اٹک کے اس پار اور ایورسٹ
ہم پاکستانی یمن میں بے سہارا اپنےعزیزوں کی واپسی سےابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ قدرت نے ہمیں ایک اور آزمائش میں ڈال دیا
Abdulqhasan@hotmail.com
ہم پاکستانی یمن میں بے سہارا اپنے عزیزوں کی واپسی سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ قدرت نے ہمیں ایک اور آزمائش میں ڈال دیا، نیپال میں بے سہارا ہوجانے والے پاکستانیوں کو ان کے وطن میں واپس لانے میں ہم مصروف ہو گئے اور ابھی دیار غیر سے یہ واپسی جاری تھی کہ ہمارے صوبہ خیبر پی کے میں زبردست بارشوں' ژالہ باری اور غیر معمولی تیز ہواؤں نے قیامت برپا کر دی۔
گھر گرنے لگے اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ شہر اور دیہات اس تباہی میں ایک ہو گئے اورسمجھ میں نہیں آتا کہ بارش اور ژالہ باری سے متاثر ان پاکستانیوں کو کس طرح پھر سے آباد کیا جائے گا۔ یعنی بعض پاکستانیوں کا جو حال کسی غیر ملک میں تھا وہی حال اب ملک کے اندر بھی ہو گیا۔ میں اس پھیلنے والی تباہی سے سخت خوفزدہ ہوں، سہما ہوا ہوں اور یہ سب لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ مجھے اس میں خالق کائنات کی ناراضگی کا پہلو محسوس ہوتا ہے۔
اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ جب ہم اس آزمائش اور مصیبت میں مبتلا ہیں تو ہمارے حکمران ملک سے باہر ہیں۔ نہ معلوم انھیں کیا ضروری کام ہے کہ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے ہیں اور وہاں لندن میں انھوں نے عیسائی قوتوں کی مسلمانوں کے خلاف گیلی پولی کی جنگ کی سو سالہ یاد گاری تقریب میں پھول لے کر شرکت بھی کی۔ اس جنگ کا نتیجہ متنازع ہے۔
ترک مصطفٰے کمال اسے اپنی اور برطانوی ونسٹن چرچل اسے اپنی فتح سمجھتا ہے۔ اس کے بہت بعد حالات بدل گئے اور عثمانی خلافت کے خلاف عیسائیوں کی جنگ خلافت کے خاتمے تک پہنچ گئی۔ آج ایک اور انقلاب یہ آیا ہے کہ سب سے طاقتور مسلمان ملک کا بادشاہ مسلمانوں کے تاریخی دشمن کی ایک فتح کی یاد گاری تقریب میں پھول چڑھانے کے لیے پہنچ جاتا ہے اور وہاں عیسائی رواج کے مطابق ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کرتا ہے۔
میں اس سانحہ کو یوں پرے دھکیل دیتا ہوں کہ میاں صاحب کو گیلی پولی کے اس سو سالہ پرانے تاریخی سانحہ کا علم ہی نہیں تھا اور انھوں نے اپنے ارد گرد جو یاجوج ماجوج جمع کر رکھے ہیں وہ بھی بالکل کورے اور ن لیگ کے کارکن ہی ہیں اور بس۔ بات پاکستان کے اندر ایک زبردست ہلاکت خیز سانحے کی ہو رہی تھی۔ میاں شہباز کی بڑی خواہش رہتی ہے کہ انھیں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکمرانی کے واقعات بتائے جائیں جو اسلام میں پہلی ملوکیت کی تاریکی میں سے طلوع ہوئے تھے اور حکمرانی کی ایک مثال بن گئے تھے۔
ان کے دور کا ایک واقعہ دوبارہ نقل کرتا ہوں کہ دور جنگل میں چرنے والے ایک ریوڑ میں سے بھیڑیا بکری اٹھا کر لے گیا۔ اس پر ریوڑ کا مالک رونے پیٹنے لگا اور اس کا دکھ حد سے بڑھ گیا تو اس کے بیٹے نے کہا کہ بابا ایسے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں آپ کیوں اس قدر پریشان ہو گئے ہیں، اس پر اس بوڑھے نے کہا کہ بیٹے میں ایک بکری کو نہیں رو رہا میں تو اپنے محافظ امیر المومنین کو رو رہا ہوں جن کا سایہ اب ہم پر باقی نہیں رہا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عین اسی وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز فوت ہو گئے تھے۔
عمر بن خطابؓ فرات کے کنارے کسی کتے کی بھوک کو اپنی ذمے داری کیوں قرار دیتا تھا اس لیے کہ یہ اپنی سلطنت کے ہر ذی روح کے ذمے دار ہوتے تھے اور جب ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے انھیں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو انھوں نے اپنا کوڑا زمین پر مارتے ہوئے کہا کہ دیکھو کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم بگڑ رہی ہو۔
بہر کیف بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک پورے صوبے میں قیامت برپا ہے۔ بے پناہ بارش اور ژالہ باری جس سے گھروں کی چھتیں اور دیواریں گر رہی ہیں اور کھیتوں میں کاشتکاروں کی روزی تباہ ہو گئی ہے ان کو سہارا کون دے گا کیونکہ ان کا ذمے دار تو سات سمندر پار مسلمان دشمنوں کی کسی تاریخی تقریب میں پھول چڑھا رہا ہے۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اس ملک کی حکومت جو خدا و رسول پاکؐ کے نام پر قائم کیا گیا تھا صرف 68 برس پہلے۔ حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اب تک کی خبروں سے پتہ چلا ہے کہ نیپال میں موجود پاکستانی واپس آ گئے ہیں اور یہ بھی خصوصی خبر ہے کہ وہاں کے پاکستانی سفارت کار وہیں رہیں گے اس خبر کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اس سے قبل یمن میں جب صورت حال بگڑ گئی تو پاکستانی سفیر موصوف اپنے عملے کے ہمراہ پہلے جہاز سے پاکستان بھاگ آیا تھا جس کا پاکستانیوں نے بہت برا منایا تھا اوربڑی شرمندگی اٹھائی تھی کہ جہاز کا کپتان جہاز کو ڈوبتا چھوڑ کر سب سے آخر کے بجائے سب سے پہلے جہاز سے بھاگ گیا۔
ہمارے اٹک کے اس پار کے صوبے میں جو تباہی آئی ہے وہ اس صوبے کے جوان مرد اور بہادر باسی خود ہی سنبھال لیں گے اور جس قدر ممکن ہو گا ان کے پاکستانی بھائی بھی ان کی خدمت کریں گے وہاں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حکومت ہے اور دونوں جماعتیں عوام کا نام لے کر جیتی ہیں۔ جناب عمران خان 62-63 برس کی عمر میں بھی تازہ دم ہیں اور سراج الحق صاحب بھی جوان ہی ہیں۔
یہاں کے وزیراعلیٰ سے ان کی روشن خیالی کی وجہ سے مجھے بہت امیدیں ہیں اس صوبے کے عوام پر قدرت کی طرف سے جو گزرنی تھی وہ تو گزر گئی اور کسی کے اختیار میں کچھ نہ تھا لیکن اپنے ان بھائیوں کی خدمت اور ہر قسم کی مدد ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم نیپال والوں کو بھی امداد بھیج رہے ہیں۔ میں اپنی وادی سون کی طرح اس پہاڑی سنگلاخ ملک میں کئی بار گیا ہوں اور کئی بار نیپالیوں سے سنا ہے کہ پاکستان ہماری مدد کرے گا، وہ دنیا کی واحد ہندو قوم اور حکومت ہونے کے باوجود بھارت سے ناامید اور پاکستان سے پر امید رہے ہیں اور کیا یہ بھی ہونا تھا کہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ایورسٹ پر بھی زلزلہ آنا تھا۔
میں نے ذرا دور سے ہی سہی یہ چوٹی دیکھی ہوئی ہے۔ پی آئی اے کے جہاز نے ایک بار نیپال جاتے ہوئے ایک چکر ایورسٹ کے گرد بھی لگا لیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اپنے دائیں طرف ایورسٹ کا نظارہ کر لیں۔ یہ اس چوٹی کا قریب ترین نظارہ تھا۔ اس کے بعد جب ایئر پورٹ پر اترے تو حکومت نیپال نے ایک خوبصورت تصویر دی اس عظیم چوٹی کی جس پر ایک جگہ لکھا تھا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جس نے ایورسٹ کو دیکھا ہے۔ نیپال کا ذکر پھر کبھی۔
گھر گرنے لگے اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ شہر اور دیہات اس تباہی میں ایک ہو گئے اورسمجھ میں نہیں آتا کہ بارش اور ژالہ باری سے متاثر ان پاکستانیوں کو کس طرح پھر سے آباد کیا جائے گا۔ یعنی بعض پاکستانیوں کا جو حال کسی غیر ملک میں تھا وہی حال اب ملک کے اندر بھی ہو گیا۔ میں اس پھیلنے والی تباہی سے سخت خوفزدہ ہوں، سہما ہوا ہوں اور یہ سب لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ مجھے اس میں خالق کائنات کی ناراضگی کا پہلو محسوس ہوتا ہے۔
اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ جب ہم اس آزمائش اور مصیبت میں مبتلا ہیں تو ہمارے حکمران ملک سے باہر ہیں۔ نہ معلوم انھیں کیا ضروری کام ہے کہ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے ہیں اور وہاں لندن میں انھوں نے عیسائی قوتوں کی مسلمانوں کے خلاف گیلی پولی کی جنگ کی سو سالہ یاد گاری تقریب میں پھول لے کر شرکت بھی کی۔ اس جنگ کا نتیجہ متنازع ہے۔
ترک مصطفٰے کمال اسے اپنی اور برطانوی ونسٹن چرچل اسے اپنی فتح سمجھتا ہے۔ اس کے بہت بعد حالات بدل گئے اور عثمانی خلافت کے خلاف عیسائیوں کی جنگ خلافت کے خاتمے تک پہنچ گئی۔ آج ایک اور انقلاب یہ آیا ہے کہ سب سے طاقتور مسلمان ملک کا بادشاہ مسلمانوں کے تاریخی دشمن کی ایک فتح کی یاد گاری تقریب میں پھول چڑھانے کے لیے پہنچ جاتا ہے اور وہاں عیسائی رواج کے مطابق ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کرتا ہے۔
میں اس سانحہ کو یوں پرے دھکیل دیتا ہوں کہ میاں صاحب کو گیلی پولی کے اس سو سالہ پرانے تاریخی سانحہ کا علم ہی نہیں تھا اور انھوں نے اپنے ارد گرد جو یاجوج ماجوج جمع کر رکھے ہیں وہ بھی بالکل کورے اور ن لیگ کے کارکن ہی ہیں اور بس۔ بات پاکستان کے اندر ایک زبردست ہلاکت خیز سانحے کی ہو رہی تھی۔ میاں شہباز کی بڑی خواہش رہتی ہے کہ انھیں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکمرانی کے واقعات بتائے جائیں جو اسلام میں پہلی ملوکیت کی تاریکی میں سے طلوع ہوئے تھے اور حکمرانی کی ایک مثال بن گئے تھے۔
ان کے دور کا ایک واقعہ دوبارہ نقل کرتا ہوں کہ دور جنگل میں چرنے والے ایک ریوڑ میں سے بھیڑیا بکری اٹھا کر لے گیا۔ اس پر ریوڑ کا مالک رونے پیٹنے لگا اور اس کا دکھ حد سے بڑھ گیا تو اس کے بیٹے نے کہا کہ بابا ایسے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں آپ کیوں اس قدر پریشان ہو گئے ہیں، اس پر اس بوڑھے نے کہا کہ بیٹے میں ایک بکری کو نہیں رو رہا میں تو اپنے محافظ امیر المومنین کو رو رہا ہوں جن کا سایہ اب ہم پر باقی نہیں رہا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عین اسی وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز فوت ہو گئے تھے۔
عمر بن خطابؓ فرات کے کنارے کسی کتے کی بھوک کو اپنی ذمے داری کیوں قرار دیتا تھا اس لیے کہ یہ اپنی سلطنت کے ہر ذی روح کے ذمے دار ہوتے تھے اور جب ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے انھیں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو انھوں نے اپنا کوڑا زمین پر مارتے ہوئے کہا کہ دیکھو کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم بگڑ رہی ہو۔
بہر کیف بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک پورے صوبے میں قیامت برپا ہے۔ بے پناہ بارش اور ژالہ باری جس سے گھروں کی چھتیں اور دیواریں گر رہی ہیں اور کھیتوں میں کاشتکاروں کی روزی تباہ ہو گئی ہے ان کو سہارا کون دے گا کیونکہ ان کا ذمے دار تو سات سمندر پار مسلمان دشمنوں کی کسی تاریخی تقریب میں پھول چڑھا رہا ہے۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اس ملک کی حکومت جو خدا و رسول پاکؐ کے نام پر قائم کیا گیا تھا صرف 68 برس پہلے۔ حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اب تک کی خبروں سے پتہ چلا ہے کہ نیپال میں موجود پاکستانی واپس آ گئے ہیں اور یہ بھی خصوصی خبر ہے کہ وہاں کے پاکستانی سفارت کار وہیں رہیں گے اس خبر کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اس سے قبل یمن میں جب صورت حال بگڑ گئی تو پاکستانی سفیر موصوف اپنے عملے کے ہمراہ پہلے جہاز سے پاکستان بھاگ آیا تھا جس کا پاکستانیوں نے بہت برا منایا تھا اوربڑی شرمندگی اٹھائی تھی کہ جہاز کا کپتان جہاز کو ڈوبتا چھوڑ کر سب سے آخر کے بجائے سب سے پہلے جہاز سے بھاگ گیا۔
ہمارے اٹک کے اس پار کے صوبے میں جو تباہی آئی ہے وہ اس صوبے کے جوان مرد اور بہادر باسی خود ہی سنبھال لیں گے اور جس قدر ممکن ہو گا ان کے پاکستانی بھائی بھی ان کی خدمت کریں گے وہاں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حکومت ہے اور دونوں جماعتیں عوام کا نام لے کر جیتی ہیں۔ جناب عمران خان 62-63 برس کی عمر میں بھی تازہ دم ہیں اور سراج الحق صاحب بھی جوان ہی ہیں۔
یہاں کے وزیراعلیٰ سے ان کی روشن خیالی کی وجہ سے مجھے بہت امیدیں ہیں اس صوبے کے عوام پر قدرت کی طرف سے جو گزرنی تھی وہ تو گزر گئی اور کسی کے اختیار میں کچھ نہ تھا لیکن اپنے ان بھائیوں کی خدمت اور ہر قسم کی مدد ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم نیپال والوں کو بھی امداد بھیج رہے ہیں۔ میں اپنی وادی سون کی طرح اس پہاڑی سنگلاخ ملک میں کئی بار گیا ہوں اور کئی بار نیپالیوں سے سنا ہے کہ پاکستان ہماری مدد کرے گا، وہ دنیا کی واحد ہندو قوم اور حکومت ہونے کے باوجود بھارت سے ناامید اور پاکستان سے پر امید رہے ہیں اور کیا یہ بھی ہونا تھا کہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ایورسٹ پر بھی زلزلہ آنا تھا۔
میں نے ذرا دور سے ہی سہی یہ چوٹی دیکھی ہوئی ہے۔ پی آئی اے کے جہاز نے ایک بار نیپال جاتے ہوئے ایک چکر ایورسٹ کے گرد بھی لگا لیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اپنے دائیں طرف ایورسٹ کا نظارہ کر لیں۔ یہ اس چوٹی کا قریب ترین نظارہ تھا۔ اس کے بعد جب ایئر پورٹ پر اترے تو حکومت نیپال نے ایک خوبصورت تصویر دی اس عظیم چوٹی کی جس پر ایک جگہ لکھا تھا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جس نے ایورسٹ کو دیکھا ہے۔ نیپال کا ذکر پھر کبھی۔