ہم مسیحی ہوں یا مسلمان سب پاکستانی ہیں

میں ایک مسلمان ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ کسی مذہبی اقلیت کی حفاظت میرا دینی فرض ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمارے خوش فہم حکمرانوں کے بقول انھیں بھاری تعداد میں جس مقصد کے لیے قوم نے ووٹ دیے تھے وہ تھا بھارت کے ساتھ دوستی لیکن بھارتیوں نے ہماری قدر نہ کی اور دوستی کے بدلے ہمیں برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کی بدقسمتی سے ہم بھی اب ایک ایٹمی قوت ہیں اور اپنی بقا کے لیے اسے استعمال کرنے سے ہچکچائیں گے نہیں، اس لیے بھارت نے اب ہمارے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ شروع کر دی ہے۔

اپنے ساتھ ملحق ہماری سرحدوں پر بدامنی بھی پھیلاتا ہے اور ملک کے اندر کبھی خود کش اور کبھی بم دھماکے کر کے ہم پاکستانیوں کی جانیں بھی لیتا ہے اس طرح ہمارے ہاں امن کی فضا قائم نہیں ہونے دیتا۔ اس نے اپنے جس شعبے کے سپرد یہ کام کر رکھا ہے وہ نہایت ہی دانشمندی کے ساتھ ہمیں پریشان کرتا ہے اور چین سے بیٹھنے نہیں دیتا بلکہ ایک ایسی فضا قائم رکھنے میں کامیاب ہے کہ ہم ہر وقت کسی اچانک خطرے کے خوف میں مبتلا رہیں اور زندگی غیر یقینی اور پریشانی کی کیفیت میں گزارنے پر مجبور ہوں۔

وہ بلاشبہ اس مقصد میں کامیاب جا رہا ہے۔ صرف لاہور میں ہی گزشتہ پانچ دس برسوں میں بڑے بڑے پانچ چھ سو حادثات ہو چکے ہیں۔ ملک کے کسی بھی مقام پر کوئی حادثہ ہو تو ملک بھر میں ہر جگہ اسے اپنے قریب ہی سمجھا جاتا ہے خصوصاً کوئی ایسا حادثہ جس کی زد میں پاکستانی برادری کا کوئی حصہ ہو جیسے یوحنا آباد کے حادثے میں مسیحی طبقے کی ایک بڑی تعداد اتوار کے دن اپنی عبادت کے وقت نشانہ بن گئی اور یوں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بڑی بے چینی پھیل گئی۔

دو گرجا گھروں میں خود کش دھماکے کیے گئے اوراس کے بعد جس طرح اشتعال کی کیفیت میں ان دھماکوں کا ردعمل ہوا وہ انتہائی پریشان کن اور اشتعال انگیز ہے دو افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ یہ دونوں مسلمان تھے مگر کوئی بھی ہوں زندہ جلانا ایک نہایت ہی وحشیانہ فعل ہے۔

میں ایک مسلمان ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ کسی مذہبی اقلیت کی حفاظت میرا دینی فرض ہے اور اس کے ادا نہ کرنے سے میں کسی اجتماعی گناہ کا مرتکب ہوتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ قیام پاکستان کے بعد شروع شروع میں سندھ میں کہیں کسی ہندو اور مسلمان کے درمیان کوئی مقدمہ چل رہا تھا اس دوران ایک بار مقدمے کے ہندو فریق نے کہا کہ جب تک پاکستان ہے کوئی مجھ سے یہ مقدمہ جیت نہیں سکتا دراصل وہ یہ کہہ رہا تھا کہ کسی غیر مسلم کا عدالتیں بھی احترام کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ہر ممکن رعایت کرتی ہیں اس لیے کوئی مسلمان مجھ سے یہ مقدمہ نہیں جیت سکتا۔

یہ ایک اقلیتی پاکستانی کا اعلان تھا اور اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ اس ملک کا ایک مراعات یافتہ شہری ہے کوئی عام شہری نہیں ہے اور اسے اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ اس ہندو پاکستانی کے ذہن میں جو بات بیٹھی ہوئی تھی وہ اس ملک کی مسلمان اکثریت کے مزاج اور عام رویے پر مبنی تھی مثلاً کچھ بھی ہو جائے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان کسی اقلیت کے بارے میں متعصب بھی ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے موقع پر تو مسلمانوں کے جید علماء تک نے بھی ہندو کانگریس کا ساتھ دیا تھا اور اب تک کانگریسی علماء کہتے ہیں کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی تعصب نام کی کوئی چیز مسلمانوں کے ذہن میں نہیں ہوتی ان کی جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ہمیں خصوصی حکم دیاگیا ہے اور ان کے مذہبی پیشواؤں کا احترام ہم پر واجب ہے۔


لاہور میں گزشتہ اتوار کو مسیحی آبادی میں جو کچھ ہوا وہ قطعاً مسیحی مسلمان تنازعہ نہیں تھا لیکن ہمارے مسیحی دوستوں نے ضرورت سے بڑھ کر ردعمل ظاہر کیا اور کئی حدوں سے گزر گئے۔

میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کی طرح ہمارے پاکستانی مسیحی بھی روا دار لوگ ہیں اور مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں یہ سب پاکستان کے دشمنوں کا منصوبہ اور سازش تھی اور اس سانحے کو پاکستان کے اندر دو قومی تنازع کھڑا کرنا مقصود تھا۔ اس کے باوجود کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کی طرف سے زیادتی ہوئی لیکن پاکستان کی مسلم آبادی میں اس کا کوئی منفی ردعمل نہیں ہوا بلکہ اب تو یہ خود کش یا بم دھماکے ایک انتہائی ناپسندیدہ حادثہ بن گئے ہیں۔

اس سے قبل پشاور میں بھی ایک گرجے کی توہین کی گئی لیکن ایسی توہین تو کئی بار ہماری مسجدوں کی بھی ہو چکی ہے اور اب بھی ہر جمعہ کے دن سیکیورٹی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس حادثے پر مسیحیوں سے زیادہ مسلمان پریشان ہیں اور ہمارے حکمران ایک اضطراب سے گزر رہے ہیں۔

پاکستان کے اندر صرف مسلم اکثریت میں ایسے حادثے ایک خبر تو ضرور بنتے ہیں مگر کوئی تنازعہ اور عالمی مسئلہ نہیں بنتے لیکن اب مسیحی دنیا کے مذہبی رہبر اور رہنما اس حادثے پر بجا طور پر مضطرب ہیں اور یوں یہ حادثہ پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر باہر کی مسیحی دنیا تک پھیل گیا ہے اور یہ ہمارے ازلی و ابدی دشمن کی کامیابی ہے۔

اس سانحے میں مسیحی عقیدے کے افراد نے اگر کچھ زیادتی کی ہے تو اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انھیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی ایسے واقعے کی کوئی توقع نہ تھی۔

ان میں سے شاید کچھ نے یہ بھی محسوس کیا ہو کہ وہ چونکہ بظاہر اقلیت ہونے کی وجہ سے ایک کمزور طبقہ ہیں اس لیے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے لیکن یہ سب غلط اور خلاف واقعہ ہے۔

میرا ایک پرانا مسیحی ملازم میرے خیال میں یوحنا ٹاؤن میں رہتا ہے چنانچہ میں اسے مسلسل تلاش کرتا رہا لیکن جب اس کا فون ملا تو پتہ چلا کہ وہ اس آبادی سے ملحق ایک دوسری جگہ پر رہتا ہے اس پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ میرے گھر والے بھی اس مسیحی ساتھی سے واقف ہیں اس لیے وہ بھی اس کے لیے متفکر رہے اور مجھے یہ سب دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہم مسلمان اپنے غیر مسلم ساتھیوں اور ہموطنوں کا کس قدر دھیان رکھتے ہیں اور ان کے لیے کسی حادثے کی صورت میں کس قدر بے چین ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ صورت حال باقی رہے گی اور پاکستان کی قومی نفسیات کا ایک حصہ بن کر رہے گی۔
Load Next Story