جدید دنیا کا کھلا تضاد
ہم اور آپ جو عالمی مارکیٹ کے جغادریوں کے آگے کسی حقیر سے کیڑے سے بھی کم حیثیت ہیں، دراصل ہم ہی ان کا سرمایہ ہیں
نوے کی دہائی میں ہماری طرح آپ نے بھی وہ اشتہار دیکھا ہو گا جس میں کالے، گورے، پیلے، نیم گورے حد تو یہ ہے کہ نیلگوں کالے مسٹنڈے اور ان کی مادائیں سر جوڑ کے بتیسی دکھاتے نظر آتے تھے اور نیچے لکھا ہوتا تھا ـUnited Colors of Benetton۔ اس زمانے میں ہمارے اپنے گھر میں اتنے ہی رنگ برنگے بہن بھائی ایک دوسرے بلکہ تیسرے کا بھی سر پھاڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے لہٰذ ہ ہمیں کبھی ان مسٹنڈون کی محبت ایک آنکھ بھائی نہ سمجھ آئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ اشتہار مشہور اطالوی فوٹوگرافر Olivero Toscani کی ذہنی اختراع تھا جو آج تک Benetton کا برانڈ فوٹوگرافر ہے۔ یہ کمپنی اپنی پروڈکٹس سے زیادہ اپنے متنوع بلکہ متنا زعہ اشتہارات کی وجہ سے مشہور ہے۔
اس کے تمام اشتہارات کا مرکزی خیال بلا تفریق رنگ و نسل لوگوں کو ایک برانڈ کے جھنڈے تلے اکھٹا کرنا ہے۔ اس میں وہ اس حد تک بڑھ گئے کہ ۲۰۱۱ میں انھیں پوپ ویٹی کن سے اپنے اس اشتہار کے لیے معافی مانگنی پڑی جس میں پوپ, قاہرہ کی مسجد الازہر کے مشہور امام شیخ احمد کو منہ سے منہ بھڑائے بوسہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معافی ویٹی کن کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی کے بعد مانگی گئی اور شیخ سے مانگی ہی نہیں گئی۔ جب ہم نے وہ اشتہار دیکھا تب عام آدمی کے کانوں تک گلوبلائزیشن کی محض بھنبھناہٹ پہنچی تھی۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کا پروفیسرGeorge Modelski گلوبلائزیشن کی تعریف کچھ نرم الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ تاریخ کا ایک ایسا عمل ہے جس میں پوری دنیا کے لوگ اپنی اپنی ثقافتی اور معاشرتی خصوصیات کو باہمی رابطے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں لیکن Andrew Heywood اپنی کتاب' گلوبل پالیٹکس' اسی کو ذرا کھل کے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اوپر والی تعریف دھوکے میں ڈالنے والی ہے، دراصل گلوبلائزیشن اس سے بہت آگے کی چیز ہے جس میں مشترکہ پالیسیز، آئڈیالوجیز اور عمل و واقعات جو ایک دوسرے پہ اثرانداز ہوں، سب شامل ہیں۔
دو اور صاحبان حال Held اور McGrew مذید سچ بولنے پہ اتر آئے اور گلوبلائزیشن کا بھانڈا ان الفاظ میں پھوڑا کہ گلوبلائزیشن برقی میڈیا کی مدد سے ترتیب دیا جانے والا وہ عمل ہے جس میں صرف مشترکہ معیشت اہم ہے چاہے وہ دو ملکوں کے درمیان ہو یا ایک ملک کی مختلف ریاستوں کے درمیان۔ ایک ایسی سکڑتی ہوئی دنیا جس کا کلچر، مفادات اور سیاسیات ایک ہوں۔ یہ ایک ایسا عمل بلکہ ایک ایسی آئیڈیالوجی ہے جس میں سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور معیشت اہم ۔ یہی وہ تخیل ہے جس میں ایک مشترکہ کلچر کی تشکیل بہت ضروری ہے تا کہ ایک مشترک مارکیٹ وجود میں لائی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں مالیاتی اداروں کے قرضوں تلے دبی رہیں تا کہ ایک ملٹی نیشنل کلچر کو فروغ ملتا رہے۔
وہ لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے کسی بھی ملک کی اکانومی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس کے لیے مقامی این جی اوز اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آئرلینڈ اور یونان میں آئی ایم ایف کے بڑھتے اثر و رسوخ اور تبدیل ہوتے قومی تشخص اس کی ایک مثال ہے۔ جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس نامی این جی اوز نے کلیدی کردار ادا کیا۔
مشترکہ مارکیٹ کی کھپت کے لیے از حد ضروری ہے کہ دنیا کا ہر شخص چاہے وہ پاکستان میں رہتا ہو یا انگلستان میں، کینیا میں یا کوریا میں، یونان میں یا ایران میں، ایک جیسی غذا کھانے لگے، ایک جیسے کپڑے پہننے لگے اور ایک جیسا لائف اسٹائل اپنا لے۔ اس سے بھی پہلے ضروری ہے کہ وہ ایک جیسا سوچنے لگے۔ ہم اور آپ جو عالمی مارکیٹ کے جغادریوں کے آگے کسی حقیر سے کیڑے سے بھی کم حیثیت ہیں، دراصل ہم ہی ان کا سرمایہ ہیں۔
وہ ہم پہ انویسٹ کرتے ہیں تا کہ ہم سے ہی کما سکیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی دی ہوئی گائیڈ لائن پہ سوچنے لگیں تا کہ ان کا کام آسان ہو۔ جیسے اس ماں کا کام آسان ہو جاتا ہے جس کے بچے ایک سائز کے ہوں تاکہ وہ انھیں ایک جیسے کپڑے پہنا سکے۔ اس کے لیے وہ ہمیں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پٹی پڑھا تے رہتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ساری دنیا اسمارٹ فون استعمال کرتی ہے، بینٹین اور نائیکی کے کپڑے پہنتی ہے لیور برادرز کی پروڈکٹس استعمال کرتی ہے اس لیے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ورنہ اس عالمی گاؤں میں ہم نکو بن کے رہ جائیں گے اور ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور غیر محسوس طور پہ اپنے اپنے کلچر کو بدلتے ہوئے ایک عالمی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ہماری انسانیت کی معراج ہے۔
اب ذرا نظروں کا زاویہ بدلیں اور اس دنیا پہ نظر ڈالیں جسے مسلم دنیا کہا جاتا ہے۔ یہ جہالت کی ماری دقیانوسی دنیا آج بھی ایک اصول کو گلے سے لگائے اپنوں اور غیروں کے محاذ بڑی بے جگری سے سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ اصول آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے صحرائے عرب میں صادق و امین ﷺ کی زبان سے پوری قوت سے ادا ہوا تھا۔ ''کسی کالے کو کسی گورے پہ فوقیت نہیں''۔ ''تم پہ ایک حبشی بھی امیر بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت تم پہ فرض ہے'' اور حرف آخر یہ کہـ'' تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو دوسرے کو لازماََ محسوس ہو گی''۔
یہی وہ گلوبلائزیشن کا اصول ہے کہ جب افغانستان پہ روس قبضہ کرتا ہے تو ساری دنیا سے مسلمان جہادی اس خطے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ امریکا حملہ کرتا ہے تو شانے سے شانہ ملا کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے تقریبا ہر خطے میں جس میں شام، مصر، افغانستان، صومالیہ، یمن، افریقہ اور لیبیا شامل ہیں کسی نہ کسی صورت جہاد و قتال جاری ہے اور کم سے کم ایک درجن جہادی تنظیمیں ایسی ہیں جو ساری دنیا سے نوجوان باقاعدہ بھرتی کرتی ہیں۔
ان بارہ تنظیموں کے کم سے کم ۱۰۸ بریگیڈ ہیں۔ یہ جہادی سعودیہ، تنزانیہ، لیبیا، اردن، مصر، مراکش، فلسطین، کویت، لبنان، چیچنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جدید دنیا کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ پچاس کے قریب مختلف قومیتوں کے حامل ان جہادیوں میں سے بیس یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جن میں فرانس، آسٹریلیا، آئرلینڈ، البانیہ، جرمنی، امریکا، بوسنیا، انگلینڈ، کینیڈا، ڈنمارک، کوسوو، مقدونیہ، نیدرلینڈز، اسپین، بلجیئم، اٹلی، لکزمبرگ، ناروے، رومانیہ اور سویڈن کے وہ نوجوان شامل ہیں جنہوں نے مغربی دنیا میں آنکھ کھولی، پلے بڑھے اور مسلم امہ کا درد انھیں نرم بچھونوں سے میدان کارزار میں کھینچ لایا۔ یہ ہیں ہمارے of .united colors Ummah Muslim رنگ، نسل، کلچر اور قومیت کے بندھنوں سے آزاد۔
مجھے حیرت اس گلوبلائزیشن پہ نہیں ہے جسے جدید دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ اعتراض کیے بغیر کہ ساری دنیا کا کلچر ایک کیسے ہو سکتا ہے، اسے اپنا لیا۔ مجھے حیرت اسی دنیا پہ ہوتی ہے جس کے سامنے جب رنگ، نسل، ثقافت اور قومیت سے بالاتر ایک مسلم امہ کا تصور پیش کیا جاتا ہے تو اسے خفتان کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور وہ استہزایہ انداز میں کہتے ہیں کون سی امہ؟ ان کا استہزا بھی قابل فہم ہے اور اس میں چھپا خوف بھی۔
اس کے تمام اشتہارات کا مرکزی خیال بلا تفریق رنگ و نسل لوگوں کو ایک برانڈ کے جھنڈے تلے اکھٹا کرنا ہے۔ اس میں وہ اس حد تک بڑھ گئے کہ ۲۰۱۱ میں انھیں پوپ ویٹی کن سے اپنے اس اشتہار کے لیے معافی مانگنی پڑی جس میں پوپ, قاہرہ کی مسجد الازہر کے مشہور امام شیخ احمد کو منہ سے منہ بھڑائے بوسہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معافی ویٹی کن کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی کے بعد مانگی گئی اور شیخ سے مانگی ہی نہیں گئی۔ جب ہم نے وہ اشتہار دیکھا تب عام آدمی کے کانوں تک گلوبلائزیشن کی محض بھنبھناہٹ پہنچی تھی۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کا پروفیسرGeorge Modelski گلوبلائزیشن کی تعریف کچھ نرم الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ تاریخ کا ایک ایسا عمل ہے جس میں پوری دنیا کے لوگ اپنی اپنی ثقافتی اور معاشرتی خصوصیات کو باہمی رابطے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں لیکن Andrew Heywood اپنی کتاب' گلوبل پالیٹکس' اسی کو ذرا کھل کے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اوپر والی تعریف دھوکے میں ڈالنے والی ہے، دراصل گلوبلائزیشن اس سے بہت آگے کی چیز ہے جس میں مشترکہ پالیسیز، آئڈیالوجیز اور عمل و واقعات جو ایک دوسرے پہ اثرانداز ہوں، سب شامل ہیں۔
دو اور صاحبان حال Held اور McGrew مذید سچ بولنے پہ اتر آئے اور گلوبلائزیشن کا بھانڈا ان الفاظ میں پھوڑا کہ گلوبلائزیشن برقی میڈیا کی مدد سے ترتیب دیا جانے والا وہ عمل ہے جس میں صرف مشترکہ معیشت اہم ہے چاہے وہ دو ملکوں کے درمیان ہو یا ایک ملک کی مختلف ریاستوں کے درمیان۔ ایک ایسی سکڑتی ہوئی دنیا جس کا کلچر، مفادات اور سیاسیات ایک ہوں۔ یہ ایک ایسا عمل بلکہ ایک ایسی آئیڈیالوجی ہے جس میں سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور معیشت اہم ۔ یہی وہ تخیل ہے جس میں ایک مشترکہ کلچر کی تشکیل بہت ضروری ہے تا کہ ایک مشترک مارکیٹ وجود میں لائی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں مالیاتی اداروں کے قرضوں تلے دبی رہیں تا کہ ایک ملٹی نیشنل کلچر کو فروغ ملتا رہے۔
وہ لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے کسی بھی ملک کی اکانومی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس کے لیے مقامی این جی اوز اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آئرلینڈ اور یونان میں آئی ایم ایف کے بڑھتے اثر و رسوخ اور تبدیل ہوتے قومی تشخص اس کی ایک مثال ہے۔ جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس نامی این جی اوز نے کلیدی کردار ادا کیا۔
مشترکہ مارکیٹ کی کھپت کے لیے از حد ضروری ہے کہ دنیا کا ہر شخص چاہے وہ پاکستان میں رہتا ہو یا انگلستان میں، کینیا میں یا کوریا میں، یونان میں یا ایران میں، ایک جیسی غذا کھانے لگے، ایک جیسے کپڑے پہننے لگے اور ایک جیسا لائف اسٹائل اپنا لے۔ اس سے بھی پہلے ضروری ہے کہ وہ ایک جیسا سوچنے لگے۔ ہم اور آپ جو عالمی مارکیٹ کے جغادریوں کے آگے کسی حقیر سے کیڑے سے بھی کم حیثیت ہیں، دراصل ہم ہی ان کا سرمایہ ہیں۔
وہ ہم پہ انویسٹ کرتے ہیں تا کہ ہم سے ہی کما سکیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی دی ہوئی گائیڈ لائن پہ سوچنے لگیں تا کہ ان کا کام آسان ہو۔ جیسے اس ماں کا کام آسان ہو جاتا ہے جس کے بچے ایک سائز کے ہوں تاکہ وہ انھیں ایک جیسے کپڑے پہنا سکے۔ اس کے لیے وہ ہمیں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پٹی پڑھا تے رہتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ساری دنیا اسمارٹ فون استعمال کرتی ہے، بینٹین اور نائیکی کے کپڑے پہنتی ہے لیور برادرز کی پروڈکٹس استعمال کرتی ہے اس لیے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ورنہ اس عالمی گاؤں میں ہم نکو بن کے رہ جائیں گے اور ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور غیر محسوس طور پہ اپنے اپنے کلچر کو بدلتے ہوئے ایک عالمی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ہماری انسانیت کی معراج ہے۔
اب ذرا نظروں کا زاویہ بدلیں اور اس دنیا پہ نظر ڈالیں جسے مسلم دنیا کہا جاتا ہے۔ یہ جہالت کی ماری دقیانوسی دنیا آج بھی ایک اصول کو گلے سے لگائے اپنوں اور غیروں کے محاذ بڑی بے جگری سے سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ اصول آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے صحرائے عرب میں صادق و امین ﷺ کی زبان سے پوری قوت سے ادا ہوا تھا۔ ''کسی کالے کو کسی گورے پہ فوقیت نہیں''۔ ''تم پہ ایک حبشی بھی امیر بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت تم پہ فرض ہے'' اور حرف آخر یہ کہـ'' تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو دوسرے کو لازماََ محسوس ہو گی''۔
یہی وہ گلوبلائزیشن کا اصول ہے کہ جب افغانستان پہ روس قبضہ کرتا ہے تو ساری دنیا سے مسلمان جہادی اس خطے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ امریکا حملہ کرتا ہے تو شانے سے شانہ ملا کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے تقریبا ہر خطے میں جس میں شام، مصر، افغانستان، صومالیہ، یمن، افریقہ اور لیبیا شامل ہیں کسی نہ کسی صورت جہاد و قتال جاری ہے اور کم سے کم ایک درجن جہادی تنظیمیں ایسی ہیں جو ساری دنیا سے نوجوان باقاعدہ بھرتی کرتی ہیں۔
ان بارہ تنظیموں کے کم سے کم ۱۰۸ بریگیڈ ہیں۔ یہ جہادی سعودیہ، تنزانیہ، لیبیا، اردن، مصر، مراکش، فلسطین، کویت، لبنان، چیچنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جدید دنیا کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ پچاس کے قریب مختلف قومیتوں کے حامل ان جہادیوں میں سے بیس یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جن میں فرانس، آسٹریلیا، آئرلینڈ، البانیہ، جرمنی، امریکا، بوسنیا، انگلینڈ، کینیڈا، ڈنمارک، کوسوو، مقدونیہ، نیدرلینڈز، اسپین، بلجیئم، اٹلی، لکزمبرگ، ناروے، رومانیہ اور سویڈن کے وہ نوجوان شامل ہیں جنہوں نے مغربی دنیا میں آنکھ کھولی، پلے بڑھے اور مسلم امہ کا درد انھیں نرم بچھونوں سے میدان کارزار میں کھینچ لایا۔ یہ ہیں ہمارے of .united colors Ummah Muslim رنگ، نسل، کلچر اور قومیت کے بندھنوں سے آزاد۔
مجھے حیرت اس گلوبلائزیشن پہ نہیں ہے جسے جدید دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ اعتراض کیے بغیر کہ ساری دنیا کا کلچر ایک کیسے ہو سکتا ہے، اسے اپنا لیا۔ مجھے حیرت اسی دنیا پہ ہوتی ہے جس کے سامنے جب رنگ، نسل، ثقافت اور قومیت سے بالاتر ایک مسلم امہ کا تصور پیش کیا جاتا ہے تو اسے خفتان کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور وہ استہزایہ انداز میں کہتے ہیں کون سی امہ؟ ان کا استہزا بھی قابل فہم ہے اور اس میں چھپا خوف بھی۔