اچھے استاد کے اوصاف اسوہٗ حسنہ ﷺ کی روشنی میں

پراعتماد استاد ہی طلبا میں سوال کرنے کی جرأت پیدا کرسکتا ہے۔ سوال علم کی ماں ہے

مگر صد افسوس کہ آج سوال ہی ہم سے چھین لیا گیا ہے، اس سے علم کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔ فوٹو : فائل

دنیا کے دیگر معاشروں میں استاد کی تکریم مسلمہ ہے لیکن مسلم معاشرے میں استاد کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ایک کامل راہ نمائی معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ کی صورت میں موجود ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے وہ سب معلم تھے۔ معلم کا سب سے بڑا منصب تدریس ہے، کیوں کہ اسے کتاب کی علمی تشریح اور حکمت سکھانا ہوتی ہے۔ حکمت دراصل اسی کتاب کا لوگوں کی عملی زندگی میں نفاذ کا نام ہے، یہ کتاب کی عملی شکل ہے۔ پھر تزکیہ نفس کرنا ہے، حضورؐ نے فرمایا کہ ''مجھے معلم اخلاق بناکر بھیجا گیا ہے۔''

کردار کی تعمیر کے لیے معلم سمعی اور بصری دونوں صورتوں کو استعمال میں لاتا ہے۔ اچھی تدریس کی اولین شرط یہ ہے کہ استاد مطمین ہو۔ تعلیم محض نصابی کتب پڑھانے اور طالب علموں کے ذہنوں میں بعض معلومات ذخیرہ کرنے ہی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں استاد کی شخصیت، وقار، علمیت اور اس کا اپنے پیشے سے آزادانہ شغف مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔

تدریس کے لیے سب سے پہلی شرط کتاب ہے۔ جو علم بھی آپ متعلم تک پہنچانا چاہتے ہیں، اس کتاب یا نصاب سے استاد کی گہری وابستگی اور واقفیت ضروری ہے۔ پیغمبرؐ آخرالزماں اپنی کتاب کی عملی صورت تھے۔

اچھے استاد کی دوسری اہم صفت غور و فکر ہے۔ محبوب خداؐ کی حیات طیبہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے، غور و فکر کرتے یہ کسی بھی معلم کے لیے لازمی ہے۔ غور و فکر کے بغیر کبھی کسی نے زمانے کو کچھ نہیں دیا۔ عقل صرف تدبر و تفکر سے ہی بڑھتی ہے اس کے بغیر کوئی اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ معلم انسانیتؐ کی زندگی کا یہ معمول تھا، اسی غور و فکر سے آپؐ نے لوگوں کی تقدیر بدل دی۔ ہر اچھے استاد کے لیے اس سنت رسولؐ کی اتباع ضروری ہے۔ بڑا استاد مسلسل تفکر، تحقیق اور اشاعت میں مصروف عمل رہتا ہے۔

فکر و تدبر کے ساتھ کام کی لگن کے بغیر بھی اچھے استاد کا مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنا ہر کام پوری لگن سے کیا، شب و روز کی پروا نہیں کی۔ معاشی مجبوریوں، ذاتی خواہشات، بھوک پیاس، مسائل اور وسائل کی شکایت کبھی نہیں کی۔ یہاں تک کہ سفر طائف کے موقع پر حضرت زید بن حارثؓ کے ہم راہ پیدل گئے۔

مشن کی تکمیل کے لیے وسائل کے حصول تک اپنے کام کو نہیں روکا۔ ایسا نہیں ہوا کہ آپ ﷺ کو علم ہوا ہوا کہ فلاں شخص اﷲ کی بات سننا چاہتا ہے اور آپؐ نے اسے کل پر ٹال دیا ہو۔ چناںچہ اچھے استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس میں لگن ہو۔ لگن بغیر استقامت کے بے ثمر رہتی ہے چناںچہ اچھے استاد کے لیے استقامت و استحکام کا ہونا بھی ضروری ہے۔

رب العزت نے سب سے زیادہ عزت، احترام اور توقیر اہل علم کو دی ہے۔ اسوہ حسنہؐ پر نظر ڈالیں تو عیاں ہوگا کہ علم دشمنوں نے آپؐ کو اپنے مشن سے روکنے کے لیے کتنا جبر کیا، دباؤ ڈالا، پریشان کیا مگر آپ ﷺ کے پائے استقامت میں ذرا بھر لغزش نہیں آئی۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ''اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج لاکر رکھ دو تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آؤں گا''۔ یہ استحکام و استقامت کی روشن دلیل ہے۔

اچھا استاد ہونے کے لیے ایک خوبی یہ ہے کہ آپ وقت کا بہترین استعمال کرنا جانتے ہوں۔ دنیا میں اسوہ حسنہؐ کے علاوہ کہیں یہ مثال نہیں ملتی کہ اتنے کم وقت میں کسی نے اتنی بڑی تبدیلی لائی ہو۔ اچھا استاد بننے کے خواہش مندوں کے لیے لازم ہے کہ وہ وقت کے بہترین استعمال کی صلاحیت پیدا کریں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ ٹائم منیجمنٹ نہیں جانتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اﷲ کے رسولؐ کی حیات مبارکہ سے کچھ نہیں سیکھا۔


اچھے استاد کی ایک اور نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ متعلم کی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں اجاگر کرے۔ اچھا استاد مردم شناس ہوتا ہے، وہ شخصیت کی نشوونما میں رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا اور منفی فکر کا حامل نہیں ہوتا۔ آنحضور ﷺ کی حیات طیبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شناسی کی اسی صفت سے آپ نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔ وحشی معاشرے کو سنجیدہ، بُردبار اور بااخلاق بنادیا۔ یہ اسی صورت ممکن ہوا کہ آپ نے اپنے طالب علموں کے جوہر خاص کو پروان چڑھایا، ہر فرد کی صلاحیتوں کو تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ حضرت انس بن مالک ؓ دس سال آپ کے خادم رہے، انہوں نے بھی برملا کہا ''دس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اﷲ کے رسولؐ نے کسی کام پر مجھے ڈانٹا ہو۔''

نبی اکرمؐ نے لوگوں کی مثبت قوتیں ابھار کر ہی ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اچھے استاد کے لیے سیرت پاک سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ مثبت انداز میں اپنے شاگردوں کے جوہر تلاش کرکے انہیں جلا بخشیں۔ استاد کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ نصاب کو متعلم کی حقیقی زندگی سے جوڑ کر معاشرتی معاملات کی آگاہی پیدا کرسکے۔

ایک اچھے استاد کی ایک اور نمایاں صفت جس کا ادراک ہمیں سیرت طیبہؐ کے ذریعے ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ معلم تکبر و امتیاز کا حامل نہیں ہونا چاہیے۔ آپؐ نے کبھی امتیازی رویے کو نہیں اپنایا نہ بیٹھنے کے لیے جگہ مخصوص کی، نہ لباس مخصوص، نہ خوراک مخصوص نہ الگ تھلگ بیٹھنے کا طریقہ، ظاہر ہے جب تک استاد طلبہ سے گھلے ملے گا نہیں اس کی ذہنی مطابقت نہیں ہوگی، ذہنی لگاؤ نہیں ہوگا، مکالمہ نہیں ہو سکے گا۔ بغیر گھلے ملے استاد صحیح معنوں میں علم مہیا نہیں کر سکتا ۔

اچھا اور بڑا استاد خود اعتماد ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کو کام یابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ ایک استاد اسی صورت میں کام یاب قوم کی تعمیر کر سکتا ہے جب وہ اس میں خود اعتمادی بانٹ سکے۔ لیکن کچھ بانٹنے سے پہلے اس کا استاد کے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔ پراعتماد استاد کی زندگی ابہام سے پاک ہوتی ہے۔

خود اعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے کی جرأت پیدا کرسکتا ہے ۔ سوال علم کی ماں ہے مگر صد افسوس کہ آج سوال ہی ہم سے چھین لیا گیا ہے، اس سے علم کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ سوال و جواب رسول ﷺ کا وصف تدریس تھا۔ نبی کریمؐ وعظ فرماتے، جمعہ کا خطبہ دے رہے ہوتے تو لوگ کھڑے ہوکر سوال پوچھتے اور آپؐ جواب دیتے۔

اچھا استاد اپنے شاگردوں کا محبوب ہوتا ہے۔ استاد کا اندازِ حیات، اس کی گُفتار و کردار طالب علم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ استاد کی عادات ، اظہار، اعتدال، اعلیٰ ظرفی، وقار و متانت اور علم و تحقیق ہی اسے محبوب بناسکتی ہیں اگر استاد کی شخصیت میں اس کا فقدان ہوتو وہ اچھا استاد نہیں بن سکتا۔

اچھا استاد وعدے کا پکا اور پاس دار ہوتا ہے۔ ایک اچھا استاد غیبت کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، دروغ گو اور کھوکھلے دعوے کرنے والا نہیں ہوتا۔ چناںچہ اپنے ذاتی کردار کا محاسبہ کیے بغیر اچھا معلم نہیں بنا جاسکتا۔ اچھا استاد ہمیشہ آسانیاں پیدا کرنے والا اور علم کو خوش خبری کے انداز میں دینے والا ہوتا ہے۔ جب تک آپ طلبا کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھیں گے آپ بڑے معلم نہیں بن سکتے۔

اچھا استاد ہمیشہ اچھا طالب علم رہتا ہے وہ ہمیشہ نئے علم اور نئی روشنی کو اپنانے والا ہوتا ہے۔ خندق کھودنا اہل فارس کا طریقہ تھا، آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے اختیار کیا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپؐ کو پاجامہ پیش کیا تو آپؐ نے اسے پہنا اور بڑا پسند کیا حالاںکہ عرب پاجامہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپؐ نے یمن کی طرف بعض صحابہ کرامؓ کو بھیجا کہ جاؤ اور قلعوں پر چڑھنے کی ترکیب سیکھ کے آؤ، حضور ؐ کی یہ حدیث بہت مشہور ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ دین کے علاوہ بھی دیگر علوم حاصل کرنا بھی ضروری ہیں۔

بڑے استاد کی ایک اور مثالی صفت قوت برداشت ہے۔ وہ منفی ردعمل نہیں دیتا۔ بڑا استاد عالی ظرف ہوتا ہے، معافی اور درگذر کرنا اس کے بڑے پن کا ثبوت ہوتے ہیں۔

مذکورہ بالا صفات و خصوصیات کے حامل اچھے استاد پیدا کیے بغیر کوئی بھی نظام تعلیم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔ کھوکھلے اور زوال پذیر معاشرے میں استاد کو پہلے خودآشنا ہوکر اپنی اصلاح کرنی ہے اس کے بعد ہی وہ تعمیر کردار کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ استاد خود کو پیغمبروں کی میراث معلمی کے وارث کہتے ہیں لہٰذا انہیں معلم انسانیت و فخر انسانیتﷺ کے اسوہ حسنہ سے راہ نمائی حاصل کرکے کردار سازی کرنا ہے۔
Load Next Story