حوصلہ افزا علاقائی اتحاد
ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کے نظریے کا دعویٰ کرنے والے جہلا کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہو رہے ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ہماری سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ اہم قومی مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بجائے سطحی انداز میں جائزہ لے کر رائے قائم کرتے ہیں جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دہشت گردی ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور خودکش حملے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پاکستان کے معصوم اور بے گناہ عوام کا خون بہہ رہا ہے اور ہم دہشت گردی کو پاکستان کا نہیں بلکہ امریکا کا مسئلہ قرار دے کر پاکستان کو اس جنگ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیتے رہے جب کہ مارنے والے اور مرنے والے دونوں ہی مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پراکسی وار کا نام دے کر دہشت گردوں کی براہ راست حمایت کی جاتی رہی۔ یہ تاثرات للو پنجو لوگوں کے نہیں بلکہ ہماری صف اول کی سیاسی قیادت کے تھے۔ اس حوالے سے ان اکابرین کا جن میں آج کا حکمران طبقہ پیش پیش تھا، یہ موقف تھا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ جب کہ ہمارے اکابرین یہ جانتے تھے کہ دہشت گرد نہ ہمارے قانون کو مانتے ہیں نہ عدلیہ کو نہ جمہوریت کو نہ ریاست کو دہشت گردوں کے اس واضح موقف کے باوجود ''مذاکرات واحد حل ہے'' کی لاجک سمجھ سے بالاتر تھی۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ دہشت گرد مسلمان اور ہمارے بھائی ہیں۔ اس مسئلے کو اس کے نیٹ ورک اور دہشت گردوں کی عالمی سطح پر کارروائیوں کو دیکھنے کے باوجود اسے علاقائی اور پراکسی وار کا نام دیا جاتا رہا جب کہ یہ ایک خطرناک عالمی مسئلہ بن گیا تھا اور پسماندہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں۔
ہمارے سیاسی اکابرین کے برخلاف ہماری فوج کا موقف انتہائی حقیقت پسندانہ تھا فوج دہشت گردی کو ملک و قوم کے خلاف ایک خطرناک سازش اور ملک کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھ رہی تھی اور اسی تناظر میں فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔
اس متضاد قومی رائے کا سلسلہ جاری تھا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر معصوم طلبا پر قاتلانہ حملے کا وہ سفاکانہ اقدام سامنے آیا جس نے ''مذاکرات کو واحد حل اور یہ مسئلہ پاکستان کا نہیں امریکا کا ہے'' کہنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اور آج دہشت گردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی اور یہ جنگ جیتنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے کہہ رہے ہیں۔
سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ کسی ایک گروہ یا چند گروہوں کا رومانی ایڈونچر نہیں ہے نہ یہ جنگ ہوا میں لڑی جا رہی ہے نہ یہ کوئی علاقائی جنگ ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک جاہلانہ لیکن نظریاتی فلسفہ موجود ہے کہ ''دنیا پر حکمرانی ہمارا حق ہے۔'' یہ نہ کوئی علاقائی جھگڑا ہے نہ ہوا میں معلق کوئی فلسفہ بلکہ یہ ایک ایسا نظریاتی فلسفہ ہے جسے مضبوط اور جائز بنانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا ہے۔
ہٹلر کو دنیا کا فاشسٹ ترین آمر کہا جاتا ہے کیونکہ ہٹلر کا بھی یہی فلسفہ تھا کہ جرمن قوم دنیا کی برتر ترین قوم ہے اور اسے دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ایسے بدترین فاشسٹ نے بھی جرمن قوم کا قتل عام نہیں کیا بلکہ وہ ان ملکوں سے لڑتا رہا جنھیں وہ اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہا تھا۔ جب کہ ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کے نظریے کا دعویٰ کرنے والے جہلا کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہو رہے ہیں۔
ضرب عضب کی کامیاب پیش رفت کے ساتھ یہ اندازہ کیا جاتا رہا کہ اب دہشت گردوں کی جنگ شکست کی طرف جا رہی ہے اور سانحہ پشاور کے بعد جب ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئیں تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ لیکن پچھلے چند دنوں کے اندر پشاور، اسلام آباد، لاہور، شکارپور وغیرہ میں جو لگاتار دہشت گردی ہوئی اس سے یہ امید ، امید موہوم بن گئی کہ دہشت گرد پسپا ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح افواج بڑی دلیری سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں لیکن دہشت گرد چونکہ یہ جنگ پاکستان کی سرزمین ہی سے نہیں بلکہ پاکستان کے پڑوسی ملکوں کی سرزمین سے بھی لڑ رہے ہیں اور روس چین مغربی ملکوں تک انھوں نے اپنی جنگ کا دائرہ پھیلا لیا ہے اس لیے نہ اب یہ جنگ قومی جنگ رہی نہ علاقائی بلکہ یہ ایک ایسی عالمی جنگ بن گئی ہے جس سے نہ صرف قوموں کی آزادی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ ہزاروں سالوں کا ارتقائی سفر طے کرکے اس ترقی یافتہ مقام پر پہنچنے والی انسانی تہذیب کو بھی حقیقی خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو انسانوں اور حیوانوں کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔
افغانستان ہمارا پڑوسی اور مسلم ملک ہے اور دہشت گرد آپریشن ضرب عضب سے گھبرا کر افغانستان کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنا رہے ہیں پاکستان ایک عرصے سے افغانستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کو استعمال نہ کرنے دے لیکن موجودہ افغان حکومت پاکستان کے مطالبے کو نظرانداز کرتی رہی لیکن یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ نہ صرف افغان حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف تیزی سے کارروائیاں شروع کی ہیں بلکہ پچھلے دنوں ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا ایک اہم دورہ کیا اور افغان حکمرانوں سے بامعنی بات کی جس کے نتیجے میں دونوں حکومتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ملک سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں کے اندر بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ میں بھی اضافہ کریں گے۔ اسی دوران ترکی کے وزیراعظم نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا ہے یہ دونوں کانفرنسیں انتہائی اہم اور بامعنی ہیں۔ افغانستان اور ترکی کی حکومتوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے عزم سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی مدد مل سکتی ہے اگر یہ تینوں پڑوسی اور برادر ملک اس جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو یہ خطہ دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہوسکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کے نام پر آسمان سر پر اٹھا لینے والا بھارت محض اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختلف بہانوں سے روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی نظریاتی کجروی کے باعث یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس وبا کو مل جل کر نہ روکا گیا تو یہ وبا بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اپنے ہم مذہبوں کا قتل عام کرنے والے ہندو قوم یعنی کفار کا کیا حال کریں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اسی دوران ایک مشترکہ اجلاس میں جان کیری نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر جنگ لڑنے پر زور دیا ہے بلکہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ دہشت گرد ایک ارب مسلمانوں کے ترجمان نہیں ہیں امریکا دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اسلام کے خلاف نہیں۔ یہ ایسے حوصلہ افزا حقائق ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
دہشت گردی ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور خودکش حملے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پاکستان کے معصوم اور بے گناہ عوام کا خون بہہ رہا ہے اور ہم دہشت گردی کو پاکستان کا نہیں بلکہ امریکا کا مسئلہ قرار دے کر پاکستان کو اس جنگ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیتے رہے جب کہ مارنے والے اور مرنے والے دونوں ہی مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پراکسی وار کا نام دے کر دہشت گردوں کی براہ راست حمایت کی جاتی رہی۔ یہ تاثرات للو پنجو لوگوں کے نہیں بلکہ ہماری صف اول کی سیاسی قیادت کے تھے۔ اس حوالے سے ان اکابرین کا جن میں آج کا حکمران طبقہ پیش پیش تھا، یہ موقف تھا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ جب کہ ہمارے اکابرین یہ جانتے تھے کہ دہشت گرد نہ ہمارے قانون کو مانتے ہیں نہ عدلیہ کو نہ جمہوریت کو نہ ریاست کو دہشت گردوں کے اس واضح موقف کے باوجود ''مذاکرات واحد حل ہے'' کی لاجک سمجھ سے بالاتر تھی۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ دہشت گرد مسلمان اور ہمارے بھائی ہیں۔ اس مسئلے کو اس کے نیٹ ورک اور دہشت گردوں کی عالمی سطح پر کارروائیوں کو دیکھنے کے باوجود اسے علاقائی اور پراکسی وار کا نام دیا جاتا رہا جب کہ یہ ایک خطرناک عالمی مسئلہ بن گیا تھا اور پسماندہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں۔
ہمارے سیاسی اکابرین کے برخلاف ہماری فوج کا موقف انتہائی حقیقت پسندانہ تھا فوج دہشت گردی کو ملک و قوم کے خلاف ایک خطرناک سازش اور ملک کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھ رہی تھی اور اسی تناظر میں فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔
اس متضاد قومی رائے کا سلسلہ جاری تھا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر معصوم طلبا پر قاتلانہ حملے کا وہ سفاکانہ اقدام سامنے آیا جس نے ''مذاکرات کو واحد حل اور یہ مسئلہ پاکستان کا نہیں امریکا کا ہے'' کہنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اور آج دہشت گردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی اور یہ جنگ جیتنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے کہہ رہے ہیں۔
سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ کسی ایک گروہ یا چند گروہوں کا رومانی ایڈونچر نہیں ہے نہ یہ جنگ ہوا میں لڑی جا رہی ہے نہ یہ کوئی علاقائی جنگ ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک جاہلانہ لیکن نظریاتی فلسفہ موجود ہے کہ ''دنیا پر حکمرانی ہمارا حق ہے۔'' یہ نہ کوئی علاقائی جھگڑا ہے نہ ہوا میں معلق کوئی فلسفہ بلکہ یہ ایک ایسا نظریاتی فلسفہ ہے جسے مضبوط اور جائز بنانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا ہے۔
ہٹلر کو دنیا کا فاشسٹ ترین آمر کہا جاتا ہے کیونکہ ہٹلر کا بھی یہی فلسفہ تھا کہ جرمن قوم دنیا کی برتر ترین قوم ہے اور اسے دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ایسے بدترین فاشسٹ نے بھی جرمن قوم کا قتل عام نہیں کیا بلکہ وہ ان ملکوں سے لڑتا رہا جنھیں وہ اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہا تھا۔ جب کہ ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کے نظریے کا دعویٰ کرنے والے جہلا کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہو رہے ہیں۔
ضرب عضب کی کامیاب پیش رفت کے ساتھ یہ اندازہ کیا جاتا رہا کہ اب دہشت گردوں کی جنگ شکست کی طرف جا رہی ہے اور سانحہ پشاور کے بعد جب ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئیں تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ لیکن پچھلے چند دنوں کے اندر پشاور، اسلام آباد، لاہور، شکارپور وغیرہ میں جو لگاتار دہشت گردی ہوئی اس سے یہ امید ، امید موہوم بن گئی کہ دہشت گرد پسپا ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح افواج بڑی دلیری سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں لیکن دہشت گرد چونکہ یہ جنگ پاکستان کی سرزمین ہی سے نہیں بلکہ پاکستان کے پڑوسی ملکوں کی سرزمین سے بھی لڑ رہے ہیں اور روس چین مغربی ملکوں تک انھوں نے اپنی جنگ کا دائرہ پھیلا لیا ہے اس لیے نہ اب یہ جنگ قومی جنگ رہی نہ علاقائی بلکہ یہ ایک ایسی عالمی جنگ بن گئی ہے جس سے نہ صرف قوموں کی آزادی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ ہزاروں سالوں کا ارتقائی سفر طے کرکے اس ترقی یافتہ مقام پر پہنچنے والی انسانی تہذیب کو بھی حقیقی خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو انسانوں اور حیوانوں کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔
افغانستان ہمارا پڑوسی اور مسلم ملک ہے اور دہشت گرد آپریشن ضرب عضب سے گھبرا کر افغانستان کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنا رہے ہیں پاکستان ایک عرصے سے افغانستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کو استعمال نہ کرنے دے لیکن موجودہ افغان حکومت پاکستان کے مطالبے کو نظرانداز کرتی رہی لیکن یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ نہ صرف افغان حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف تیزی سے کارروائیاں شروع کی ہیں بلکہ پچھلے دنوں ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا ایک اہم دورہ کیا اور افغان حکمرانوں سے بامعنی بات کی جس کے نتیجے میں دونوں حکومتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ملک سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں کے اندر بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ میں بھی اضافہ کریں گے۔ اسی دوران ترکی کے وزیراعظم نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا ہے یہ دونوں کانفرنسیں انتہائی اہم اور بامعنی ہیں۔ افغانستان اور ترکی کی حکومتوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے عزم سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی مدد مل سکتی ہے اگر یہ تینوں پڑوسی اور برادر ملک اس جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو یہ خطہ دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہوسکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کے نام پر آسمان سر پر اٹھا لینے والا بھارت محض اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختلف بہانوں سے روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی نظریاتی کجروی کے باعث یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس وبا کو مل جل کر نہ روکا گیا تو یہ وبا بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اپنے ہم مذہبوں کا قتل عام کرنے والے ہندو قوم یعنی کفار کا کیا حال کریں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اسی دوران ایک مشترکہ اجلاس میں جان کیری نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر جنگ لڑنے پر زور دیا ہے بلکہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ دہشت گرد ایک ارب مسلمانوں کے ترجمان نہیں ہیں امریکا دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اسلام کے خلاف نہیں۔ یہ ایسے حوصلہ افزا حقائق ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔