پاک وہند مشاعرے میں کسی بھارتی شاعر نے کہا کہ شعر کی کوئی حد نہیں ہوتی یعنی شعر و شاعری کسی جغرافیائی لکیر اور حد سے بے نیاز اور لاتعلق ہوتی ہے۔

اس پر مرحوم ضمیر جعفری نے فوراً ہی جواب دیا کہ دوست مگر شاعر کی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ دو ملکوں کے درمیان کسی لکیر سے بے نیاز لاتعلق نہیں ہوتا۔ پاک و ہند کے درمیان یہی وہ لکیر ہے جو ان دو ملکوں کو توانا رکھتی ہے اور چھوٹا ہونے کے باوجود پاکستان اپنے سے بہت بڑے بھارت کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک عام پاکستانی اس لکیر کو خوب سمجھتا ہے اور ہر روز واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کے موقع پر جشن مناتا ہے اس لیے کہ اس کی دوسری طرف بھارت ہے اس کا پیدائشی حریف اور جانی دشمن۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ سرحد کسی شاعر یا اسمگلر کی سرحد نہیں ہے، دو نظریاتی قوموں کی سرحد ہے۔ مسلمان پاکستانیوں کو خوب معلوم ہے کہ دوسری طرف اس کی بربادیوں کے سامان تیار ہوتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے وجود کے بارے میں ہندوؤں کے جو عزائم ہیں وہ سامنے آتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے جو تاریخ تہذیب و ثقافت اور زندگی کے ہر پہلو میں بھارت سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔ ہندو پاکستان کو ہندوستان میں مداخلت کار اور اس کی زمین کے ایک ٹکڑے پر قابض سمجھتا ہے جسے یہاں زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہے مگر جدید تاریخ نے پاکستان کو ایک آزاد اور مستقل ملک تسلیم کر رکھا ہے جو ہر بین الاقوامی قاعدے میں دنیا کا ایک ملک ہے بلکہ ہمارے مسلمانوںکا ایک بڑا گروہ تو تقسیم کے وقت یہ کہتا تھا کہ ہندوستان ہم مسلمانوں کا ملک تھا جو انگریزوں نے ہم سے چھین لیا اور اب جب وہ جا رہے ہیں تو اسے ہمارے حوالے کر دیں۔

انگریز جب تک حکومت کرتے رہے ان کے اندر بھی یہ احساس زندہ رہا کہ ہم نے مسلمانوں سے یہ ملک چھینا ہے اس لیے وہ مسلمانوں کی مسلسل حق تلفی کرتے رہے اور ہندوؤں کو خوش کرتے رہے۔ جنھیں انگریزوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔بہر کیف حالات نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد علیحدہ ملک دے دیا مگر بھارت اب بھی اس کی آزادی خود مختاری اور علیحدگی پر زبردست تحفظات رکھتا ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ہندوستان کی وزیراعظم اندرا نے جو یہ کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے تو اس نے ہندو قوم کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کی تھی۔

اس وقت کرکٹ کے میچ میں پاکستان کی شکست کے حوالے سے چند باتیں دھیان میں آ گئیں جو ہمیں میرا خیال ہے کہ یاد رکھنی چاہئیں اور کھیل کے میدان میں بھارت اور پاکستان کے کسی مقابلے میں انھی باتوں کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔ جہانتک عوامی جذبات کا تعلق ہے تو وہ تو ہیں ہی۔ یہ جذبات اس تاریخ کی پیداوار ہیں جو ایک حقیقت ہے ناقابل فراموش۔
Load Next Story