انشا ء تو میرے یار کے بس جوڑ توڑ دیکھ
جن چار ممالک سے اس کا سرحدی رابطہ ہے ان میں جزیرہ ہائے عرب میں یمن سب سے اہم ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں جو ہماری ناگزیر مصروفیات اور فطری کاہلی کی وجہ سے کچھ زیادہ گزشتہ ہو چکا ہے، بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا ذکر کیا تھا جو حالیہ دنوں میں کافی صراحت کے ساتھ منظر عام پہ آ چکی ہیں۔
امریکی کانگریس میں نتن یاہو کے دھواں دار خطاب کے باوجود معاملات تیزی سے ایران امریکا مفاہمت کی طرف جا رہے ہیں جس کا ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مزید برآں یمن کو اس وقت عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جس کو تب سعودیہ کو در پیش چند سنگین خطرات میں سے ایک سمجھا جا رہا تھا۔ مقصد اس تمہید کا محض معصوم قارئین پہ اپنی تجزیہ نگاری کا رعب ڈالنا ہے ورنہ ہماری سنتا کون ہے۔
یمن میں حوثیوں کی بڑھتی پیش قدمی اور اس کے پیچھے مبینہ ایرانی ہاتھ بلکہ ہتھیار جو، ا ب واضح ہو گیا ہے امریکی میڈیا کے لیے کبھی غیر واضح نہیں تھا۔ 2014ء میں ہی امریکی تھنک ٹینک اور تجزیہ نگار اس بارے میں غیر مبہم رپورٹس شایع کر چکے ہیں۔ ادھر امریکا کی ایران سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مسلح شمولیت اور اس کے بدلے میں نیوکلیر ڈیل میں مراعات بھی کسی کے لیے راز نہیں ہے۔ چونکہ اس سارے ہنگامے میں اسلامک اسٹیٹ خاموشی سے کئی بڑے محاذ سر کر چکی ہے اس لیے گمان غالب ہے کہ یہ ڈیل گو منظر عام پہ شاید جون کے آخر میں ہی آئے لیکن اس پہ عمل درامد شروع ہو چکا ہے۔
البتہ اس پالیسی پہ خود امریکی سینیٹرز میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس میں نتن یاہو کے خطاب کے بعد 46 ریپبلکن سینیٹرز کی طرف سے آیۃ اللہ خامنہ ای کو بھیجا گیا خط میڈیا کی زینت اور امریکی بزرگوں کی خفت کا سبب بنا رہا۔ پینتالیس اچھے بھلے سینیٹروں کو اس حرکت پہ اکسانے والے کم عمر ترین سینیٹر Tom Cotton ہیں جو مشرق وسطی اور خلیج کی سیاست پہ عبور رکھتے ہیں۔
مشہور صحافی JEFFREY GOLDBERG نے ان کی اس ڈیل پہ خفگی کی وجہ جاننے کے لیے ان سے ایک طویل انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں ٹام کاٹن نے اپنا دل اور کچھ راز کھول کے رکھ دیے۔
ان کا خیال نہیں یقین تھا کہ امریکا کوئی ڈیل نہیں کر رہا بلکہ ایران کو محض مراعات دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایران کو ویسے ہی سبق سکھایا جا سکتا ہے تو خوامخواہ اس کے ساتھ مذاکرات کر کے کیا حاصل کیا جا رہا ہے؟ گولڈ برگ نے یا د دلایا کہ ایرانی نیوکلیر تنصیبات پہ حملہ کرنے سے ایک طرف حزب اللہ کا ڈر ہے تو دوسری طرف ایران کے خلیجی اتحادیوں کا جو بحرین اور قطر میں امریکی مفادات کو ضرب لگا سکتے ہیں۔ تس پہ کاٹن نے اوقات یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسا ملک جس کا سالانہ عسکری بجٹ ۳۰ بلین ڈالر ہو کیا ایسے ملک کی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
جس کا یہی بجٹ ۶۰۰ بلین ڈالر ہو؟ پھر اس مٹھی چاپی کا مطلب جس کا سیدھا سا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایران دس سال میں ایک مضبوط معیشت کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اوبامہ اعتراف کر چکے ہیں کہ معاہدے کے گیارہویں سال ہی ایران خود کو ایٹمی قوت کے طور پہ منوا لے گا۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ دو سال پہلے 2013ء ان سمیت چار سو ممبر سینیٹ نے ایران کے خلاف مزید پابندیوں کا بل پیش کیا تھا جو اس وجہ سے پاس نہ ہو سکا کہ وائٹ ہاوس نے ڈیموکریٹ ممبران پہ اسے پاس نہ کرنے کے لیے شدید دباو ڈالا تھا۔
آخر ایران کو کس خوشی میں اتنی چھوٹ دی جا رہی ہے؟ کیا یہ پابندیاں اس خوشی میں اٹھائی جا رہی ہیں کہ وہ ہم سے بات کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ نوجوان سینیٹر کے تند و تیز لہجے سے گھبرا کر مرد دانا نے سوال کیا کہ میاں تم ہی کچھ آنکو کہ پھر قصہ کیا ہے؟ نو جوان یوں گویا ہوا کہ ایران ہمیں جانتا ہے۔ جب ہم کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو کر ڈالتے ہیں جیسے۸۸ء میں ریگن نے کیا تھا۔ لہٰذہ میری دانست میں اوبامہ ایران سے' کچھ زیادہ' چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت ۲۰۰۹ء کے ایران الیکشن کے بعد آنے والے سبز انقلاب پہ ان کی خاموشی ہے ۔
جس میں احمدی نژاد کی اکثریت ایک پرزور احتجاجی تحریک کے بعد اقلیت میں بدل گئی تھی اور ساتھ ہی نتائج بھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو اس زیادہ چاہنے پہ کیا اعتراض ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ایرانی قوم ملاوں کے اثر میں ہے (یعنی ان پہ امریکا دشمنی کا گہرا اثر ہے) اس لیے ایسا ہوتا تو مجھے بھی خوشی ہوتی۔ مزید یہ کہ اوبامہ خطے میں شیعہ سنی توازن چاہتے ہیں اور خطے سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی ڈکشنری میں توازن کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یعنی شرق وسطی کی شیعہ سنی تقسیم۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران ہی نہیں کچھ عرب لیڈروں کو بھی جنہوں نے ان سے ذاتی طور پہ رابطہ کیا، یقین ہے کہ امریکا ایران پہ کبھی حملہ نہیں کرے گا یعنی ڈیل کے فیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر بالفرض محال ایسا ہوا بھی تو ایرانی بحریہ باب المندب کو بند کر سکتی ہے۔ قارئین کو اطلاع ہو کہ یہ وہی خلیج مندیب ہے جو بحر احمر کو بحر ہند سے ملاتا ہے اور تمام عرب تیل کی باقی دنیا کو ترسیل بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔
جن چار ممالک سے اس کا سرحدی رابطہ ہے ان میں جزیرہ ہائے عرب میں یمن سب سے اہم ہے۔ اس کی عسکری اہمیت پہ کئی جامع رپورتاژ مطالعے کے لیے موجود ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جس قوت (ملک نہیں) نے باب ہرمز اور باب المندب پہ قبضہ کر لیا اسے ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ وہی باب المندب ہے جس پہ یمنی حوثی قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور جس کی تاریخی، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں سلطان عالیشان کے بیٹے نے تمام یمن چھوڑ کر صرف اس کو کنٹرول میں لے لیا تھا تا کہ ایک طرف بحر ہند کے ذریعے تجارت ہو سکے اور دوسری طرف حرمین شریفین کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔
جنھیں یہ خوش فہمی ہے کہ ایران پہ یمنی حوثیوں کی حمایت کا محض الزام ہے انھیں اکتوبر ۲۰۱۴ء میں ہی ایرانی پارلیمینٹ میں تہران کے نمایندے علی رضا ذکانی کا بیان ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں انھوں نے نہایت خوشی سے اعلان کیا کہ یمن ایران کے ہاتھوں میں ''گرنے والا'' چوتھا عرب دارالحکومت، جی ہاں یہی لفظ استعمال کیا تھا، ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثی باغیوں کو یمن میں قبضہ کرنے میں جن عناصر نے مدد دی اس میں سر فہرست یمنی حکومت کی نالایقی، بدعنوانی اور شدید قسم کی اقربا پروری ہے۔ باقی حالات سے فائدہ ایران نے اٹھایا۔ جب انھوں نے ہتھیار اٹھائے تو یمنی فوج کے پاس ڈالنے کے لیے ہتھیار بھی نہ تھے۔ یہ بالکل وہی صورتحال تھی جو عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ہوئی جب عراقی فوج بچے کھچے ہتھیار پھینک کر بھاگ کھڑی ہوئی یا باغیوں کے ساتھ مل گئی۔
اس کے علاوہ حوثیوں نے کامیاب بغاوت کے بعد بالکل حزب اللہ کی حکمت عملی اپنائی جب انھوں نے بیروت پہ قبضہ کر کے مذاکرات کے بعد جو حکومت تشکیل دی اس میں شیعہ ووٹ کو ویٹو پاور حاصل تھی۔ واضح رہے کہ یمن میں الحرک لیڈر علی سلیم البعث بیروت میں حزب اللہ کی حفاظت میں ہے اور حوثیوں کا ریڈیو اسٹیشن المصیرہ بھی حزب اللہ کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔ دسمبر۲۰۱۴ء میں حوثیوں کے دباو پر پاسداران انقلاب کے کچھ افسروں کو جو گرفتار کر لیے گئے تھے، رہا کیا گیا۔ حال ہی میں ایک ایرانی فوجی افسر گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسے میں ایران کا یمن میں امن کے لیے تجاویز پیش کرنا نرم سے نرم الفاظ میں ستم ظریفی ہے۔
اس ساری ڈیل کے بعد ایران کو ایک ایسے ملک کے طور پہ پیش ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جس نے پابندیوں کے کئی سخت سال گزارے، امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا نیوکلیر پروگرام کامیابی سے چلایا اور اسے دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور کیا۔ بہت ممکن ہے ایک جھڑپ اسرائیل کی طرف سے ہو جس میں فتح حق یعنی حزب اللہ کی ہو تو اس تاثر میں چار چاند لگ جائیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب ہے جس نے امریکا کو برادر بزرگ سمجھا اور اس کی نظریں بدلتے ہی برادر خورد کو مدد کے لیے آواز لگائی اور یہ بھول گیا کہ جب ہتھیار ڈالے جاتے ہیں تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کتنے جدید ہیں۔ البتہ ایران کو سوچنا چاہیے کہ جس شیطان بزرگ کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے کرتے اس کی نسلیں جوان ہوئیں، اس اچانک بغل گیری پہ ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے اس راز و نیاز کی قیمت ستر ہزار جانوں، بلین ڈالرز اور خوف و دہشت کی صورت میں چکائی ہے۔ کیا ایرا ن میں ہمت ہے یا حرمین شریفین والا ٹیپ ایرانی عوام کے منہ بند کرنے کے لیے کافی ہو گا؟
امریکی کانگریس میں نتن یاہو کے دھواں دار خطاب کے باوجود معاملات تیزی سے ایران امریکا مفاہمت کی طرف جا رہے ہیں جس کا ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مزید برآں یمن کو اس وقت عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جس کو تب سعودیہ کو در پیش چند سنگین خطرات میں سے ایک سمجھا جا رہا تھا۔ مقصد اس تمہید کا محض معصوم قارئین پہ اپنی تجزیہ نگاری کا رعب ڈالنا ہے ورنہ ہماری سنتا کون ہے۔
یمن میں حوثیوں کی بڑھتی پیش قدمی اور اس کے پیچھے مبینہ ایرانی ہاتھ بلکہ ہتھیار جو، ا ب واضح ہو گیا ہے امریکی میڈیا کے لیے کبھی غیر واضح نہیں تھا۔ 2014ء میں ہی امریکی تھنک ٹینک اور تجزیہ نگار اس بارے میں غیر مبہم رپورٹس شایع کر چکے ہیں۔ ادھر امریکا کی ایران سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مسلح شمولیت اور اس کے بدلے میں نیوکلیر ڈیل میں مراعات بھی کسی کے لیے راز نہیں ہے۔ چونکہ اس سارے ہنگامے میں اسلامک اسٹیٹ خاموشی سے کئی بڑے محاذ سر کر چکی ہے اس لیے گمان غالب ہے کہ یہ ڈیل گو منظر عام پہ شاید جون کے آخر میں ہی آئے لیکن اس پہ عمل درامد شروع ہو چکا ہے۔
البتہ اس پالیسی پہ خود امریکی سینیٹرز میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس میں نتن یاہو کے خطاب کے بعد 46 ریپبلکن سینیٹرز کی طرف سے آیۃ اللہ خامنہ ای کو بھیجا گیا خط میڈیا کی زینت اور امریکی بزرگوں کی خفت کا سبب بنا رہا۔ پینتالیس اچھے بھلے سینیٹروں کو اس حرکت پہ اکسانے والے کم عمر ترین سینیٹر Tom Cotton ہیں جو مشرق وسطی اور خلیج کی سیاست پہ عبور رکھتے ہیں۔
مشہور صحافی JEFFREY GOLDBERG نے ان کی اس ڈیل پہ خفگی کی وجہ جاننے کے لیے ان سے ایک طویل انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں ٹام کاٹن نے اپنا دل اور کچھ راز کھول کے رکھ دیے۔
ان کا خیال نہیں یقین تھا کہ امریکا کوئی ڈیل نہیں کر رہا بلکہ ایران کو محض مراعات دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایران کو ویسے ہی سبق سکھایا جا سکتا ہے تو خوامخواہ اس کے ساتھ مذاکرات کر کے کیا حاصل کیا جا رہا ہے؟ گولڈ برگ نے یا د دلایا کہ ایرانی نیوکلیر تنصیبات پہ حملہ کرنے سے ایک طرف حزب اللہ کا ڈر ہے تو دوسری طرف ایران کے خلیجی اتحادیوں کا جو بحرین اور قطر میں امریکی مفادات کو ضرب لگا سکتے ہیں۔ تس پہ کاٹن نے اوقات یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسا ملک جس کا سالانہ عسکری بجٹ ۳۰ بلین ڈالر ہو کیا ایسے ملک کی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
جس کا یہی بجٹ ۶۰۰ بلین ڈالر ہو؟ پھر اس مٹھی چاپی کا مطلب جس کا سیدھا سا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایران دس سال میں ایک مضبوط معیشت کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اوبامہ اعتراف کر چکے ہیں کہ معاہدے کے گیارہویں سال ہی ایران خود کو ایٹمی قوت کے طور پہ منوا لے گا۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ دو سال پہلے 2013ء ان سمیت چار سو ممبر سینیٹ نے ایران کے خلاف مزید پابندیوں کا بل پیش کیا تھا جو اس وجہ سے پاس نہ ہو سکا کہ وائٹ ہاوس نے ڈیموکریٹ ممبران پہ اسے پاس نہ کرنے کے لیے شدید دباو ڈالا تھا۔
آخر ایران کو کس خوشی میں اتنی چھوٹ دی جا رہی ہے؟ کیا یہ پابندیاں اس خوشی میں اٹھائی جا رہی ہیں کہ وہ ہم سے بات کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ نوجوان سینیٹر کے تند و تیز لہجے سے گھبرا کر مرد دانا نے سوال کیا کہ میاں تم ہی کچھ آنکو کہ پھر قصہ کیا ہے؟ نو جوان یوں گویا ہوا کہ ایران ہمیں جانتا ہے۔ جب ہم کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو کر ڈالتے ہیں جیسے۸۸ء میں ریگن نے کیا تھا۔ لہٰذہ میری دانست میں اوبامہ ایران سے' کچھ زیادہ' چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت ۲۰۰۹ء کے ایران الیکشن کے بعد آنے والے سبز انقلاب پہ ان کی خاموشی ہے ۔
جس میں احمدی نژاد کی اکثریت ایک پرزور احتجاجی تحریک کے بعد اقلیت میں بدل گئی تھی اور ساتھ ہی نتائج بھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو اس زیادہ چاہنے پہ کیا اعتراض ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ایرانی قوم ملاوں کے اثر میں ہے (یعنی ان پہ امریکا دشمنی کا گہرا اثر ہے) اس لیے ایسا ہوتا تو مجھے بھی خوشی ہوتی۔ مزید یہ کہ اوبامہ خطے میں شیعہ سنی توازن چاہتے ہیں اور خطے سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی ڈکشنری میں توازن کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یعنی شرق وسطی کی شیعہ سنی تقسیم۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران ہی نہیں کچھ عرب لیڈروں کو بھی جنہوں نے ان سے ذاتی طور پہ رابطہ کیا، یقین ہے کہ امریکا ایران پہ کبھی حملہ نہیں کرے گا یعنی ڈیل کے فیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر بالفرض محال ایسا ہوا بھی تو ایرانی بحریہ باب المندب کو بند کر سکتی ہے۔ قارئین کو اطلاع ہو کہ یہ وہی خلیج مندیب ہے جو بحر احمر کو بحر ہند سے ملاتا ہے اور تمام عرب تیل کی باقی دنیا کو ترسیل بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔
جن چار ممالک سے اس کا سرحدی رابطہ ہے ان میں جزیرہ ہائے عرب میں یمن سب سے اہم ہے۔ اس کی عسکری اہمیت پہ کئی جامع رپورتاژ مطالعے کے لیے موجود ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جس قوت (ملک نہیں) نے باب ہرمز اور باب المندب پہ قبضہ کر لیا اسے ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ وہی باب المندب ہے جس پہ یمنی حوثی قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور جس کی تاریخی، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں سلطان عالیشان کے بیٹے نے تمام یمن چھوڑ کر صرف اس کو کنٹرول میں لے لیا تھا تا کہ ایک طرف بحر ہند کے ذریعے تجارت ہو سکے اور دوسری طرف حرمین شریفین کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔
جنھیں یہ خوش فہمی ہے کہ ایران پہ یمنی حوثیوں کی حمایت کا محض الزام ہے انھیں اکتوبر ۲۰۱۴ء میں ہی ایرانی پارلیمینٹ میں تہران کے نمایندے علی رضا ذکانی کا بیان ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں انھوں نے نہایت خوشی سے اعلان کیا کہ یمن ایران کے ہاتھوں میں ''گرنے والا'' چوتھا عرب دارالحکومت، جی ہاں یہی لفظ استعمال کیا تھا، ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثی باغیوں کو یمن میں قبضہ کرنے میں جن عناصر نے مدد دی اس میں سر فہرست یمنی حکومت کی نالایقی، بدعنوانی اور شدید قسم کی اقربا پروری ہے۔ باقی حالات سے فائدہ ایران نے اٹھایا۔ جب انھوں نے ہتھیار اٹھائے تو یمنی فوج کے پاس ڈالنے کے لیے ہتھیار بھی نہ تھے۔ یہ بالکل وہی صورتحال تھی جو عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ہوئی جب عراقی فوج بچے کھچے ہتھیار پھینک کر بھاگ کھڑی ہوئی یا باغیوں کے ساتھ مل گئی۔
اس کے علاوہ حوثیوں نے کامیاب بغاوت کے بعد بالکل حزب اللہ کی حکمت عملی اپنائی جب انھوں نے بیروت پہ قبضہ کر کے مذاکرات کے بعد جو حکومت تشکیل دی اس میں شیعہ ووٹ کو ویٹو پاور حاصل تھی۔ واضح رہے کہ یمن میں الحرک لیڈر علی سلیم البعث بیروت میں حزب اللہ کی حفاظت میں ہے اور حوثیوں کا ریڈیو اسٹیشن المصیرہ بھی حزب اللہ کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔ دسمبر۲۰۱۴ء میں حوثیوں کے دباو پر پاسداران انقلاب کے کچھ افسروں کو جو گرفتار کر لیے گئے تھے، رہا کیا گیا۔ حال ہی میں ایک ایرانی فوجی افسر گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسے میں ایران کا یمن میں امن کے لیے تجاویز پیش کرنا نرم سے نرم الفاظ میں ستم ظریفی ہے۔
اس ساری ڈیل کے بعد ایران کو ایک ایسے ملک کے طور پہ پیش ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جس نے پابندیوں کے کئی سخت سال گزارے، امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا نیوکلیر پروگرام کامیابی سے چلایا اور اسے دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور کیا۔ بہت ممکن ہے ایک جھڑپ اسرائیل کی طرف سے ہو جس میں فتح حق یعنی حزب اللہ کی ہو تو اس تاثر میں چار چاند لگ جائیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب ہے جس نے امریکا کو برادر بزرگ سمجھا اور اس کی نظریں بدلتے ہی برادر خورد کو مدد کے لیے آواز لگائی اور یہ بھول گیا کہ جب ہتھیار ڈالے جاتے ہیں تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کتنے جدید ہیں۔ البتہ ایران کو سوچنا چاہیے کہ جس شیطان بزرگ کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے کرتے اس کی نسلیں جوان ہوئیں، اس اچانک بغل گیری پہ ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے اس راز و نیاز کی قیمت ستر ہزار جانوں، بلین ڈالرز اور خوف و دہشت کی صورت میں چکائی ہے۔ کیا ایرا ن میں ہمت ہے یا حرمین شریفین والا ٹیپ ایرانی عوام کے منہ بند کرنے کے لیے کافی ہو گا؟