حرمین الشریفین سعودی عرب اور سعودی حکومت
نہیں معلوم سعودی شاہی خاندان کے بڑوں نے ایسی کون سی نیکی کی تھی جس کا اسے یہ اجر عظیم ملا ہے۔
Abdulqhasan@hotmail.com
مسلمان دشمن سامراج کی کامیابی میں کیا شک ہے ان دنوں جب کچھ پرانے محاذ ٹھنڈے پڑ چکے ہیں تو اس نے ایک نیا محاذ کھڑا کر دیا ہے۔ یمن میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ہے اور پھیلتی ہی جا رہی ہے۔ اس میں یمن کا قدیم ترین تاریخی پڑوسی ہے جن کی طویل سرحدیں ہیں یعنی جزیرہ عرب جو سعودی عرب کہلواتا ہے۔
یمن کی اس شورش میں باقاعدہ شامل ہو چکا ہے اور اس کی فضائیہ بمباری کر رہی ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی اس جنگ میں شریک ہو جائے پاکستان نے فی الحال غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے جو عرب ملکوں کو اس قدر ناگوار گزرا ہے کہ اسے سخت ترین دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔
یمن کا ملک، ملکہ سبا کی قدیم داستان کا ملک جہاں سے کبھی ابرہہ نامی ایک حکمران ہاتھیوں کی فوج لے کر بیت اللہ پر حملہ کرنے چلا تھا لیکن حملہ سے پہلے ہی اس کے ہاتھی ابابیلوں کی برسائی گئی کنکریوں سے ریزہ ریزہ ہو گئے اور یہ کہانی تاریخ کا مستند اور حیرت انگیز حصہ بن کر رہ گئی کہ ہاتھیوں جیسی بھاری بھر کم مخلوق کو پرندوں نے تباہ کر دیا۔
یمن جس کی شال ایسی منقش اور دیدہ زیب ہوتی تھی شاید اب بھی ایسی ہی ہو جو آنحضرتؐ کو بہت پسند تھی اور اس کا تحفہ حضور پاکؐ قبول کر لیتے تھے۔ یمن عرب تہذیب و تمدن کا ایک نمایندہ ملک تھا۔ اس کے مکان خالص عرب طرز تعمیر کے ہیں اور اس کی عربی زبان مستند ترین عربی تسلیم کی جاتی ہے۔
دنیا کے عربی زبان کے چاہنے والے اس ملک میں کچھ عرصہ قیام کیا کرتے ہیں تاکہ اصلی عربی زبان سے لطف اندوز ہو سکیں اور اپنی زبان درست کر سکیں۔ یمن کا ملک عرب زبان تاریخ اور کلچر کا ایک نمایندہ ملک ہے۔
مسلمانوں کے لیے حضرت اویس قرنیؓ کا ملک ہونے کی وجہ سے یہ ملک ایک بابرکت ملک بھی ہے۔ یہیں سے ایک صاحب علم نے ملکہ سبا کا تخت اڑا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا اور سدمآرب کا پانی کا بند بھی اسی ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔ سرزمین یمن جو اب آگ اور خون کا مرکز بن چکی ہے ایک طویل تاریخ کی مالک ہے اور ہر لحاظ سے جزیہ نمائے عرب (سعودی عرب) کا ایک تہذیبی حصہ ہے۔
سعودی عرب ایک روایتی صحرائی عرب ملک ہے لیکن یہاں دو مقامات ایسے ہیں جو بلاشبہ حقیقتاً ہر مسلمان کے دل میں ہیں اور کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ زندہ ہو اور حرمین شریفین کو کسی قسم کا کوئی نقصان ہو سکے۔ لاریب کہ ہر مسلمان کو یہ دو مقام اس کی زندگی سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہیں ایک بیت اللہ شریف اور دوسرا حضور پاک ﷺ کا روضہ مبارک جس کے اندر حضورؐ کے دو قریب ترین ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی حضورؐ کی ابدی محبت سے سرفراز ہیں۔
جب کوئی مسلمان حضور پاکؐ کے روضہ مبارک پر سلام کرنے حاضر ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ دونوں نام بھی ہوتے ہیں جن کی طرف روضہ مبارک کی جالی سے اشارہ بھی ملتا ہے لیکن میری ذات کی حد تک تو سچی بات یہ ہے کہ دو جہانوں کے سردار کی قبر مبارک سامنے کی سمت ہو تو اور کسی کا خیال کہاں سے۔ یہی حال ہر مسلمان کا ہوتا ہے۔ روضہ مبارک کی حاضری پر گناہوں کے بوجھ سے ادھ موا یہ امتی اپنی خوش نصیبی پر فرحاں اور نازاں و رقصاں ہے۔
سید سرفراز شاہ جیسے مہربان نے اس سے کئی ماہ بعد مجھ سے پہلی ملاقات میں جب مجھے میری دعا لفظ بہ لفظ دہرا دی اور اس کی قبولیت کا مژدہ بھی سنا دیا تو میں نے یہ سب سن تو لیا لیکن کس حال میں یہ سب سنا میں بتا نہیں سکتا۔ حاضری کے وقت کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہتا اور دعائیں فریادیں تو ہوتی ہی تخت الفظ ہیں کوئی دوسرا کیسے سن سکتا ہے جب کہ ہر کوئی اپنے حال میں گم سم ہوتا ہے اور شاہ صاحب قبلہ تو اس وقت وہاں تھے ہی نہیں۔ بہر کیف میرے یہ محسن جہاں بھی تھے مجھے انھوں نے لاہور کے ایک گھر میں مختصر سی ملاقات میں خرید لیا۔ اب کوئی بتا سکتا ہے کہ میں یا کوئی دوسرا مسلمان روضہ مبارک کے تقدس پر قربان نہیں ہو سکتا تو اور کیا کر سکتا ہے۔
دوسرا یا پہلا مقدس مقام بیت اللہ شریف ہے۔ پہلی بار جب کسی مسلمان کی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے تو اس وقت وہ ہوش گنوا دیتا ہے۔ پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول کر لی جاتی ہے۔ میں نے بھی یہ سنا تھا لیکن پہلی نظر کے وقت کوئی دعا کس کو یاد آتی ہے۔ خدا کے گھر کے سامنے خدا کا ایک بندہ ہوتا ہے بے حس و حرکت اور بے ہوش و حواس سعودی حکومت کی بادشاہت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خادم الحرمین الشریفین کہلاتے ہیں۔
نہیں معلوم سعودی شاہی خاندان کے بڑوں نے ایسی کون سی نیکی کی تھی جس کا اسے یہ اجر عظیم ملا ہے۔ آج سعودی عرب کی طرف سے جو اطلاعات ملتی ہیں وہ سعودی فرماں رواؤں میں عدم تحفظ کی ہیں جو شاید درست نہیں ہیں۔ جہاں تک حرمین الشریفین کا تعلق ہے تو وہ تو پورے عالم اسلام کے تحفظ میں ہیں اور ہر ملک کا مسلمان اپنے ملک کی سرحدوں سے زیادہ حرمین کو مقدس سمجھتا ہے اور اس ملک کی فوج خوش قسمت ترین فوج ہو گی جسے حرمین کی حفاظت پر جان قربان کرنے کا موقع ملے گا۔
عرض یہ ہے کہ سعودی عرب حرمین کی حفاظت میں اکیلا نہیں ہے۔ سعودی عرب ایک تو حکومت کا نام ہے جسے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے دوسرا یہ ملک ہے جو سعودی عرب کہلاتا ہے اور تیسرے حرمین الشریفین ہیں۔ یہ تینوں الگ الگ ہیں انھیں آپس میں گڈمڈ نہ کیا جائے۔ ان تینوں کی حیثیت جدا جدا ہے۔ ایک ملک ہے۔ دوسرا اس ملک کی حکومت ہے اور تیسرے حرمین الشریفین ہیں۔ فیصلہ وہ کریں جو سعودی حکومت کی خواہش پر اس کے تحفظ کے لیے عملاً کچھ کر سکتے ہیں۔
یمن کی اس شورش میں باقاعدہ شامل ہو چکا ہے اور اس کی فضائیہ بمباری کر رہی ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی اس جنگ میں شریک ہو جائے پاکستان نے فی الحال غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے جو عرب ملکوں کو اس قدر ناگوار گزرا ہے کہ اسے سخت ترین دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔
یمن کا ملک، ملکہ سبا کی قدیم داستان کا ملک جہاں سے کبھی ابرہہ نامی ایک حکمران ہاتھیوں کی فوج لے کر بیت اللہ پر حملہ کرنے چلا تھا لیکن حملہ سے پہلے ہی اس کے ہاتھی ابابیلوں کی برسائی گئی کنکریوں سے ریزہ ریزہ ہو گئے اور یہ کہانی تاریخ کا مستند اور حیرت انگیز حصہ بن کر رہ گئی کہ ہاتھیوں جیسی بھاری بھر کم مخلوق کو پرندوں نے تباہ کر دیا۔
یمن جس کی شال ایسی منقش اور دیدہ زیب ہوتی تھی شاید اب بھی ایسی ہی ہو جو آنحضرتؐ کو بہت پسند تھی اور اس کا تحفہ حضور پاکؐ قبول کر لیتے تھے۔ یمن عرب تہذیب و تمدن کا ایک نمایندہ ملک تھا۔ اس کے مکان خالص عرب طرز تعمیر کے ہیں اور اس کی عربی زبان مستند ترین عربی تسلیم کی جاتی ہے۔
دنیا کے عربی زبان کے چاہنے والے اس ملک میں کچھ عرصہ قیام کیا کرتے ہیں تاکہ اصلی عربی زبان سے لطف اندوز ہو سکیں اور اپنی زبان درست کر سکیں۔ یمن کا ملک عرب زبان تاریخ اور کلچر کا ایک نمایندہ ملک ہے۔
مسلمانوں کے لیے حضرت اویس قرنیؓ کا ملک ہونے کی وجہ سے یہ ملک ایک بابرکت ملک بھی ہے۔ یہیں سے ایک صاحب علم نے ملکہ سبا کا تخت اڑا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا اور سدمآرب کا پانی کا بند بھی اسی ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔ سرزمین یمن جو اب آگ اور خون کا مرکز بن چکی ہے ایک طویل تاریخ کی مالک ہے اور ہر لحاظ سے جزیہ نمائے عرب (سعودی عرب) کا ایک تہذیبی حصہ ہے۔
سعودی عرب ایک روایتی صحرائی عرب ملک ہے لیکن یہاں دو مقامات ایسے ہیں جو بلاشبہ حقیقتاً ہر مسلمان کے دل میں ہیں اور کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ زندہ ہو اور حرمین شریفین کو کسی قسم کا کوئی نقصان ہو سکے۔ لاریب کہ ہر مسلمان کو یہ دو مقام اس کی زندگی سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہیں ایک بیت اللہ شریف اور دوسرا حضور پاک ﷺ کا روضہ مبارک جس کے اندر حضورؐ کے دو قریب ترین ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی حضورؐ کی ابدی محبت سے سرفراز ہیں۔
جب کوئی مسلمان حضور پاکؐ کے روضہ مبارک پر سلام کرنے حاضر ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ دونوں نام بھی ہوتے ہیں جن کی طرف روضہ مبارک کی جالی سے اشارہ بھی ملتا ہے لیکن میری ذات کی حد تک تو سچی بات یہ ہے کہ دو جہانوں کے سردار کی قبر مبارک سامنے کی سمت ہو تو اور کسی کا خیال کہاں سے۔ یہی حال ہر مسلمان کا ہوتا ہے۔ روضہ مبارک کی حاضری پر گناہوں کے بوجھ سے ادھ موا یہ امتی اپنی خوش نصیبی پر فرحاں اور نازاں و رقصاں ہے۔
سید سرفراز شاہ جیسے مہربان نے اس سے کئی ماہ بعد مجھ سے پہلی ملاقات میں جب مجھے میری دعا لفظ بہ لفظ دہرا دی اور اس کی قبولیت کا مژدہ بھی سنا دیا تو میں نے یہ سب سن تو لیا لیکن کس حال میں یہ سب سنا میں بتا نہیں سکتا۔ حاضری کے وقت کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہتا اور دعائیں فریادیں تو ہوتی ہی تخت الفظ ہیں کوئی دوسرا کیسے سن سکتا ہے جب کہ ہر کوئی اپنے حال میں گم سم ہوتا ہے اور شاہ صاحب قبلہ تو اس وقت وہاں تھے ہی نہیں۔ بہر کیف میرے یہ محسن جہاں بھی تھے مجھے انھوں نے لاہور کے ایک گھر میں مختصر سی ملاقات میں خرید لیا۔ اب کوئی بتا سکتا ہے کہ میں یا کوئی دوسرا مسلمان روضہ مبارک کے تقدس پر قربان نہیں ہو سکتا تو اور کیا کر سکتا ہے۔
دوسرا یا پہلا مقدس مقام بیت اللہ شریف ہے۔ پہلی بار جب کسی مسلمان کی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے تو اس وقت وہ ہوش گنوا دیتا ہے۔ پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول کر لی جاتی ہے۔ میں نے بھی یہ سنا تھا لیکن پہلی نظر کے وقت کوئی دعا کس کو یاد آتی ہے۔ خدا کے گھر کے سامنے خدا کا ایک بندہ ہوتا ہے بے حس و حرکت اور بے ہوش و حواس سعودی حکومت کی بادشاہت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خادم الحرمین الشریفین کہلاتے ہیں۔
نہیں معلوم سعودی شاہی خاندان کے بڑوں نے ایسی کون سی نیکی کی تھی جس کا اسے یہ اجر عظیم ملا ہے۔ آج سعودی عرب کی طرف سے جو اطلاعات ملتی ہیں وہ سعودی فرماں رواؤں میں عدم تحفظ کی ہیں جو شاید درست نہیں ہیں۔ جہاں تک حرمین الشریفین کا تعلق ہے تو وہ تو پورے عالم اسلام کے تحفظ میں ہیں اور ہر ملک کا مسلمان اپنے ملک کی سرحدوں سے زیادہ حرمین کو مقدس سمجھتا ہے اور اس ملک کی فوج خوش قسمت ترین فوج ہو گی جسے حرمین کی حفاظت پر جان قربان کرنے کا موقع ملے گا۔
عرض یہ ہے کہ سعودی عرب حرمین کی حفاظت میں اکیلا نہیں ہے۔ سعودی عرب ایک تو حکومت کا نام ہے جسے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے دوسرا یہ ملک ہے جو سعودی عرب کہلاتا ہے اور تیسرے حرمین الشریفین ہیں۔ یہ تینوں الگ الگ ہیں انھیں آپس میں گڈمڈ نہ کیا جائے۔ ان تینوں کی حیثیت جدا جدا ہے۔ ایک ملک ہے۔ دوسرا اس ملک کی حکومت ہے اور تیسرے حرمین الشریفین ہیں۔ فیصلہ وہ کریں جو سعودی حکومت کی خواہش پر اس کے تحفظ کے لیے عملاً کچھ کر سکتے ہیں۔