یہ ہمارے دوست دولت مند عرب

پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ عالم اسلام میں یہ سب سے زیادہ طاقت والا ملک ہے.

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
میں رہتا تو پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ہوں اور مدتوں سے اس شہر کے در و دیوار سے چمٹا ہوا ہوں لیکن اندر سے ابھی تک ایک پینڈو ہی ہوں گاؤں کا جم پل اور گاؤں بھی بہت خالص گاؤں۔ بارانی ہے اور بارشوں کے رحم و کرم پر زندہ رہتا ہے۔ بارشیں نہ ہوں تو یہ گاؤں ایک فصلی سیزن کے لیے فوت ہو جاتا ہے۔

اسے یوں سمجھیں کہ میں گندم گاؤں سے منگواتا ہوں کوئی دو چار برس پہلے اطلاع ملی کہ اس سال گندم لاہور سے خرید لیں۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل نہیں ہوئی۔ گندم جو اس گاؤں کی واحد بڑی فصل ہے اگر یہ قحط کی وجہ سے پیدا نہ ہو تو پھر وہی بات ہے کہ ایک سال کے لیے گاؤں گویا فوت ہو گیا ہے۔ یہ ذاتی بات کرنے کا مقصد آگے بیان کرتا ہوں۔

ہمارے ایک مبینہ دوست ملک متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ محترم ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے ایک سخت ترین بیان میں ہمیں ننگا کر کے رکھ دیا ہے کہ یمن کے تنازع پر پاکستان کا موقف مبہم ہے اور ایسے موقف پر پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ جناب وزیر خارجہ نے اصل بات بھی بیان کر دی کہ ہم پاکستان کو بھاری معاشی امداد دیتے ہیں لیکن مشکل وقت میں ہمیں اس سے سیاسی (فوجی) سپورٹ نہیں ملی۔

شکر ہے کہ جس دن اماراتی وزیر خارجہ کے یہ زریں خیالات سامنے آئے میری اس دن چھٹی تھی اور میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ میں اپنے آپ سے ہی کہتا رہا۔ اچھا ہوا کہ چھٹی تھی ورنہ میں وہ سب لکھ نہ پاتا جو میرے دل پر گزر رہا تھا۔ وزیر موصوف کی یہ دھمکی تفصیل کے ساتھ ہمارے اخباروں میں چھپی ہے۔ ایک پینڈو ہونے کی وجہ سے جو بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ موصوف ہماری جو مالی امداد کرتے رہے ہیں وہ کسی کرائے کے فوجی کی امداد تھی اور اب جب ضرورت پڑی تو اس نے تنخواہ حلال نہیں کی۔ اس بدتمیزی اور بد عہدی کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

دوسری بات یہ تھی جو میرے دیہاتی ذہن میں آئی کہ موصوف اپنے ہاں اسلحہ اور جدید ترین اسلحہ کے انبار دیکھ رہے ہیں مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والا کوئی نہیں چنانچہ جب اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا ہے تو ایک طاقت ور پڑوسی نے گول مول بات کر کے ٹال دیا۔ اس اندرونی پریشانی میں وہ اتنا کچھ کہہ گئے کہ دولت کی چربی ذرا ہلکی پڑی تو وہ خود اپنے اقوال زریں پر پچھتائیں گے اس سے بہتر تھا کہ وہ خود بھی فوج بنا لیتے یا جن ملکوں نے انھیں اسلحہ خریدنے پر مجبور کیا ہے ان سے دو چار فوجی بھی کرائے پر لے لیتے۔ ہمارے مہربان پڑوسی عرب ملکوں کے لیے ابھی دور کا خطرہ ہے۔

ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ خطرہ انھیں گھر کے اندر دکھائی دیا تو ایک کافر غیر ملکی فوجیوں نے مصنوعی کلمہ پڑھ کر اس سرزمین میں داخلے کا پروانہ حاصل کیا باغیوں کو پکڑ لیا اور پھر ان گرفتار باغیوں کے سر ہم نے قلم کرنے میں ذرا بھر دیر نہ کی اور انھیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔ ہماری حکومت نے ان دھمکیوں اور ناراضیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خلیجی ممالک قرار داد نہیں سمجھے جس سے غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ سعودی عرب کو خطرہ ہوا تو ہم اس کا سخت جواب دیں گے اسی طرح دوسرے عرب ملکوں کا ساتھ بھی دیتے رہیں گے۔


پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ عالم اسلام میں یہ سب سے زیادہ طاقت والا ملک ہے اس کی ایک زندہ و پایندہ فوج ہے جس کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جسمانی تربیت بھی اور نظریاتی تربیت بھی۔ یہ ملک اپنے برادر دوسرے عرب ملکوں کی طرح ایسا نہیں تھا کہ پہلے غیر مسلم تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا بلکہ یہ ملک پاکستان بنا ہی اسلام کے لیے تھا روز اول سے ہی یہ ملک ایک مسلمان ملک تھا اور اس لحاظ سے یہ اس دنیا میں ایک منفرد ملک ہے جس نے اسلام کی کوکھ سے جنم لیا اور اس کی گود میں پرورش بھی پا رہا ہے۔

اپنی جبلت کے لحاظ سے پاکستان ہر مسلمان ملک کا بھائی اور تابعدار ہے اور اس کی سلامتی اپنی سلامتی سمجھتا ہے۔ پاکستان کی ساری مصیبت اس کے حکمران ہیں۔ لالچی مال و زر کے غلام اور کرپٹ۔ انھوں نے پاکستان کی سرزمین میں چھپے خزانوں کو تلاش نہیں کیا اور غیر وضع دار ملکوں کی سخاوت اور خیرات پر گزر بسر کرنے کی کوشش کی اور خود مال بناتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب امارات جیسا ایک کمزور ملک ایسی سخت دھمکیاں دے رہا ہے اور اسے جواب کی کوئی پروا نہیں۔ تنخواہ دار کیا جوابی دھمکیاں دیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہیں گے کہ آپ نے میری بات نہیں سمجھی ورنہ میری کیا مجال۔

ہمارے آج کے تمام مسلمان ملک جمع بھی ہو جائیں تب بھی وہ پاکستان کے مقابلے میں کچھ نہیں ہماری بہترین فوج ہے جس کا سپہ سالار ایک سیاستدان نہیں خالص فوجی ہے۔ ہمارے پاس ضرورت کا اسلحہ موجود ہے اور پھر ایک ایسا اسلحہ بھی ہے جس کو ایٹم بم کہا جاتا ہے۔

ایٹم بم سے مسلح ہماری فوج دشمنوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے اور دوستوں کے لیے ایک مضبوط سہارا مگر افسوس کہ ہمارے بعض بھائی اپنی دولت کو عیاشی کے لیے تو کھلے دل سے استعمال کرتے ہیں مگر اپنی قومی فوج کی ساخت کی طرف توجہ نہیں دیتے بس ان کے گلے کرتے رہتے ہیں جو تن کی بوٹیاں کھلا کر اپنی فوج بناتے ہیں اور اسے سنبھال کر رکھتے ہیں۔

اس کی مسلسل تربیت کرتے ہیں اور اسے اسلام اور ملک کی سلامتی کے لیے تیار رکھتے ہیں اور اپنے اس مستقبل پڑوسی دشمن کے لیے جو شروع دن سے ہی اسے تسلیم نہیں کرتا۔ ہمارے عرب بھائی ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں لیکن اپنی طرف سے اپنے دفاع کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ہمارا دشمن ہماری شہہ رگ کے قریب ہے لیکن ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم دور کے ملکوں کی سلامتی کی کوشش کریں۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے دوستوں کی خوشحالی اس حد تک بڑھ چکی ہے اور وہ ان کے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہو چکی ہے کہ وہ اپنے ساتھی اور برادر ملکوں کی عزت کا خیال بھی نہیں کرتے۔ عرب حضرات کی مالی امداد اپنی جگہ لیکن ہم کرائے کے لوگ نہیں ہیں اور اب تو یہ ہمیں بتا بھی دیا گیا ہے کہ ان کی بدلحاظ نظروں میں ہماری اوقات کیا ہے اور وہ ہمیں ہماری کسی نافرمانی اور گستاخی کی سخت ترین سزا بھی دے سکتے ہیں۔

مجھ ایک پاکستانی کو حیرت ہے کہ اور تو اور عرب امارات جیسا ملک بھی ہمیں دھمکیاں دیتا ہے اور اسے ایسی زبان استعمال کرنے کی جرات ہوتی ہے۔ ان کے وزیر خارجہ مغربی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں دنیا دیکھی ہے مگر لگتا ہے کہ ان پر کسی علم کا کچھ اثر نہیں ہوا اور محض ایک دولت مند عرب ہی ہیں اور بس۔ شائستگی سے محروم۔
Load Next Story