ان سے جان کب چھوٹے گی
ہماری سیاست میں بھی ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں جو اپنا سرمایہ اور قوم کا وقت ضایع کرنا چاہتے ہیں...
Abdulqhasan@hotmail.com
اب تو پاکستانی کھیلوں کے معتبر اور معزز مدبر بھی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں اور تکلف برطرف چار و ناچار اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بلبلا اٹھے ہیں ،کوئی عذر تلاش نہیں کر پاتے بس یہ کہہ کر رہ گئے کہ وہ ہارنے کے لیے کھیلتے ہیں اور پوری قوم کو رسوا کرتے ہیں اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں مناسب سزا کے بعد ان تمام کھلاڑیوں کو کھیل سے ہمیشہ کے لیے بین کر دیتا اور نہ صرف کھیل کے میدان ان کے لیے ممنوع کر دیتا ان کو ان کے کیے کی یہ سزا بھی دیتا کہ ان سے وہ تمام شاہانہ اخراجات واپس وصول کرتا جو قومی خزانے سے شکریے کے ساتھ ان پر خرچ کیے گئے ہیں۔
ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے کھلاڑیوں کی کوئی حد نہیں ہے اور قوم و ملک کی رسوائی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور جا بھی چکے ہیں۔ ان کا رویہ بالکل ہی ناقابل فہم ہے اور معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں نہ تو کوئی شرم و حیا کی رگ موجود ہے اور نہ ہی بے حیائی کی کوئی حد ہے۔ ہمیں ایسا کرکٹ نہیں چاہیے جو کھیل کی جگہ قوم سے کسی انتقام کا ذریعہ بن جائے۔
جب کبھی کوئی کرکٹ کو سمجھنے والا اچھا مینجر ملے گا اور وہ مناسب ٹیم تیار کر سکے گا تو پھر باقاعدہ کرکٹ بھی کھیل لیں گے تب تک یہ گلی کوچوں والا کرکٹ ہی بہت ہے۔ لکھتے لکھتے خیال آیا ہے کہ ان کھلاڑیوں کا نفسیاتی معائنہ بھی کرانا چاہیے کہ ان کے اندر اس قدر لاپروائی کا عنصر کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا تھا۔ یہ یوں بھی ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی نفسیات کیا بن رہی ہے اور کیوں بن رہی ہے۔ کئی بے معنی اور فضول قسم کی وزارتوں میں ایک با مقصد یعنی وزارت نفسیات اور ذہنی و باطنی کیفیات بھی بنا دینی چاہیے۔
ڈر لگ رہا ہے کہ یہ نفسیات کہیں قومی مرض نہ بن جائے اور کسی زمانے میں جب کسی میچ کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ تو فکس میچ تھا تو کہیں ہماری پوری ٹیم ہی فکس نہ کر لی گئی ہو۔ مجھے بنگلہ دیش پر شک ہے اور جس طرح اس کی وزیراعظم بڑے یقین کی کیفیت لے کر کھیل دیکھا کرتی تھی اس سے میرا شک مزید بڑھ جاتا ہے حالانکہ اس کے بنگلہ بندھو باپ اور دوسرے خاندان کو ڈھاکا میں بنگالیوں نے ختم کیا تھا اس واردات میں پاکستان کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
یہ وزیراعظم بچ گئی کیونکہ یہ اس وقت بھارت میں تھی جب ڈھاکا میں اس کا خاندان ختم کیا جا رہا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں بنگلہ دیش سے مسلسل اور شرمناک شکست ایک مسئلہ ہے اور اسے محض کھیل میں روایتی شکست و فتح نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کرکٹ کے کھیل کو باقی رکھنا ہے تو پھر یہ مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ یہ سقوط ڈھاکا نہیں جس کا اب تک فیصلہ نہیں ہوا اور اس کے کردار بھی مر کھپ گئے ہیں۔
یہ سطریں لکھنے سے پہلے میں ہلکے پھلکے موڈ میں تھا لیکن کرکٹ کی رسوائیاں یاد آ گئیں اور بات سنجیدہ ہو گئی۔ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ ہماری قومی زندگی کی بعض دوسری شکستوں کو ذہن میں رکھیں اور ان کے کھلاڑیوں پر بھی پابندی لگا دیں۔ مثلاً ہمارے بعض اخباری لکھنے والے اپنے اخباری کام کے ساتھ ساتھ مدتوں سے مضمون نگاری بھی کر رہے ہیں جسے وہ کالم نگاری کہنے پر بضد ہیں جو ایک جرم ہے۔
اسے کوئی بھی نام دیں، وہ اس میں ناکام ہیں، کالم نگاری میں بھی اور مضمون نگاری میں بھی۔ اخبار کی جگہ ضایع ہونے سے بچانے کے لیے ان لکھاریوں پر پابندی لگانی صحافت کے حق میں بہت مفید ہو گا۔ میری زندگی میں ایک حادثہ ہوا کہ مجھے ایک نامی گرامی اخبار کا چیف ایڈیٹر بنا دیا گیا۔
اس اخبار میں کچھ لوگ مدتوں سے یعنی میری عمر سے زیادہ کے عرصے سے خبروں کی ترتیب کے علاوہ لکھ بھی رہے تھے اور اخبار کا دوسرا اخباری کام بھی کر رہے تھے ان کے مضامین جب مجھے بھجوائے جاتے تو انھیں دیکھ کر مجھے بڑی الجھن ہوتی کہ وہ ایسے بڑے اخبار میں کیسے چھاپے جائیں ۔
جس کے ایڈیٹر فیض' حسرت اور ندیم قاسمی رہے ہوں چنانچہ میں نے طے کیا کہ یہ مضامین یا کالم مجھے نہ بھیجے جائیں اور اس گناہ میں کسی دوسرے ساتھی کو شریک کر لیا جائے۔ اگر اختیار ہو تو میں ایسے کالم نگار اور مضامین نگار خواتین و حضرات پر بھی پابندی لگانا چاہتا ہوں اور قارئین کا شکریہ وصول کرنا چاہتا ہوں۔ کرکٹ کے شوقین حضرات کی طرح لیکن یہ محض ایک خواہش ہی ہے۔
ہماری سیاست میں بھی ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں جو اپنا سرمایہ اور قوم کا وقت ضایع کرنا چاہتے ہیں اور ایک الیکشن ہارنے کے بعد دوسرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بعض جماعتوں اور لیڈروں کی تو پوری زندگی اسی شغل میں گزر جاتی ہے مگر وہ باز نہیں آتے۔ کراچی کے حالیہ ضمنی الیکشن اور پھر بلدیاتی الیکشن میں کئی جماعتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں مگر وہ اب اپنے ماہرین کے ساتھ مشوروں میں مصروف ہیں کہ کہاں غلطی ہوئی ہے اور آیندہ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
حالانکہ ان کی تمام سیاست ہی ایک غلطی ہے مگر میں ان کا نام نہیں لوں گا کہ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہمیں انھی برخود غلط سیاستدانوں کے ساتھ صحافتی زندگی کاٹنی ہے۔ اللہ ہم سب کو سلامت رکھے اور الیکشن وغیرہ ہوتے رہیں بس مارشل لاء نہ لگے اگرچہ اس سے واسطہ تو عمر بھر کا رہا ہے مگر ڈر نہیں نکلا۔ اس کا نام آتے ہی گھگھی بندھ جاتی ہے۔
ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے کھلاڑیوں کی کوئی حد نہیں ہے اور قوم و ملک کی رسوائی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور جا بھی چکے ہیں۔ ان کا رویہ بالکل ہی ناقابل فہم ہے اور معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں نہ تو کوئی شرم و حیا کی رگ موجود ہے اور نہ ہی بے حیائی کی کوئی حد ہے۔ ہمیں ایسا کرکٹ نہیں چاہیے جو کھیل کی جگہ قوم سے کسی انتقام کا ذریعہ بن جائے۔
جب کبھی کوئی کرکٹ کو سمجھنے والا اچھا مینجر ملے گا اور وہ مناسب ٹیم تیار کر سکے گا تو پھر باقاعدہ کرکٹ بھی کھیل لیں گے تب تک یہ گلی کوچوں والا کرکٹ ہی بہت ہے۔ لکھتے لکھتے خیال آیا ہے کہ ان کھلاڑیوں کا نفسیاتی معائنہ بھی کرانا چاہیے کہ ان کے اندر اس قدر لاپروائی کا عنصر کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا تھا۔ یہ یوں بھی ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی نفسیات کیا بن رہی ہے اور کیوں بن رہی ہے۔ کئی بے معنی اور فضول قسم کی وزارتوں میں ایک با مقصد یعنی وزارت نفسیات اور ذہنی و باطنی کیفیات بھی بنا دینی چاہیے۔
ڈر لگ رہا ہے کہ یہ نفسیات کہیں قومی مرض نہ بن جائے اور کسی زمانے میں جب کسی میچ کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ تو فکس میچ تھا تو کہیں ہماری پوری ٹیم ہی فکس نہ کر لی گئی ہو۔ مجھے بنگلہ دیش پر شک ہے اور جس طرح اس کی وزیراعظم بڑے یقین کی کیفیت لے کر کھیل دیکھا کرتی تھی اس سے میرا شک مزید بڑھ جاتا ہے حالانکہ اس کے بنگلہ بندھو باپ اور دوسرے خاندان کو ڈھاکا میں بنگالیوں نے ختم کیا تھا اس واردات میں پاکستان کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
یہ وزیراعظم بچ گئی کیونکہ یہ اس وقت بھارت میں تھی جب ڈھاکا میں اس کا خاندان ختم کیا جا رہا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں بنگلہ دیش سے مسلسل اور شرمناک شکست ایک مسئلہ ہے اور اسے محض کھیل میں روایتی شکست و فتح نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کرکٹ کے کھیل کو باقی رکھنا ہے تو پھر یہ مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ یہ سقوط ڈھاکا نہیں جس کا اب تک فیصلہ نہیں ہوا اور اس کے کردار بھی مر کھپ گئے ہیں۔
یہ سطریں لکھنے سے پہلے میں ہلکے پھلکے موڈ میں تھا لیکن کرکٹ کی رسوائیاں یاد آ گئیں اور بات سنجیدہ ہو گئی۔ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ ہماری قومی زندگی کی بعض دوسری شکستوں کو ذہن میں رکھیں اور ان کے کھلاڑیوں پر بھی پابندی لگا دیں۔ مثلاً ہمارے بعض اخباری لکھنے والے اپنے اخباری کام کے ساتھ ساتھ مدتوں سے مضمون نگاری بھی کر رہے ہیں جسے وہ کالم نگاری کہنے پر بضد ہیں جو ایک جرم ہے۔
اسے کوئی بھی نام دیں، وہ اس میں ناکام ہیں، کالم نگاری میں بھی اور مضمون نگاری میں بھی۔ اخبار کی جگہ ضایع ہونے سے بچانے کے لیے ان لکھاریوں پر پابندی لگانی صحافت کے حق میں بہت مفید ہو گا۔ میری زندگی میں ایک حادثہ ہوا کہ مجھے ایک نامی گرامی اخبار کا چیف ایڈیٹر بنا دیا گیا۔
اس اخبار میں کچھ لوگ مدتوں سے یعنی میری عمر سے زیادہ کے عرصے سے خبروں کی ترتیب کے علاوہ لکھ بھی رہے تھے اور اخبار کا دوسرا اخباری کام بھی کر رہے تھے ان کے مضامین جب مجھے بھجوائے جاتے تو انھیں دیکھ کر مجھے بڑی الجھن ہوتی کہ وہ ایسے بڑے اخبار میں کیسے چھاپے جائیں ۔
جس کے ایڈیٹر فیض' حسرت اور ندیم قاسمی رہے ہوں چنانچہ میں نے طے کیا کہ یہ مضامین یا کالم مجھے نہ بھیجے جائیں اور اس گناہ میں کسی دوسرے ساتھی کو شریک کر لیا جائے۔ اگر اختیار ہو تو میں ایسے کالم نگار اور مضامین نگار خواتین و حضرات پر بھی پابندی لگانا چاہتا ہوں اور قارئین کا شکریہ وصول کرنا چاہتا ہوں۔ کرکٹ کے شوقین حضرات کی طرح لیکن یہ محض ایک خواہش ہی ہے۔
ہماری سیاست میں بھی ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں جو اپنا سرمایہ اور قوم کا وقت ضایع کرنا چاہتے ہیں اور ایک الیکشن ہارنے کے بعد دوسرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بعض جماعتوں اور لیڈروں کی تو پوری زندگی اسی شغل میں گزر جاتی ہے مگر وہ باز نہیں آتے۔ کراچی کے حالیہ ضمنی الیکشن اور پھر بلدیاتی الیکشن میں کئی جماعتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں مگر وہ اب اپنے ماہرین کے ساتھ مشوروں میں مصروف ہیں کہ کہاں غلطی ہوئی ہے اور آیندہ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
حالانکہ ان کی تمام سیاست ہی ایک غلطی ہے مگر میں ان کا نام نہیں لوں گا کہ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہمیں انھی برخود غلط سیاستدانوں کے ساتھ صحافتی زندگی کاٹنی ہے۔ اللہ ہم سب کو سلامت رکھے اور الیکشن وغیرہ ہوتے رہیں بس مارشل لاء نہ لگے اگرچہ اس سے واسطہ تو عمر بھر کا رہا ہے مگر ڈر نہیں نکلا۔ اس کا نام آتے ہی گھگھی بندھ جاتی ہے۔