پتلی گلی کہاں ہے..... ؟

انیس منصوری  اتوار 15 مارچ 2015
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

محبت سب سے کیجیے لیکن بھروسہ چند پرکیجیے۔ یہ مشہور جملہ شیکسپئیر نے کہا تھا لیکن اس پر عمل کرنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ آخر وہ کون سے چند لوگ ہیں جس پر بھروسہ کیا جائے یہاں تو اندازہ لگانا ہی مشکل ہوتا ہے کہ کب، کون،کہاں،کس وقت آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے۔ اسی لیے تو سیاست ہو یا کاروبارِ زندگی کسی پراعتبار آتا ہی نہیں ہے۔

عام طور پر اپنے ہی لوگ موقعہ کی تاک میں ہوتے ہیں اورکبھی کبھی اپنوں کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس خوبصورتی کے ساتھ دوسرے کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر آپ کی تباہی کا سامان بن جاتے ہیں ۔ میرا اشارہ ہرگز بھی ذوالفقارمرزا کی طرف نہیں اور نہ ہی میں اُن وزرا کی بات کر رہا ہو جو نوازشریف کی مشکل میں اضافہ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔

نہ ہی اُن وفادار ساتھیوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو انصاف کی آنکھوں پر پٹی پر پٹی لگائے جارہے ہیں ۔ اور نہ ہی کراچی کے اُن ساتھیوں پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کے متعلق آج کل شک ظاہرکیا جارہا ہے کہ وہ کب واپس پلٹ جائے ۔ میں تو سیاست کے ایک ہی رنگ کو دو علیحدہ علیحدہ کپڑوں پر چڑھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔

آئیے پہلا کپڑا دیکھتے ہیں جس پر سیاست اور مفاد کا رنگ کس خوبصورتی سے چڑھایا جارہا ہے اور ہم سب کو یوں سمجھا جارہا ہے کہ ہماری آنکھیں رنگ اورکپڑے کی پہچان نہیں رکھتی ۔ زیادہ دورکی بات نہیں ہے ۔ انڈیا میں مودی سرکار آتے ہی جب پاکستان کے سفیر نے حریت رہنماؤں سے انڈیا میں ملاقات کی تھی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسے لگا تھا کہ جیسے کشمیر آزاد ہو گیا ہے اور اُس نے روٹھی ہوئی بیوی کی طرح اپنے سسرال سے سارے تعلقات ختم کر لیے تھے ۔

آپ کو یاد ہو گا کہ کس طرح سے مذاکرات کا عمل تہس نہس ہوا اور پھر سرحدوں پر فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ بھارت سے ایسے بیان آرہے تھے جیسے لگ رہا تھا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور اب فیصلہ کن گھڑی آپہنچی ہے اور یوں لگا کہ یہ معمول کی جو پاکستانی سفیر کی ملاقات ہے وہ اب کبھی بھی نہیں ہو سکے گی ۔لیکن سیاست تو نام ہی روٹھوں کو منانے کا ہے ۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا اور پاکستانی سفیر نے حریت کے سب سے اہم رہنما سید علی شاہ گیلانی سے ملاقات کی اور کوئی آواز بھی نہیں آئی ۔ نہ کسی نے ہاتھوں میں پتھر اٹھایا اور نہ کسی نے اپنے گھر کا شیشہ توڑا۔ پہلے مودی سرکار کا غصہ ٹھیک تھا یا اب  بھارتیہ جنتا پارٹی کی خاموشی ایک ڈراما ہے ؟ یہاں سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ پہلے ہمارے سفیر کے حریت رہنماؤں سے ملنے کو صرف سیاسی طور پرکیش کرانے کے لیے شورمچایا گیا تھا اور اب ہونے والی ملاقات پر خاموشی بھی ایک سیاسی ادا ہے ۔

آپ الجھیں نہیں ابھی کہانی میں بہت ساری باتیں ہیں ۔ جب مودی سرکار نے حریت رہنماؤں سے ملنے کا کڑوا گھونٹ پی لیا اورکچھ نہیں کہا تو اب ایسا کیا ہوا کہ بھارت میں موجود پاکستانی سفیر کوصرف اس بات پر دفتر خارجہ طلب کیا کہ پاکستان میں ذکی الرحمٰن لکھوی کی نظر بندی ختم کیوں ہو رہی ہے ؟۔پہلے جس مسئلے کو انھوں نے بہت زیادہ بڑھایا اب اُس پر اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی پھر یہ ڈراما کیوں شروع ہوا ۔

اس کی وجہ یہ ہے مودی سرکار اپنی جماعت کے عام کارکن اور اپوزیشن کو جواب دینا چاہتی تھی جس کی وجہ سے کئی دنوں سے بھارتی سیاست میں ہلچل آئی ہوئی ہے ۔ وہ کون سی بات ہے ؟

ہندو قوم پرست جماعت  BJP نے جس طرح سے مسلمان دشمن سیاست کی ہے اور جس طریقے سے اُس نے مقبوضہ کشمیر میں الیکشن لڑا اُس کے بعد اُن کے دور میں ہی حریت کے ایک اہم رہنما اور علیحدگی پسند سوچ کے حامل مسرت عالم بھٹ کو رہا کردیا گیا ۔ مسرت عالم کو چند برس قبل اُن مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار کرلیاگیا تھا جس میں 100 سے زائد کشمیری شہید ہوئے تھے ۔

اب مودی حکومت میں یہ کیسے ہوگیا کہ مسرت رہا ہوگئے ۔ اس دباؤ کوکم کرنے کے لیے لکھوی کی رہائی کو ایشو بنایا جارہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انتہا پسند حکومت نے مسرت عالم کو رہا کیسے کر دیا ۔ اس کے لیے مودی نے پارلیمنٹ کے شور شرابے میں کہا کہ اُن کو بھارت کی وفاقی حکومت نے رہا نہیں کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کی مفتی حکومت نے رہا کیا ہے۔ مگر عقل مند لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید اور BJP کی مشترکہ حکومت ہے ۔

یہ ہے سیاست کہ جب ضرورت ہو تو کسی کو بھی دہشت گرد بنا کر سیاست کی جائے اور جب کوئی اور کھیل کھیلنا ہو تو پھر سب کو رہا کر کے اسے سمجھداری کا نام دیا جائے ۔ یہ تھا وہ رنگ جس کا بھارت کو کپڑے پر چڑھا ہوا دیکھا اب اسی رنگ کو پاکستانی سیاست پر چڑھا ہوا بھی دیکھ لیں ۔ یہاں بھی سیاسی سازشیں ہیں ۔

ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس رنگ کو بھی دیکھتے ہیں اور اس کی کڑیوں کو بھی ملاتے ہیں آپ کو دونوں جانب کئی چیزیں ایک جیسی ملے گی ۔ سب سے پہلے قصہ بظاہر شروع ہو رہا ہے MQM کے مرکز پر رینجرز کے حملے سے ۔ پہلا سوال یہ کہ رینجرز نے یہ چھاپہ کیوں مارا اور دوم یہ کیا اس سے ٹارگٹ حاصل کر لیا گیا؟ کیا رینجرز کا چھاپہ مارنا ہی ٹارگٹ تھا ؟یہ چھاپہ اُس وقت کیوں مارا گیا جب سینیٹ کا الیکشن ہوچکا ۔

MQM کے رہنماؤں کو اس طرح سے کیوں پیش کیا گیا کہ آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑی ۔کیا ٹارگٹ صرف  MQMہے یا کوئی اور بھی ۔ اس حوالے سے کئی آوازیں سُنائی دے رہی ہے کہ شاید کوئی گورنر راج کو نافذ کرنے کی بات ہورہی ہے ۔ یہ کام جہاں تک میری کم معلومات ہے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جہاں تک میرے جاسوس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اس کے لیے تیار نہیں ہے۔

تو پھر کیا یہ چھاپہ جس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ یہ گورنر راج کی طرف ایک قدم ہے اُس کی حمایت وزیر داخلہ چوہردی نثار نے کیوں کی اور انھوں نے اپنے بیان میں یہ کیوں کہا کہ اس حوالے سے سیا سی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔ اگر سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا ہے تو پھر آصف علی زرداری کیوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ مگر کیا اس طرح سیاسی جماعت کے دفتر پر چھاپہ اور پھر اُن کے رہنماؤں کی تذلیل سے بات یہی ختم ہوجائے گی۔

یہاں ایک تیر سے کئی شکارکھیلنے کی کوشش کی گئی ہے ۔کراچی کو کوئٹہ نہیں بننا چاہیے۔ اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ یہاں کا مئیر بھی وہ منتخب کرے یہاں کے ترقیاتی کام بھی وہ کریں اور یہاں کی زیر زمین دنیا کو بھی وہ کنٹرول کرے تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔یہاں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ۔

ویسے ہی چلتے چلتے بس اشاروں میں اتنا ہی بہت ہے کہ کوئی بتائے گا کہ ایک رکن اسمبلی کو ایک جگہ کے معاملے میں کس کس طرح کی دھمکی کس کس ادارے نے دی تھی اور آج کل میڈیا میں اکثر نظر آنے والے رکن اسمبلی کو کتنے دن چھپنا پڑا تھا ۔ یہ تو آپ کو رکن اسمبلی بتائے گا یا اُس ادارے کا اہم آدمی ۔ اُس سے سارے نشانے سمجھ آجائیں گے ۔

ہم تو بس کھیل دیکھ رہے ہیں۔کچھ کھیل بڑے ہوتے ہیں لیکن کھیلے چھوٹے گراؤنڈ  پر ہے ایسے میں ہم تو بسر دعا کرتے ہیں کہ سلامتی سے کوئی پتلی گلی پکڑ کر گھر نکل جائے۔ اور گھر جا کر کہیں کہ ہم نے تو کچھ نہیں دیکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔