سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار کیلیے معیار مقرر کیا جائے جسٹس ثاقب نثار

ہرمقدمہ براہ راست سپریم کورٹ لانے کی حوصلہ شکنی، پہلے دائرہ اختیارکافیصلہ ہوناچاہیے،اس کیلیے ہائیکورٹ موجودہے، ریمارکس

چیئرمین ایس ای سی پی تقرری کیس عوامی اہمیت کاحامل قراردیکرسننے کے فیصلے سے عدم اتفاق ،عدالت اب تمام نکات ایک ساتھ سنے گی فوٹو : فائل

عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارکے لیے معیارمقررکیا جائے۔

یہ آبزرویشن انھوںنے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)کے چیئرمین کی تقرری کے خلاف دائر آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران دی۔ پیرکو عدالت نے ایس ای سی پی کے چیئرمین کی تقرری کے خلاف پٹیشن کی سماعت ملتوی کرکے آبزرویشن دی ہے کہ اگلی سماعت پردرخواست کے قابل سماعت ہونے اور اٹھائے گئے نکات پر ایک ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ مقدمے میں خالد انور اور اعتزاز احسن کو عدالتی معاون مقررکیا گیا ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کے دلائل کے بعد عدالت نے مقدمہ باقاعدہ سماعت کے لیے منظورکرکے اٹھائے گئے نکات کا فیصلہ اگلی تاریخ پرکرنا چاہا تاہم بینچ میں شامل جسٹس ثاقب نثار نے باقی دو جج صاحبان، بینچ کے سربراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس سرمد جلال عثمانی سے اتفاق نہیںکیا جبکہ مخالف فریق کے وکلا نے بھی اس کی مخالفت کی جس پر بینچ نے سماعت19نومبر تک ملتوی کردی۔


جسٹس ثاقب نثار نے آبزرویشن دی کہ اہلیت جانچنے کے لیے ہائیکورٹ کی صورت میں فورم موجود ہے اس لیے ہر مقدمے کو سپریم کورٹ میں براہ راست لانے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے،اس طرح کے مقدمات میں پہلے دائرہ اختیارکا فیصلہ ہونا چاہیے۔فاضل جج نے کہا اگر ایک خود مختار سرکاری ادارے کے سربراہ اور ادارے کے درمیان مفادات کا ٹکرائو ہو تو یہ نا اہلیت کا کلاسیکل کیس ہے لیکن پہلے اہلیت کے تعین کے فورم کا تعین ہونا چاہیے۔جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیے کہ2005اور 2008 میں اسٹاک مارکیٹ کریش ہوئی لیکن ابھی تک ذمے داروںکا تعین نہیں ہو سکا۔فاضل جج نے کہا کہ ریگولیٹرکی یہ ذمے داری تھی کہ بازار حصص میںکاروبارگرانے والوںکو بے نقاب کرتا۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا اگر ریگولیٹر خود اسٹاک مارکیٹ کریش کرانے والوں میں شامل ہو جائے تو پھر ادارے کی افادیت ختم ہو جاتی ہے ۔

قبل ازیں درخواست گزارکے وکیل افنان کریم کنڈی نے دلائل دیے اورکہا کہ ایس ای سی پی کے موجودہ چیئرمین خود ایک بروکر ہیں ،ان کے اور ادارے کے درمیان مفادات کا ٹکرائو ہے۔انھوں نے کہا چیئرمین کی تقرری 1997کے ایکٹ اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہے عدالت اس کو غیر قانونی قرار دے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تقرری کا تعلق پالیسی معاملات سے ہے جو حکومت کا اختیار ہے لیکن اگر تقرری میں اہلیت کا خیال نہیں رکھا گیا تو اس صورت میں ہائیکورٹ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔بینچ نے مقدمے کو عوامی اہمیت کا حامل قرار دے کر باقاعدہ سننے کا فیصلہ کیا تاہم بینچ کے ایک ممبر اور مخالف فریق نے اعتراض کیا جس پر عدالت نے تمام نکات کو ایک ساتھ سننے اور نمٹانے کا فیصلہ کیا۔
Load Next Story