شامی کے جلوے اور لاہور شہر کو خراج عقیدت

یہ لاہور اگر بادشاہوں کا شہر تھا تو ہمارے جیسے مسافروں کا شہر بھی تھا اور ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
اخبار نویس اور پھر روز مرہ کے حالات پر کالم لکھنے والے کی ذہنی کیفیت کون نہیں جانتا پھر میرے جیسا متعصب پاکستانی وطن عزیز کے انتہائی پریشان کن حالات میں جلنے والا اور یہ جاننے والا اور محسوس کرنے والا کہ ہمارے اوپر یہ افتاد کہاں سے پڑی ہے سکون کے ساتھ کیسے دن رات کر سکتا ہے چنانچہ گزشتہ دنوں بہت گڑ بڑ رہی اور محفلوں میں شرکت کا مطلب تھا ہمنشینوں کو پریشان کرنا چنانچہ بھائی مجیب شامی نے جو اخباروں کے ایڈیٹروں کی کونسل کے صدر ہیں لاہور میں اپنی صدارت کا ایک جلوہ دکھایا اور اس کا نظارہ کرنے کے لیے اس کالم نگار کو بھی مدعو کیا لیکن ان کے دعوت نامے کو میں سینے سے لگا کر مقام دعوت سے دور بیٹھا رہا اور مجیب شامی کی جلوہ آرائی کا تصور میں ہی نظارہ کرتا رہا۔ اس محفل کی خبریں آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں میں تو اس وقت غیر حاضری کی معذرت کر رہا ہوں کیونکہ مجیب شامی کی خاطر عزیز ہے اور مقام مسرت کہ وہ قلم کے دائرے سے باہر بھی نکل کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔

حالات حاضرہ سے گھبرا کر اور ہموطنوں کے دن رات بہتے خون سے ذہناً خون آلود ہو کر اس لاہور کی ذکر کرتے ہیں جو اب اتنا بکھر چکا ہے کہ اس کے کسی نئے حصے میں کھڑے ہو کر کسی راہگیر سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور وہ اگر جواب دے کہ مجھے معلوم نہیں میں تو ایک پردیسی ہوں اور لاہور سے یہاں آیا ہوں تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

جب پہلی بار لاہور دیکھا تھا تو وہ ایک تیس فٹ اونچی فصیل میں گھرا ہوا صرف 603 مربع ایکڑ پر مشتمل ایک شہر تھا جو اتنا مختصر ہونے کے باوجود لمبے چوڑے ہندوستان کا مشہور ترین شہر تھا اور نہ جانے اس میں کیا کشش تھی کہ ہندوستان کے انگریز حکمران اپنا سب سے بڑا تہوار کرسمس کلکتہ میں مناتے تھے یا لاہور میں۔ یہ شہر پنجابی ثقافت کا ایک نمونہ اور نمایندہ شہر تھا جو اس ملک کے مغل حکمرانوں کا ایک معشوق شہر تھا۔ کئی مغل حکمرانوں کی جوانی اسی شہر میں گزری اور کچھ تو اسی شہر میں دفن بھی ہو گئے' سرزمین ہند کا پہلا مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک اس شہر میں آرام کر رہا ہے اور شہنشاہ جہاں گیر اور اس کی ملکہ نور جہاں کے مقبرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے دریائے راوی کے کنارے لاہور شہر کی دوسری طرف موجود ہیں۔ ملکہ عالم نور جہاں تو لاہور پر اس قدر فریفتہ تھی کہ اس نے اس شہر سے اظہار عشق کرتے ہوئے کہا تھا کہ

لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم

جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم

کہ لاہور شہر کی ہم نے جان کے برابر قیمت ادا کی ہے اور جان دے کر ایک جنت خرید کی ہے۔ قدرت کے عجیب تماشے ہیں کہ اسی نور جہاں کے افسردہ مقبرے پر اس کا ایک شعر درج ہے جو اس کے اپنے بارے میں ہے کہ ہم مسکینوں کے مزار کی حالت تو یہ ہے کہ نہ شمع روشن کی جاتی ہے اور نہ کسی پروانے کے پر جلتے ہیں۔

بہر حال یہ لاہور اگر بادشاہوں کا شہر تھا تو ہمارے جیسے مسافروں کا شہر بھی تھا اور ہے کہ اس میں ایک عجیب بات ہے کہ بعض لوگوں کو یہ اس قدر پسند کر لینا ہے کہ ان کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیتا ہے مثلاً اقبال اور فیض جیسے دو شاعر سیالکوٹ سے چل کر لاہور آئے اور پھر اس شہر میں آسودہ ہو گئے ایسی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لاہور نے اپنے کچھ مہمانوں کو پسند کر لیا اور پھر انھیں واپس نہ جانے دیا۔ اگرچہ خود لاہور اپنی اصل شکل و صورت کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ شہر کی فصیل جو اب ٹوٹ پھوٹ چکی ہے کبھی اپنی سلامتی کے زمانے میں ایک باغ سے گھری ہوئی تھی۔

جہاں لاہور کے شہری شام مناتے تھے۔ کھل کود کرتے تھے مشاعرے کرتے تھے اور گپ شپ لگاتے تھے بلکہ یوں کہیں کہ زندہ دلی کرتے تھے جو لاہور کا ایک مستقل تعارف ہے۔ سیاست کے دور میں یہ باغ سیاسی جلسوں کا مرکز بن گیا جہاں کسی دروازے سے باہر جلسہ ہوتا تو اسے باغ بیرون موچی دہلی یا کسی دوسرے دروازے سے منسوب کر دیا جاتا۔ بعض بیرون فلاں دروازہ کے مقام کو کئی سیاسی پارٹیوں نے اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا مثلاً مجلس احرار کے جلسے باغ بیرون دلی دروازہ منعقد ہوتے تھے دوسری جماعتوں کے جلسے زیادہ تر باغ بیرون موچی دروازہ ہوتے تھے۔ باغ بیرون بھاٹی دروازہ میں ایک جلسہ جماعت اسلامی کا ہوا تھا جس میں ایک کارکن اللہ بخش سرکاری فائرنگ سے شہید ہو گیا تھا۔ اس وقت سید مودودی خود تقریر کر رہے تھے ان کو اس سانحے کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اس ساتھی کا مقدمہ خدا کے پاس درج کرا دیا ہے۔

اس وقت کا گورنر پنجاب بعد میں اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ باغ بیرون فصیل اب بھی کہیں کہیں موجود ہے لیکن لاہور اس قدر پھل اور بکھر چکا ہے کہ اس کی دور دور تک کی آبادیوں کا جدید حسن اپنی جگہ اور وہ لاہور سے منسوب بھی ہیں مگر وہ بات کہاں جو تیرہ دروازوں والے شہر کی فصیل کے اندر آباد شہر میں تھی۔ میری عمر لاہور میں گزر رہی ہے اس شہر کو خراج تحسین نہیں بلکہ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مزید کوشش بھی واجب ہے جو ادا کی جائے گی۔
Load Next Story