بلدیاتی ادارے یا لمیٹڈ کمپنیاں
پاکستان کے موجودہ آئین کے آرٹیکل 140(A)کے تحت ملک میں بلدیاتی اداروں کا قیام آئینی طور پر ضروری ہے
DERA GHAZI KHAN:
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 140(اے) میں ترمیم کرکے ملک کا نام پاکستان لمیٹڈ کمپنی رکھ دے اور اپنی من مانیاں جاری رکھے۔
انھوں نے یہ ریمارکس ایک ٹھیکیدار کی درخواست پر کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کے خلاف تاحکم ثانی فیصلہ دیتے ہوئے دیے اور مزید حکم دیا کہ مویشی منڈیوں سے حاصل شدہ فیس اور دیگر فنڈزکی نگرانی متعلقہ ٹی ایم ایز ہی کریں گی۔
زیر سماعت درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ حکومت پنجاب نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرکے انتظامی اختیارات کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کے سپرد کردیے ہیں جو غیر قانونی حکومتی اقدام ہے حالانکہ انتظامی اختیارات متعلقہ بلدیہ کا حق ہے جسے حکومت پنجاب نے ختم کردیا ہے۔ فاضل جج نے اپنے حکم میں کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کو مویشیوں کا انتظام سنبھالنے سے روک دیا ہے۔
سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل میمن نے گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتیں حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں اور انتظامی معاملات میں مداخلت کرکے حکومت کو کام نہیں کرنے دیتیں اور حکومتی معاملات میں حکم امتناعی جاری کرکے بے جا مداخلت کرتی ہیں جو درست نہیں ہے۔
پاکستان کے موجودہ آئین کے آرٹیکل 140(A)کے تحت ملک میں بلدیاتی اداروں کا قیام آئینی طور پر ضروری ہے اور ملک میں بااختیار بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کو نچلی سطح پر اپنے بلدیاتی نمایندوں کے انتخاب کا حق آئین دے رہا ہے مگر ملک کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اپنی اپنی صوبائی حکومتوں میں عوام کو یہ حق نہیں دیا اور اپنی حکومتوں کے بیس ماہ کے دوران صرف بلدیاتی انتخابات کرانے کی باتیں کیں جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی عوام کو اپنے اس آئینی حق سے محروم رکھا گیا تھا کیونکہ سیاسی حکومتیں عوام کو یہ حق دینے میں ہمیشہ سے گریز جان بوجھ کر کر رہی ہیں جب کہ عوام کو یہ حق صرف ان فوجی حکومتوں کے دور میں ملا جن کو یہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ آمریت کا دور قرار دیتی آئی ہیں اور خود عوام کے لیے آمروں سے بھی بدتر ثابت ہوتی آرہی ہیں۔
عمران خان کو لوگوں نے سچا لیڈر سمجھ کر ان پر اعتماد کیا تھا اور توقع تھی کہ عمران خان اپنے وعدے کے مطابق کے پی کے میں تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرا دیں گے جس کے بعد مجبوراً سندھ اور پنجاب کو بھی بلدیاتی انتخابات کرانا پڑیں گے مگر تینوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات پونے دو سال میں بھی نہیں کرائے اور سپریم کورٹ کو سختی سے ایکشن لینا پڑا۔ اور الیکشن کمیشن اگر کوششیں تیز کرے تو مئی میں کے پی کے میں اور ستمبر میں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔
پاکستان میں ایک با اختیار اور حقیقی بلدیاتی نظام سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں دیا تھا جو واقعی مثالی تھا جسے بدقسمتی سے ہمارے جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں نے اپنی جمہوریت کی دعویدار حکومتوں میں ختم کرکے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام دوبارہ بحال کرکے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا تھا کہ جمہوری کہلانے والی سیاسی حکومتوں میں اتنی بھی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام سے بہتر بلدیاتی نظام عوام کو دے سکتیں۔
ملک کو فوجی آمر سے اچھا بااختیار بلدیاتی نظام دینے کی بجائے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کا بنایا ہوا بلدیاتی نظام دیا جس میں عوام کی بجائے بیوروکریٹس با اختیار اور عوام کے منتخب نمایندے برائے نام بااختیار اور کمشنر، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت اور کمزور رہیں گے اور بااختیار بلدیاتی نظام کا خواب سیاسی حکومتوں میں کبھی پورا نہیں ہوگا۔
سیاسی حکومتیں ہر دور میں بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کی محتاج اور غلام رہی ہیں اور سیاستدانوں کی اکثریت کی ذہنیت ہی جی حضوری کر رہی ہے اس لیے چاروں صوبائی حکومتوں نے ایک کمزور بلدیاتی نظام کا بل اپنے ان ارکان صوبائی اسمبلیوں سے منظور کرایا ہے جو خود ایک کمزور بلدیاتی نظام کے بھی مخالف ہیں اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہی نہیں چاہتے کہ بلدیاتی نمایندے منتخب ہوں اور ان کی اہمیت ختم ہو جائے کیونکہ یہ ارکان خود کو ہی بلدیاتی نمایندہ سمجھتے ہیں اور سالانہ ترقیاتی فنڈ ان ہی کو ملتا ہے جو بلدیاتی اداروں کا آئینی حق ہے مگر غیر قانونی طور پر ارکان اسمبلی ہتھیا لیتے ہیں۔
موجودہ صوبائی حکومتیں بھی نہیں چاہتیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور اسی لیے بے اختیار بلدیاتی نظام بنایا گیا ہے اور اسے بھی مزید کمزور کرنے کے لیے من مانیاں جاری ہیں جس کا ثبوت پنجاب حکومت نے کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کو مویشی منڈیوں کا انتظام دے کر دیا ہے جو ہمیشہ سے متعلقہ بلدیہ کا حق ہے مگر بلدیاتی اداروں سے یہ انتظامی اختیار بھی چھینا جا رہا ہے جس پر فاضل جج کو کہنا پڑا ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 140(A)میں ترمیم کرکے ملک کا نام پاکستان لمیٹڈ کمپنی رکھ لے۔
سیاسی حکومتوں کے دور میں آئین پر عمل نہ کرانے کا ایک بڑا ثبوت ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانا ہے جب کہ فوجی حکومتوں میں ہمیشہ 140(A)پر عمل کرایا گیا جو آئین کے اس آرٹیکل پر عمل کی پابند نہیں ہوتیں مگر انھیں عوامی حمایت کے لیے بلدیاتی انتخابات کرا کر عوام کو حکومت میں شریک کرنا ہوتا ہے۔
اس لیے ہر فوجی صدر نے بلدیاتی انتخابات ضرورکرائے اور عوام کو یہ حق ضرور دیا کیونکہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہے جہاں سے تربیت لے کر اور عوام کی خدمت کرکے سیاستدان اسمبلیوں تک پہنچے جب کہ دوسرے ملکوں میں بلدیاتی میئر بعد میں اپنے ملک کے حکمران بھی بنے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔
ضلع حکومتوں کے خاتمے کے بعد سیاسی حکومتوں میں ملک کے بلدیاتی اداروں میں جو لوٹ مار، اقربا پروری، تباہی، سیاسی بنیاد پر بھرتیاں، لاکھوں روپے رشوت پر افسروں کے تقرر و تبادلے اور من مانیاں کی گئیں وہ کچھ اعلیٰ عدالتوں کے قدغن کے باعث کم ہوئے تو سندھ کے وزیر بلدیات کو یہ عدالتی مداخلت محسوس ہوئی مگر کون نہیں جانتا کہ من مانیوں کے باعث ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کے فنڈز من مانے طور پر خرچ کرائے گئے ہر بلدیاتی ادارے میں مقررہ تعداد سے زائد بھرتیاں کروا کر سیاسی کارکنوں کو مالی اور خاکروب کے نام پر تقرر کرایا گیا۔
بلدیاتی ٹھیکے بدعنوانوں کو دلوائے گئے جن کے کام صرف کاغذات ہی کی حد تک تھے اور انھیں غیر قانونی ادائیگیاں کرائی گئیں اور اضافی بھرتیاں کرانے سے آج یہ حالت ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنے عملے کو تنخواہ نہیں دے پا رہے۔ سندھ میں مسلمانوں کو عید، عیسائیوں اور ہندوؤں کو ان کے مذہبی تہواروں پر ایڈوانس تو کیا ماہانہ تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملیں۔بلدیاتی اداروں میں سیاسی مداخلت اور سرکاری مداخلت ہی کی وجہ سے یہ ادارے حکمرانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکے ہیں اور یہ سونے کی مرغی سیاستدان اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دے رہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 140(اے) میں ترمیم کرکے ملک کا نام پاکستان لمیٹڈ کمپنی رکھ دے اور اپنی من مانیاں جاری رکھے۔
انھوں نے یہ ریمارکس ایک ٹھیکیدار کی درخواست پر کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کے خلاف تاحکم ثانی فیصلہ دیتے ہوئے دیے اور مزید حکم دیا کہ مویشی منڈیوں سے حاصل شدہ فیس اور دیگر فنڈزکی نگرانی متعلقہ ٹی ایم ایز ہی کریں گی۔
زیر سماعت درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ حکومت پنجاب نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرکے انتظامی اختیارات کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کے سپرد کردیے ہیں جو غیر قانونی حکومتی اقدام ہے حالانکہ انتظامی اختیارات متعلقہ بلدیہ کا حق ہے جسے حکومت پنجاب نے ختم کردیا ہے۔ فاضل جج نے اپنے حکم میں کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کو مویشیوں کا انتظام سنبھالنے سے روک دیا ہے۔
سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل میمن نے گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتیں حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں اور انتظامی معاملات میں مداخلت کرکے حکومت کو کام نہیں کرنے دیتیں اور حکومتی معاملات میں حکم امتناعی جاری کرکے بے جا مداخلت کرتی ہیں جو درست نہیں ہے۔
پاکستان کے موجودہ آئین کے آرٹیکل 140(A)کے تحت ملک میں بلدیاتی اداروں کا قیام آئینی طور پر ضروری ہے اور ملک میں بااختیار بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کو نچلی سطح پر اپنے بلدیاتی نمایندوں کے انتخاب کا حق آئین دے رہا ہے مگر ملک کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اپنی اپنی صوبائی حکومتوں میں عوام کو یہ حق نہیں دیا اور اپنی حکومتوں کے بیس ماہ کے دوران صرف بلدیاتی انتخابات کرانے کی باتیں کیں جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی عوام کو اپنے اس آئینی حق سے محروم رکھا گیا تھا کیونکہ سیاسی حکومتیں عوام کو یہ حق دینے میں ہمیشہ سے گریز جان بوجھ کر کر رہی ہیں جب کہ عوام کو یہ حق صرف ان فوجی حکومتوں کے دور میں ملا جن کو یہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ آمریت کا دور قرار دیتی آئی ہیں اور خود عوام کے لیے آمروں سے بھی بدتر ثابت ہوتی آرہی ہیں۔
عمران خان کو لوگوں نے سچا لیڈر سمجھ کر ان پر اعتماد کیا تھا اور توقع تھی کہ عمران خان اپنے وعدے کے مطابق کے پی کے میں تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرا دیں گے جس کے بعد مجبوراً سندھ اور پنجاب کو بھی بلدیاتی انتخابات کرانا پڑیں گے مگر تینوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات پونے دو سال میں بھی نہیں کرائے اور سپریم کورٹ کو سختی سے ایکشن لینا پڑا۔ اور الیکشن کمیشن اگر کوششیں تیز کرے تو مئی میں کے پی کے میں اور ستمبر میں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔
پاکستان میں ایک با اختیار اور حقیقی بلدیاتی نظام سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں دیا تھا جو واقعی مثالی تھا جسے بدقسمتی سے ہمارے جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں نے اپنی جمہوریت کی دعویدار حکومتوں میں ختم کرکے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام دوبارہ بحال کرکے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا تھا کہ جمہوری کہلانے والی سیاسی حکومتوں میں اتنی بھی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام سے بہتر بلدیاتی نظام عوام کو دے سکتیں۔
ملک کو فوجی آمر سے اچھا بااختیار بلدیاتی نظام دینے کی بجائے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کا بنایا ہوا بلدیاتی نظام دیا جس میں عوام کی بجائے بیوروکریٹس با اختیار اور عوام کے منتخب نمایندے برائے نام بااختیار اور کمشنر، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت اور کمزور رہیں گے اور بااختیار بلدیاتی نظام کا خواب سیاسی حکومتوں میں کبھی پورا نہیں ہوگا۔
سیاسی حکومتیں ہر دور میں بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کی محتاج اور غلام رہی ہیں اور سیاستدانوں کی اکثریت کی ذہنیت ہی جی حضوری کر رہی ہے اس لیے چاروں صوبائی حکومتوں نے ایک کمزور بلدیاتی نظام کا بل اپنے ان ارکان صوبائی اسمبلیوں سے منظور کرایا ہے جو خود ایک کمزور بلدیاتی نظام کے بھی مخالف ہیں اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہی نہیں چاہتے کہ بلدیاتی نمایندے منتخب ہوں اور ان کی اہمیت ختم ہو جائے کیونکہ یہ ارکان خود کو ہی بلدیاتی نمایندہ سمجھتے ہیں اور سالانہ ترقیاتی فنڈ ان ہی کو ملتا ہے جو بلدیاتی اداروں کا آئینی حق ہے مگر غیر قانونی طور پر ارکان اسمبلی ہتھیا لیتے ہیں۔
موجودہ صوبائی حکومتیں بھی نہیں چاہتیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور اسی لیے بے اختیار بلدیاتی نظام بنایا گیا ہے اور اسے بھی مزید کمزور کرنے کے لیے من مانیاں جاری ہیں جس کا ثبوت پنجاب حکومت نے کیپٹل مینجمنٹ کمپنی کو مویشی منڈیوں کا انتظام دے کر دیا ہے جو ہمیشہ سے متعلقہ بلدیہ کا حق ہے مگر بلدیاتی اداروں سے یہ انتظامی اختیار بھی چھینا جا رہا ہے جس پر فاضل جج کو کہنا پڑا ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 140(A)میں ترمیم کرکے ملک کا نام پاکستان لمیٹڈ کمپنی رکھ لے۔
سیاسی حکومتوں کے دور میں آئین پر عمل نہ کرانے کا ایک بڑا ثبوت ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانا ہے جب کہ فوجی حکومتوں میں ہمیشہ 140(A)پر عمل کرایا گیا جو آئین کے اس آرٹیکل پر عمل کی پابند نہیں ہوتیں مگر انھیں عوامی حمایت کے لیے بلدیاتی انتخابات کرا کر عوام کو حکومت میں شریک کرنا ہوتا ہے۔
اس لیے ہر فوجی صدر نے بلدیاتی انتخابات ضرورکرائے اور عوام کو یہ حق ضرور دیا کیونکہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہے جہاں سے تربیت لے کر اور عوام کی خدمت کرکے سیاستدان اسمبلیوں تک پہنچے جب کہ دوسرے ملکوں میں بلدیاتی میئر بعد میں اپنے ملک کے حکمران بھی بنے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔
ضلع حکومتوں کے خاتمے کے بعد سیاسی حکومتوں میں ملک کے بلدیاتی اداروں میں جو لوٹ مار، اقربا پروری، تباہی، سیاسی بنیاد پر بھرتیاں، لاکھوں روپے رشوت پر افسروں کے تقرر و تبادلے اور من مانیاں کی گئیں وہ کچھ اعلیٰ عدالتوں کے قدغن کے باعث کم ہوئے تو سندھ کے وزیر بلدیات کو یہ عدالتی مداخلت محسوس ہوئی مگر کون نہیں جانتا کہ من مانیوں کے باعث ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کے فنڈز من مانے طور پر خرچ کرائے گئے ہر بلدیاتی ادارے میں مقررہ تعداد سے زائد بھرتیاں کروا کر سیاسی کارکنوں کو مالی اور خاکروب کے نام پر تقرر کرایا گیا۔
بلدیاتی ٹھیکے بدعنوانوں کو دلوائے گئے جن کے کام صرف کاغذات ہی کی حد تک تھے اور انھیں غیر قانونی ادائیگیاں کرائی گئیں اور اضافی بھرتیاں کرانے سے آج یہ حالت ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنے عملے کو تنخواہ نہیں دے پا رہے۔ سندھ میں مسلمانوں کو عید، عیسائیوں اور ہندوؤں کو ان کے مذہبی تہواروں پر ایڈوانس تو کیا ماہانہ تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملیں۔بلدیاتی اداروں میں سیاسی مداخلت اور سرکاری مداخلت ہی کی وجہ سے یہ ادارے حکمرانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکے ہیں اور یہ سونے کی مرغی سیاستدان اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دے رہے۔