تنقید برائے تعمیر

ارے صاحب! اگر آپ خود کچھ کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے تو دوسروں کو تو تنقید کے ذریعے اچھے کام سے نہ روکیں۔

اُن لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر اُن کے عزم سے بدظن مت کیجیے جو اپنے شہر کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

LANSING, KANSAS:
یوں تو ہر کسی کو اپنے ملک، شہر، ذات اور مذہب سے پیار ہوتا ہے اور وہ محبت کو ظاہر کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے لیکن کچھ لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو کہ عملاً اپنی محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ لوگ بلکہ ایسے ہی کچھ نوجوان جو کہ اپنے شہر اور اس کے لوگوں سے محبت کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے شہر سے محبت ظاہر کرنے اور اپنے شہر اور اس کے باشندوں کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک سماجی تنظیم کا آغاز کیا۔

جس کے تحت نوجوانوں نے اپنے شہر کے نوجوانوں کو مستقبل کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنے اور اچھے مستقبل کے مواقع فراہم کرنے کا عزم کیا اور اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اسکول اور کالجز میں امن اور خو د اعتمادی سے متعلق سیمینار کا انعقاد کروایا جس کے ذریعے کئی طالبعلم میں خود اعتمادی اور کچھ کر دکھانے کے جذبہ کو قائم کرنے کی کوشش کی۔



اس منصوبے کی کامیابی کے بعد نوجوانوں نے پودے لگا کر اپنے شہر کو خوبصورت بنانے اور دوسرے نوجوانوں کو پودے اگانے کی ترغیب دینے کا عزم کیا۔ اس منصوبے کے تحت نوجوانوں نے سرکاری و عوامی اداروں اور اپنی مدد آپ کے تحت پودوں کیلیے چندہ جمع کرکے خود شہر کی سٹرکوں کے درمیان پودے لگائے اور اِس کام کو مکمل ہونے میں دو دن کا وقت لگا۔

نوجوان اپنے اس منصوبے کی کامیابی پر بے حد خوش تھے اور وہ پُرامید بھی تھے کہ اپنے اِس مشن کو مزید آگے لیکر جائیں گے مگر اگلے ہی ہفتے نوجوانوں کو یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ محنت سے لگائے گئے بیشتر پودے یا تو خراب ہوگئے تھے یا سوکھ چکے تھے۔

اب یہ الگ بات ہے کہ اِس تکلیف دہ منظر کو نوجوانوں یا شہریوں کی غفلت کہیں یا پھر کچھ اور، مگر! نوجوان اس صدمے سے دلبرداشتہ تھے کہ اُن کی اِس قدر محںت ایک ہی ہفتے میں ضائع ہوگئی، ابھی اُن کو یہی غم کھایا جارہا تھا تو دوسری طرف اُن نے اپنے پیارے شہر کے لوگوں (جن کی خاطر نوجوان بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے تھے) کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔

تنقید کچھ یوں ہوئی کہ

پودے لگائے تو حفاظت تو کرتے
پودے لگائے تو ان کے گرد باڑ تو لگاتے
پودوں کو پانی تو دیتے

اس تنقید کو سننے کے بعد کئی نوجوان اپنے عزم سے بد ظن ہوگئے اور حب الشہریت کا جذبہ کہیں تاریک گہرائیوں میں کھو گیا۔

میری اپنے شہر کے لوگوں سے اتنی التجا ہے کہ!

'ارے صاحب! اگر آپ خود کچھ کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے کم سے کم ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ایسے لوگوں کو اپنے عزم سے بدظن تو مت کیجیے جو اپنے شہر کی خاطرکچھ کرنا چاہتے ہیں۔

تنقید ضرور کیجیے،


پر!

برائے مہربانی ! تنقید برائے تعمیر کیجیے ۔



تنقید برائے تنقید سے پرہیز کیجیے ۔

کیونکہ یقین کیجیے کہ آپ کی تنقید برائے تنقید سے ان میں سے کئی نوجوانوں کو چاہے خاصہ فرق نہ پڑا ہو،

پر ہاں! ان نوجوانوں کی وجہ سے جو دوسرے نوجوانوں میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہوا تھا انکے حوصلے ضرور پست ہوئے ہونگے اور یہ نقصان آپ کا اپنا آپ کے شہر کا اور آپ کے ملک کا ہے۔

شاید ان نوجوانوں میں آپ کا ہی کوئی عزیز ہو جو کہ صرف اس ڈر سے کچھ نہ کرے کہ لوگ اسے بھی تنقید کا نشانہ بنائے گے۔

برائے کرم!

ذرا حوش کے ناخن لیں ۔

تنقید کو چھوڑ کر ذرا اپنی ذمہ داری کو بھی سمجھیں جتنی ذمہ داری شہر سے یا ملک سے متعلق ان نوجوانوں کی بنتی ہے اتنی ہی ذمہ داری آپ کی بھی بنتی ہے۔



آپ فقط تنقید کرکے اپنے فرائض اور ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اس طرح نہ تو آپ ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے کوئی تعمیری کام ہاں لیکن اگر کچھ کررہے ہیں تو وہ یہ کہ لوگوں کے حوصلے ضرور پست کررہے ہیں۔

[poll id="392"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی
Load Next Story