ذرائع ابلاغ کی غفلت اور ثقافت کا زوال

محض ایک دہائی میں پاکستانی معاشرے کے خدوخال میں خارجی عناصر سے متاثرہ تبدیلیاں بہت واضح اور بہت مستحکم ہوگئیں۔

ذرائع ابلاغ نے غیرملکی وغیر ثقافتی تفریح کا اِس قدر پرچار کیا کہ عوامی سطح پر اس کے اثرات نمایاں نظر آنے لگے۔ فوٹو فائل

ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی 'کسی قوم یا طبقہ کی تہذیب' کے ہیں۔ ثقافت سے مراد کسی معاشرے میں موجود وہ رسوم و رواج اور اقدار ہیں، جس پر معاشرے کے تمام افراد متفقہ نقطہ نظر رکھتے ہوں اور مشترکہ طور پر عمل کرتے ہوں۔ یہ تمام مشترکہ عادات، ارادی و غیر ارادی طرزِ معاشرت، رسوم و رواج، رہن سہن اور اقدار، سماج میں عزیز و مقدس و مقدم تصور کیے جاتے ہیں۔

فردی اصطلاح میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام تعلیمات وعادات جو ایک انسان اپنے معاشرے کا عضو ہونے کے عنوان میں حاصل کرتا ہے ' ثقافت' ہے۔ یوں نسل در نسل شناخت، ذخیرہ معلومات، معاشرتی و سماجی و خاندانی اقدار اور مقامی و ماحولیاتی ثقافت کے انتقال کا اہم سبب ہوتی ہے۔ ثقافت کی کوئی ایک اور جامع تعریف محال ہے مگر اس کے عمومی ترکیبی عناصر چار (4) ہیں ۔ زبان (بولی)، لباس (پہناوا)، طرزِ معاشرت (زندگی گذارنے کے رہنما اصول) اور رسوم و رواج۔

ثقافت ذرائع ابلاغ کے پاس عوام الناس کی امانت ہے۔ ذرائع ابلاغ کسی علاقے، قوم یا سماج کی ثقافت و تہذیب اور روایات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامہ ہو یا فلم، موسیقی ہویا شور، خبر ہو یا فیچر، تبصرہ و تجزیہ ہو یا تعریف و تنقید ''ابلاغ'' ہے۔ ذرائع ابلاغ، ابلاغ کی مختلف اقسام سے خبریں، معلومات، تفریح و دیگر ظاہری و مخفی اطلاعات عوام الناس تک بلواسطہ یا بلا واسطہ پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس رو سے ابلاغ کے طے شدہ عمومی کردار درج ذیل ہیں؛

۱۔ عوام الناس میں شعور و آگہی کا فروغ

۲۔ عوام الناس تک حالاتِ حاضرہ کی رسائی

۳۔ عوام ا لناس کے لیے تفریحی مواد کی فراہمی

۴۔ عوام الناس کے مفاد میں معاشرے و حکمراں طبقے کی نگرانی

ذرائع ابلاغ علاقائی تہذیب و ثقافت سے جامہ زیب مذکورہ کردار ادا کرتے ہیں۔ ابلاغ کے لیے واجب ہے کہ ذرائع اس ہی زبان، لباس، طرزِ معاشرت اور روایات کی سرپرستی کرے جو علاقہ کی پہچان ہوں۔ بصورتِ دیگر سماج میں کردار اور پیغام دونوں غیر موثر رہ جائیں گے، بلکہ عین ممکن ہے کہ ثقافت اسے دشمن گردانے۔ ذرائع ابلاغ کو ثقافت کے مثبت نظریات و افکار کی نشر و اشاعت اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ثقافت معاشرے کی شناخت اور معاشرہ فرد کی پہچان ہے۔ ثقافت کا مستحکم وجود فرد کی ترقی اور آئندہ نسلوں کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔

زبان اور لباس ثقافت کا ظاہر ہیں۔ یہ دو عناصر بقیہ دوعناصر یعنی طرزِ معاشرت اور رسوم رواج کی بہ نسبت زیادہ لچکدار ہیں۔ ان دونوں عناصر میں آمیزش آسان اور فوری ہوسکتی ہے۔


'زبان' سے مراد الفاظ، لہجوں اور ادائیگی کا یسا مرکب، جن کی مدد سے مآخذ 'لکھ' یا 'بول' کر اپنا پیغام وصول کنندہ تک پہنچادے۔ لکھنے والی زبان 'رسمی' جبکہ بولنے والی زبان 'رسمی یا غیر رسمی' دونوں ہوسکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ چوںکہ پُرتکلف اور تہذیب کےعکاس ہوتے ہیں لہذا تحریر و تقریرمیں قواعد و آداب سے ملحوظ رسمی زبان کے پابند ہیں۔

'لباس' علاقہ غیر میں زبان سے بھی پہلے فرد کی علاقائی شناخت ہوتا ہے۔ لباس دراصل وہ پیراہن ہے جو ماضی سے جڑی روایات، مذہبی یا علاقائی نظریات اور سماجی اقدار کے سانچے میں ڈھل کر فرد کی ثقافتی شخصیت کا ٓئینہ دار ہے۔ ذرائع ابلاغ کا علاقائی لباس کو خاطر میں نہ لانا اور اُسکے برعکس کسی اور ثقافتی لباس کا پرچار، معاشرے میں افراد کی وضع قطع بدلنے کے ساتھ ساتھ انہیں گذشتہ روایات و نظریات سے بغاوت پر بھی اکساتا ہے۔ اس ضمن میں غفلت افراد کو اپنی ہی ثقافت سے بیزار کرسکتی ہے۔

طرزِ معاشرت اور رسوم و رواج ثقافت کا باطن ہیں۔ طرزِ معاشرت رہن سہن، عقائد، نظریات، افکار، علم، آداب، خانگی معاملات اور قوانین و دستورات کا مجموعہ ہے۔ یہ مخصوص مذہبی، علاقائی، خاندانی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے پس منظر میں ترتیب پاتی ہے اور اِسی کے بطن سے رسوم و رواج یا روایات جنم لیتی ہیں۔ ان روایات و رسوم و رواج کا مقصد معاشرتی زندگی کو خوشگوار اور سہل بنانا ہے مگر یہی روایات اگر فطری تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتی ہوں تو عظیم ترین ثقافتوں کے انحطاط کا سبب بن جاتی ہیں۔

جغرافیائی لحاظ سے اگر کئی علاقائی ثقافتیں کسی اِکائی میں ضم ہوجائیں تو وہ ثقافت ایک سے زیادہ سماج یا مزاج کا ملغوبہ ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ فی زمانہ ایسی ملغوبہ ثقافت کی واضح مثال ہے۔ ہماری ثقافت اس وقت بالخصوص بالائی علاقوں میں بلوچ، پٹھان اور ہزارہ قبائل جبکہ زیریں علاقوں میں سندھی، پنجابی، مکرانی، مہاجرین اور متعدد لسانی و نسلی گروہوں پر مشتمل ہے۔

اس ثقافت پر عربی، فارسی، ہندی اور دیگر جنوبی ایشیائی ثقافتوں کے اثرات نمایاں ہیں۔ پاکستانی ثقافت کا ارتقاء کشمیر سے کوئٹہ تک اپنی لچک کے سبب علاقائی آمیزش سے مزین ہے۔ پچھلی صدی تک اس ثقافت نے بڑی حد تک اپنی اقدار و معاشرت کی نگہبانی کی ہے۔ مگر دورِ جدید بالخصوص 21 ویں صدی کی شروعات سے ہی متعدد عوامل کے نتیجے میں تیزی سے سماجی و معاشرتی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور خطے میں نئے سماجی ڈھانچے، معاشرتی نظام اور ثقافتی اقدار کی بنیادیں استوار ہونا شروع ہوگئیں۔ ان عوامل میں سرِ فہرست ''ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ'' کی عام فرد تک رسائی ہے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی اپنی ترقی بھی اسی دور سے موسوم ہے۔

21ویں صدی کے اوائل میں پاکستانی معاشرہ آزاد اور نجی ذرائع ابلاغ سے روشناس ہوا، اس عالم میں عالمی سیاست اور طاقتیں علاقائی سیاستوں کو زیر کرنے کے درپے تھیں۔ معاشرے میں اطلاعت و نشریات سے متعلق ذرائع ابلاغ کا کردار بے انتہا محتاط، ذمہ دار اور سرگرم رکن کا ہوتا ہے اور پاکستان اِس آزاد اور خود مختار کردار کی ذمہ داریوں سے آشنا نہ تھا۔ نجی ذرائع ابلاغ کو ملنے والی آزادی چوں کہ انتظامی سطح پر مناسب منصوبہ بندی کے نتیجے میں نہیں آئی، سو کسی باقاعدہ ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں قرار پائی۔ اوپر سے عوام میں فوری مقبولیت کی چاہ نے ذرائع ابلاغ کو اپنے بنیادی کرداروں کو بالائے طاق رکھنے پر مجبور کردیا۔ اس دانستہ یا غیر دانستہ طرزِعمل کے پیچھے جہاں سازشی عناصر سرگرم تھے وہاں ابلاغ سے متعلق تعلیم و تربیت کا فقدان بھی اُن کے بھٹکنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک تھا۔ صدی کے اوائل میں ابلاغ چونکہ غیر ذمہ دار اور غیر متعین سمت میں آگے بڑھنے لگا اس لیے سب سے پہلے پاکستانی ثقافت کے ظاہر یعنی زبان و لبا س اس سرپٹ گھوڑے کے پیروں تلے باقاعدہ روندی گئی۔

ذرائع ابلاغ نے غیرملکی وغیر ثقافتی تفریح کا اِس قدر پرچار کیا کہ عوامی سطح پر اس کے اثرات نمایاں نظر آنے لگے اور پاکستانی عوام اپنی مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار سے مزین ثقافت سے بد گمان و بدظن ہونے لگے۔ اُردو جیسی زندہ زبان ہندی اور انگریزی کا چربہ ہوکر رہ گئی۔ اُردو کا مآخذ چونکہ عربی و فارسی جیسی وزن دار، عظیم اور پُرتکلف زبانیں اور تہذیبیں ہیں اِس لیے فطرتاً اُردو زبان بھی عامیانہ پن سے بیزار ہے۔ ذرائع ابلاغ نے واقعتاً تفریح کی نقاب میں پھکڑ پن اور نامناسب الفاظ کے کثرت سے استعمال سے اُردو زبان کی شستگی اور باادب لہجہ پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اِسی طرح قومی لباس شلوار قمیض کو یکسر نظر انداز کرکے مغربی طرز کے پہناوے کی ناصرف پذیرائی کی بلکہ قومی لباس کو کنارے ہی لگا دیا گیا۔ مغربی زبان و لباس کی مقبولیت نے مغربی نظریات و افکار کے لیے بھی پاکستانی تہذیب و ثقافت کے دروازے کھول دیئے۔ یوں پاکستان میں خواندگی کا غیر مناسب تناسب اور عوامی سطح پر جاہلانہ رسوم و رواج سے عاجز و بیزار افراد اپنی اور معاشرتی اصلاح کے بجائے ترقی یافتہ مغربی افکار و نظریات کے دروازے پرآبیٹھے۔ محض ایک دہائی میں پاکستانی معاشرے کے خدوخال میں خارجی عناصر سے متاثرہ تبدیلیاں بہت واضح اور بہت مستحکم ہوگئیں۔

نجی ذرائع ابلاغ کی عوامی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی نے سرکاری ذرائع ابلاغ کی اقدار کو بھی متاثر کیا اور مجموعی طور پر میڈیا نے اپنے ذاتی و معاشی مفاد اور سازشی غیر مرئی ہاتھوں کی سرپرستی میں تعلیم اور نگرانی جیسے اہم فریضہ سے دانستہ چشم پوشی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجتاً معاشرہ منتشر، گمراہ اور بے راہ روی کا شکار ہوا۔ ثقافت کا روشن ستارہ غیر علاقائی نظریات و عقائد کی دھند میں دھندلا گیا۔ گوکہ اس سے کئی ایسی روایات و رسوم بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچیں یا اب بھی عوامی شعور کی بیداری کے لیے اذہان پر دستک ہیں جو فرد کی فطری آزادی اور جبلت کے منافی تھیں، جیسے ونی، کاروکاری، وٹہ سٹہ یا بچپن میں شادی کی فرسودہ روایات سے عوام میں بیزاری کی بیداری خوش آئند ہے۔ بلاشبہ یہ ذرائع ابلاغ کے تعلیمی کردار کی طرف اشارہ ہے مگر تاحال یہ ناکافی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ نہ صرف ضابطہ اخلاق اور عوامی مفاد میں مشترکہ پالیسی کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ مثبت ثقافتی اقدار کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے، بلکہ ممکنہ حد تک غیرعلاقائی ثقافتی یلغار کا جواب دینے کی صلاحیت کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کرے۔ یا رہے؛
'' ثقافت اتحاد کی وہ ڈھال ہے جس سے ذرائع ابلاغ معاشرے کی پوشیدہ و آشکارہ برائیوں کے حملوں کا بھرپور دفاع کرتی ہے اورمثبت مضبوط و مستحکم روایات وہ ہتھیارِ آہنی ہیں جن سے غیرعلاقائی و ثقافتی حملوں کا جواب دیا جاتا ہے''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story