ہمارے دن بھی پھریں گے

اسلام مخالف ملکوں کی کامیابی ہے کہ ان کی سازشوں کے نتیجے میں آج یمن میں مسلمان مسلمان کو قتل اور تباہ کر رہے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
اسلام مخالف ملکوں کی کامیابی ہے کہ ان کی سازشوں کے نتیجے میں آج یمن میں مسلمان مسلمان کو قتل اور تباہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل اسلامی دنیا کے بعض اہم ملکوں میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے یمن بالکل نیا محاذ جنگ ہے جو ایک تاریخی مسلمان ملک ہے اور مسلمان اس ملک کے ساتھ خصوصی جذباتی وابستگی بھی رکھتے ہیں۔

یمن سے دور پاکستان جیسے ملک کے بھی سیکڑوں شہری یمن میں موجود تھے اور ہیں جو انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اور اس طرح پاکستان بھی بالواسطہ اس محاذ جنگ کا نشانہ بنا رہا۔ یمن کا یہ جنگی محاذ ابھی گرم رہے گا اور نہ جانے کن خطرناک اور خوفناک مرحلوں سے گزرے گا۔

جیسا کہ ہم پاکستانیوں کو علم ہے یمن کا محاذ جنگ گو ہماری سرحدوں سے بہت دور ہے لیکن مسلمان دنیا کے مابین دینی اور قلبی تعلق کا رشتہ ایسا ہے کہ کسی ایک مسلمان ملک کا درد پورے اسلامی جسم میں محسوس ہوتا ہے جب کہ مسلمان دنیا کا اب آپس میں عملاً اتنا قریبی تعلق نہیں رہا اور جیسا کہ یمن میں ہم دیکھ رہے ہیں وہاں مسلمان ہی مسلمان سے بر سر پیکار ہیں اور کوئی نظریاتی یا جذباتی تعلق اس باہمی جنگ کو نہیں روک سکتا یا روک نہیں رہا۔

علاوہ ایسے کسی محاذ جنگ کے مسلمان ملکوں کے اندر مقامی معاشروں میں ایک عام بے چینی بھی پائی جاتی ہے جو ان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور وہ دلجمعی سے کوئی قومی ترقیاتی منصوبہ نہیں بنا سکتے یا منصوبہ موجود ہو بھی تو اس پر بعض اوقات سرے سے عمل ہی نہیں ہوتا۔

اس طرح کی تشویشناک صورت حال کا شاید سب سے بڑا نمونہ خود ہمارا پاکستان ہے جس کی قوم میں بلاشبہ بے پناہ صلاحیتیں ہیں اس کی افرادی قوت نے دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی ہے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو خصوصی ذہانت اور قوت عمل عطا کر رکھی ہے مثلاً بعض ریگستانی عرب ملکوں میں ہم آج کچھ سبزہ زار بھی دیکھتے ہیں۔

ان ریگستانی علاقوں کو پاکستانیوں نے سبزہ زاروں میں بدل دیا ہے۔ میں نے ایک خلیجی ملک میں جب ایک جگہ سبزہ و گل کا منظر دیکھا تو تعجب ہوا بعد میں معلوم ہوا کہ ایک خلیجی ملک کا بادشاہ لاہور آیا اور اس نے اپنے ہوٹل کے وسیع سبز لان دیکھے تو حسرت سے کہا کہ کاش میرے ملک میں بھی ایسا ہو سکتا اس پر ان کی خدمت میں ایک پاکستانی افسر پیش کیا گیا جو محکمہ جنگلات کا ملازم تھا اور جس نے اس ہوٹل کے یہ سبزہ زار تخلیق کیے تھے۔

بادشاہ نے کہا کیا تم ہمارے ہاں بھی یہ سب کر سکتے ہو اس نے جواب دیا کیوں نہیں چنانچہ یہ پاکستانی ملازمت چھوڑ کر اس ملک میں چلا گیا جہاں پہلے تو اس کے پاکستانی سبزہ زاروں کے بڑے بڑے ٹکڑے لے جا کر بچھا دیے یہ منظر دیکھ کر بادشاہ گھبرا گیا کہ یہ کیسے ہو گیا اور ریت میں سے اچانک یہ سبزہ کہاں سے آ گیا۔

بادشاہ کو یہ سب بتا دیا گیا اور یقین دلایا گیا کہ یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور پھر قدرت کو جتنا وقت مطلوب تھا پاکستانی فنکاروں نے اس کے اندر اندر یہ سب کر کے دکھا دیا گیا اور کتنے سبزہ زار سامنے آ گئے۔ یہ حوالہ اس لیے دیا گیا کہ پاکستانیوں کو جہاں بھی موقع ملا یا ان کو کوئی چیلنج پیش آیا تو انھوں نے بہت کچھ کر کے دکھا دیا۔ پاکستان کو دشمن سے خطرہ تھا اور مسلسل خطرہ ہمارے ایک ایٹمی سائنس دان نے جس نے یکم اپریل کو اپنی سالگرہ منائی ہے پاکستان کے دشمن کے تمام ارادے خاک میں ملا دیے۔

ہم ان سے احتراماً ذرا بے تکلف ہو کر کہتے تھے کہ قدرت نے آپ کو پاکستان دشمنوں کے لیے مذاق بنا کر بھیجا ہے اور یکم اپریل آپ کی سالگرہ کا دن ہے۔ غرض پاکستانیوں کا کوئی جواب نہیں یہ اپنا جواب اگر ہیں تو خود ہی ہیں میاں نواز شریف کی کسی گزشتہ وزارت عظمیٰ میں سعودی عرب نے ہماری ضرورت کو سامنے رکھ کر ہمیں پٹرول دینے کا وعدہ کیا۔


میاں صاحب نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا کہ بس امریکا کو پتہ نہ چلے اور اپنی افسر شاہی کو بھی اس سے فی الحال بے خبر رکھیں لیکن ان کے ایک ساتھی نے ہی یہ خبر لیک کر دی کسی افسر نے فوراً اپنے نمبر بنائے اور امریکا کو بتا دیا جس سے بڑی الجھن پیدا ہو گئی یعنی ہمیں کبھی اپنے آپ کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے یہ تو میں لکھ ہی چکا ہوں کہ افسر شاہی نے ڈاکٹر قدیر خان کو اس قدر تنگ کیا تھا کہ وہ واپس جانے کے لیے بھٹو صاحب سے اجازت لینے گئے لیکن بھٹو نے اپنے سیکریٹری خزانہ غلام اسحاق خان کو بلایا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی جو ضرورت بھی ہو پہلے وہ پوری کریں بعد میں مجھے اطلاع کریں اور یوں ڈاکٹر صاحب اپنے تاریخی پاکستانی اور اسلامی کام میں لگ گئے اور کامیاب رہے۔

بہر کیف ہم ایک ایسے ملک کے بڑے لوگ ہیں جو قدرتی وسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اس کا کسان ہمیں بھوکا نہیں مرنے دیتا ہماری ہر فصل کامیاب ہوتی ہے۔ پاکستان کا سپاہی بے تیغ بھی لڑے مرنے والا سپاہی ہے اور اب تو وہ ایک بہت بڑی تیغ کا مالک بھی ہے۔ ہمارا مزدور جان لڑانے والا پاکستانی ہے۔ ٹیکسٹائل میں ہم کبھی بڑے نامور تھے۔

میں نے ایک بار دیکھا کہ لندن کی ایک دکان میں ہمارا ایک مشہور پاکستانی کپڑا دیکھ رہا تھا میں اسے سلام کرنے دکان میں چلا گیا جہاں انگریز دکاندار اس سے کہہ رہا تھا کہ آپ کے ہاں (ایک مل کا نام لے کر) اتنا اچھا گرم کپڑا بنتا ہے آپ یہاں کیوں خریدتے ہیں۔ یہ پاکستانی شرمندہ ہو گیا۔ ہمارے بچوں کو اچھی تعلیم کا موقع ملتا ہے تو وہ دنیا بھر میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں ہمارے ڈاکٹر امریکیوں کا علاج کرتے ہیں ہم صرف وہ کام نہیں کرتے جو ہمیں کرنے نہیں دیا جاتا جس کے کرنے کے وسائل نہیں دیے جاتے۔

ہمیں کون ایٹم بم بنانے دیتا لیکن ہم نے اسے بنا کر دنیا کو حیران اور پریشان کر دیا۔ آخر زندگی کے کس کس شعبے کا حوالہ دے کر بتایا جائے کہ پاکستانی کس کمال کے لوگ ہیں ان کامیابیوں کی داستان بہت طویل ہے بس ہم مار کھاتے ہیں تو اپنی سیاسی قیادت سے جو دنیا کی کرپٹ ترین سیاسی قیادت ہے۔

ملک سے باہر کسی دوسرے ملک میں اس کی شہریت لے کر وہاں قیام کرتی ہے لیکن ملک کی سیاست میں مداخلت کرتی ہے بلکہ بعض اوقات ہمارے مقامی لیڈروں پر بھاری ہوتی ہے ہماری سیاسی قیادت الیکشن لڑتی ہے تو دھاندلی کرتی ہے اور اسمبلیوں میں جاتی ہے تو سوائے قومی ضرورت کی قانون سازی کے دوسرا ہر کام کرتی ہے۔

اپنی سیاسی طاقت کی وجہ سے وہ ہماری انتظامیہ کو کرپٹ کر دیتی ہے تا کہ وہ اس کی آلہ کار بن سکے۔ عربوں نے ایک ابدی حقیقت کو اپنے ایک محاورے میں یوں بیان کیا ہے 'الناس علیٰ دین ملوکہم' کہ عوام اپنے بادشاہوں کے طور طریقوں پر چلتے ہیں ہم یہ منظر دن رات دیکھ رہے ہیں اور ہماری کئی خرابیاں ہمارے ان بڑوں کی وجہ سے ہی ہیں۔

ہم پاکستانیوں کے کارنامے بیان کر کے اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنتے یہ سب ایک حقیقت ہے۔ اپنی فوج کا ذکر کریں تو سینہ فخر سے تن جاتا ہے۔ ہم نے اپنے سے کئی گنا بظاہر طاقتور دشمن کو بے بس کر رکھا ہے اور ہمارا سپہ سالار ایک تاریخی سپہ سالار بننے جا رہا ہے جس نے اس فوج کو اللہ خیر کرے ایک ناقابل تسخیر فوج بنا دیا ہے۔ ہم نے ایسی ہی فوج کے ذریعے اپنا دینی پرچم دنیا میں لہرایا۔ یہ ملک ہندوستان بھی ایک سپہ سالار نے کبھی تسخیر کیا اور یہاں اسلام کا پرچم بلند کیا جس کا ایک تحفہ یہ پاکستان ہے۔

آج جب کسی بھی مسلمان ملک پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ پاکستان کو یاد کرتا ہے اور پاکستان کے عوام اس کی مدد اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال یمن کے موجودہ حالات ہیں اور ان حالات سے متاثر مسلمان پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔ کاش کہ ہمیں اپنی قوم کی طرح اس کے لیڈر بھی مل جاتے تو ہم دنیا ہی بدل دیتے۔

ہمارے لیے یہ دنیا قدرت نے مسخر کر رکھی ہے۔ ہم ایک نایاب اور بلند مرتبہ قوم ہیں۔ ہم اپنے کس کس کارنامے کا ذکر کریں۔ یہی پی آئی اے جس سے ہم آج جان چھڑانا چاہتے ہیں کبھی دنیا کی دوچار بڑی ائیرلائنوں میں سے تھی۔ا سٹیل ملز کامیاب تھی اور دنیا ہماری ترقی کو دیکھنے آتی تھی اور اس کو نقل کرتی تھی۔ ان کارناموں کا ذکر کر کے آج دکھ ہوتا ہے لیکن دن ضرور پھریں گے۔
Load Next Story